• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قدرت نے انسانی جسم کو مختلف بیماریوں سے بچانے کیلئے اُس میں خون کے ایسے سفید خلیے ڈالے ہیں جو اُسے جراثیم سے محفوظ رکھتے ہیں۔ ایڈز کا سبب بننے والا وائرس ایچ آئی وی، انسانی جسم میں داخل ہو کر اُن سفید خلیوں کو کمزور حتیٰ کہ تباہ کر دیتا ہے۔ جن لوگوں کا دفاعی نظام ایچ آئی وی کے سبب کمزور ہو چکا ہو، اُن میں بیماریوں کیخلاف قوتِ مدافعت کم ہو جاتی ہے اور بالآخر وہ زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں تقریباً ایک لاکھ 65ہزار لوگ ایچ آئی وی پازیٹو ہیں جن میں 60ہزار صوبہ سندھ میں ہیں۔ صوبہ سندھ کے ضلع لاڑکانہ کی تحصیل رتوڈیرو میں حالیہ دنوں میں ایچ آئی وی وائرس وبائی شکل اختیار کرچکا ہے، جس کی سب سے بڑی وجہ ایڈز کے وائرس سے متاثرہ سرنجوں کا بار بار استعمال اور خون کی غیر محفوظ منتقلی قرار دی جا رہی ہے۔ محکمہ ایڈز کنٹرول پروگرام سندھ کی نااہلی کے باعث سندھ میں ایڈز اور ایچ آئی وی کے مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جبکہ دوسری طرف ایڈز کنٹرول پروگرام کے سربراہ ڈاکٹر سکندر میمن کا کہنا ہے کہ اگر آٹو ڈس ایبل سرنج کی پریکٹس عام ہوتی اور حکومت کی طرف سے مطلوبہ فنڈز کی بر وقت فراہمی کو یقینی بنایا جاتا تو لاڑکانہ میں ایچ آئی وی وائرس سے متاثر لوگوں کی تعداد میں 60فیصد تک کمی ہو سکتی تھی۔ حکومتِ پاکستان نے سندھ میں ایڈز کی وبائی صورتحال کے بعد عالمی ادارئہ صحت سے تعاون کی اپیل کی ہے۔ وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے قومی صحت نے ڈبلیو ایچ او کو ایک مراسلہ بھجوایا ہے جس میں ماہرین کی خصوصی ٹیم بھجوانے کی درخواست کی گئی ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ مشکل کی اِس گھڑی میں عالمی ادارئہ صحت انسانیت کے ناتے پاکستان کی مدد اور اِس بیماری پر قابو پانے کیلئے عملی اقدامات کرے گا۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ حکومت ایڈز کنٹرول پروگرام کو مزید فعال کرتے ہوئے ملک بھر میں اِس مرض اور اِس کے علاج کے بارے میں آگاہی پھیلائے اور ایڈز کنٹرول پروگرام کو بر وقت فنڈز کی فراہمی یقینی بنائے۔

تازہ ترین