• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شیرآیاشیرآیا اور پھر بالآخر شیرآہی گیا۔ ڈالر کی قیمت بڑھ گئی اور روپیہ ڈھیرہوگیا۔ پاکستان بنتے وقت جو ڈالر 2 روپے کا تھا آج ایک سو پچاس کا ہوگیا۔ سب سے زیادہ اس ملک میں ڈالر نے ہی ترقی کی ہے!قرضوں کا بوجھ بھی اسی حساب پرواز کرگیا۔ یعنی مشرف کے دور کے قرضوں کی واپسی پر 90 روپے فی ڈالر اضافی،زرداری دور کے قرضوں پر 70 روپے فی ڈالر اضافی اورنواز دور کے قرضوں پر تقریباً 25 سے 30 روپےفی ڈالر اضافی ادائیگی کرنی ہوگی۔ اس سے پہلے کے لیے گئے طویل المدتی قرضوں کی واپسی پر کتنی اضافی ادائیگی کرنی ہوگی۔ اس کا اندازہ آپ باخوبی لگاسکتے ہیں۔ 1958 کے پہلے مارشل لاء سے لیکرآج تک ہم اسی بحث میں لگے ہوئے ہیں کہ جمہوریت بہتر ہے یا آمریت؟ نظام حکومت کیا ہونا چاہیئے؟ یہ جماعت اچھی ہے یا وہ بری؟ لیکن ملکی حالات کیسے صحیح ہوں گے؟ ہم کب درست اقدامات اٹھائیں گے اس کے لیے کسی نے نہیں سوچا؟ یعنی اجتماعی کاوشیں کہیں نظرنہیں آئیں۔ ابھی بھی الزام تراشی کا سلسلہ جاری ہے ۔ ذمہ داری اٹھانے اور کچھ کر دکھانےکوکوئی تیار نہیں ہے۔ اگر نظام کو اسی طرح بغیر منصوبہ بندی کے "مستعار "لیکر ہی چلنا ہے تو پھر بہت ساری چیزوں سے ہاتھ اٹھاکر مختلف اداروں کو بند کردیا جائے تاکہ رونے کویہ نہ ہوکہ اتنا پیسہ بھی خرچ کیا لیکن حاصل کچھ نہ ہوا۔ جی ہاں اب وقت آچکا ہے کہ " Austerity یعنی سادگی" کو دل سے اپنایا جائے۔ برطانوی راج کے شاہانہ اخراجات کو کم سے کم کیا جائے۔ غیرضروری، غیرفعال اور معیشت پہ بوجھ اداروں کو بند کیا جائے۔ یعنی وہ ادارے جن پر خزانے سے ایک خطیررقم خرچ کی جاتی ہواور وہ کارکردگی دکھانے کے بجائے " سفید ہاتھی" بننے ہوئے ہوں تو ایسے اداروں کو یا تو ختم کیا جائے یا پھر نجکاری کے ذریعہ ان کا انتظام نجی اداروں کے سپرد کردیا جائے۔ جس میں سب سے پہلے نمبر پر وہ ادارے ہیں جن کا بالواسطہ یا بلاواسطہ ملکی معاشی معاملات سے تعلق ہے چاہے وہ ادارے "منصوبہ ساز "تیار کرتے ہوں یا "معیشت دان"۔ کیونکہ جب ملکی معاشی نظام غیروں نے ہی چلانا ہے تو پھر ملک میں ایسے لوگوں کی تیاری پہ پیسہ خرچ کرنا کہاں کی عقلمندی ہے؟ پوری دنیا میں اصل حکومت بیوروکریسی چلاتی ہے اور یہ لوگ اس ملک کے بہترین، ذمہ دار اور باصلاحیت افرادہوتے ہیں۔ ان کی صلاحتیوں سے بھرپورفائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ ان کو سیاسی معاملات، سیاسی دباؤ سے دور رکھتے ہوئے انہیں بااختیار کیا جائے اور کارکردگی دکھانے پر ان کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ آگے چل کہ یہ ادارے کی بہتری کے لیے کام کرسکیں۔ لیکن افسوس اب ان لوگوں پر بھی باہرسے افراد لاکر سربراہ بنادیئے جاتے ہیں۔ ملکی فنانشل سسٹم کو 90 کے آخر سے درست کیا جارہا تھا۔ اور عالمی معیار کے مطابق اصول وضوابط پر عمل کیاجارہا تھا۔ موجودہ حکومت نے منی چینجرز پر نگرانی شروع کردی تھی۔ ان تمام باتوں اور "مضبوط ریگولیشن "کے باوجود ملک سے بڑی تعداد میں ڈالر باہرچلے جانا۔ ملکی روپے کی ناقدری ہوناجس کی وجہ سےـ" اسٹاک مارکیٹ کا کریش" کرجاناکوئی عام بات نہیں۔ یقیناً کہیں نہ کہیں کوئی تو غلطی ہوئی ہے۔ موٹے موٹے الفاظ کو جمع کرکے قانون بنانا آسان ہے لیکن عملدرآمد کرانا اصل اور کٹھن کام ہے۔ جس کے لیے ہمت، ملک سے محبت اور ملک کے لیے کچھ کردکھانے کا جذبہ موجودہونا بہت ضروری ہے۔ باہر سے آکر کام کرنے والا کبھی بھی ملک کے لیے کام نہیں کرسکتا ۔ وہ صرف اپنی نوکری کرتا ہے اور اگلا Destination تلاش کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی تک ایسے لوگوں کی خدمات کی وجہ سے "کوئی بات بن نہیں سکی"۔ادھرموجودہ اعزازی چیئرمین نے کراچی چیمبر میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ " ہنڈی اور حوالہ" کا نظام " صرف پاکستان" میں ہے اور " دنیا میں کہیں نہیں ہے"۔ اور اس کو کنٹرول کرنا ضروری ہے اور یہی اصل وجہ ہے روپیہ کی ناقدری کی۔ اس اہم انکشاف پہ بہت سے سامعین اور حاضرین "انگشت بہ دندان" ہیں۔لیکن اگریہ اشارہ تیل کی تلاش میں 100 ملین ڈالر حکومتی لانڈرنگ کی طرف ہے تو ۔۔۔۔۔۔۔حکومتی عہدیداران سے زیادہ حقیقت کا علم کسے ہوتاہے ؟عقلمندوں کواشارہ کافی ہے۔

تازہ ترین