• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن


ویسے تو یورپ میں جرمنی پرسکون ملک تصور کیا جاتا ہے لیکن یہاں کی امیر ترین اور اصلی اصول پسند جرمن کہلانے والوں باواریا اسٹیٹ اپنے قوانین پر عمل درآمد کرانے میں سب سے آگے نظر آئی ہے۔

خاص طور پر اس کے خوبصورت شہر میونخ میں اس کی ایک بھرپور جھلک نظر آئی، وہ یوں کہ دنیا ادھر کی ادھر ہو جائے مگر میونخ میں کاروبارِ زندگی ہر شام آٹھ بجے بند ہوجاتا ہے، (شام کا لفظ اس لیے لکھا ہے کہ یہاں سورج 9 بجے کے بعد غروب ہوتا ہے) سوائے ریسٹورنٹس کے میڈیکل اسٹورز، بیکری اور کھانے پینے کے سامان کی دکانیں بھی کھولنے کی اجازت نہیں ہے۔

بھرے بازار میں آپ اگر گھوم رہے ہیں کہ 8 بجتے ہی اچانک شاپنگ مالز، بازاروں اور دکانوں میں ہلچل مچ جاتی ہے۔

ایک مال میں موجودگی کے دوران اس صورت حال سے مجھے پریشانی یوں ہوئی اور ایسا لگا کہ جیسے کراچی میں ماضی کی ایم کیو ایم کی جانب سے اچانک کسی ہڑتال کی کال آگئی ہو مگر پھر پتہ چلا کہ یہ یہاں کا معمول ہے۔

ہفتے کی شام 8 بجے کاروبار بند ہوا جس کے اگلے روز اتوار کو مکمل چھٹی تھی اور پیر کی صبح ساڑھے 9 بجے کاروبار کھل گیا، اس دوران کسی کو کوئی ایمرجنسی نہیں تھی، یہاں کے لوگ عادی ہوچکے ہیں اور وہ ان اوقات کار کے مطابق چلتے ہیں۔

اتوار کو چھٹی ہو تو کیا ہوا؟ کوئی سرکاری چھٹیاں آگئی ہوں تو بھی کوئی مسئلہ نہیں، لوگ ضروریاتِ زندگی کی اشیاء اپنے گھروں پر رکھتے ہیں یا پھر مرکزی ریلوے اسٹیشن پر کچھ اسٹور اور میڈیکل کے سامان کی دکانوں کو کام کرنے کی اجازت ہے۔

میرے پوچھنے پر کچھ لوگوں نے بتایا کہ یہاں کی اسٹیٹ اپنے شہریوں کو پرسکون رہنے اور زندگی انجوائے کرنے کا تحکمانہ موقع دیتی ہے، یہاں کے لوگ چھٹی کا دن اپنے خاندان کے ساتھ گزارتے ہیں، جن کے خاندان نہیں وہ دوستوں کے ساتھ سیر سپاٹا کرتے ہیں، گھروں میں آرام کرتے ہیں۔

حکومت کے اس حکم اور اس پر سختی سے عمل درآمد کرانے سے ملازمت پیشہ ہی نہیں ہر طرح کا نجی کاروبار کرنے والوں کو بھی چھٹی کرنے کا پورا پورا حق اور موقع ملتا ہے۔

پتہ نہیں کیوں پاکستان میں حکومت کی جانب سے اس طرح کا کوئی اعلان کیا جاتا ہے تو ایک بے چینی پھیل جاتی ہے، بھانت بھانت کے لوگ کچھ سوچے سمجھے بغیر حکومتی فیصلوں کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔

تازہ ترین