• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے مختلف شہروں میں تو سورج حسب سابق آگ برسا ہی رہا ہے، اس کے ساتھ ہی یورپ خاص طور پر جرمنی میں گزشتہ دو تین دن سے گرمی کا دور چل رہا ہے اور برائلر طرز کے کچھ لوگ ہانپتے نظر آئے ہیں۔

’گرمی‘ وہ نہیں جو ہم پاکستان میں برداشت کرتے ہیں بلکہ یورپ والوں کی اس گرمی کو پاکستان میں سردیوں کے دنوں کی مزےدار اور کڑک دار دھوپ والا موسم کہا جا سکتا ہے یعنی آج تیسرے دن میونخ کا ٹمپریچر 28 ڈگری سینٹی گریڈ ہے اور جرمنوں نے اسے شدید گرمی کا دور ڈکلیئر کرکے اپنے شہریوں کو حفاظتی اقدامات کرنے کا کہہ رکھا تھا۔

بجلی کی عدم دستیابی کے حوالے سے ایک اور صورت حال بھی یہاں پاکستان سے ملتی جلتی نظر آتی ہے وہ یوں کہ پاکستان میں اگر گرمی شدت اختیار کر جائے تو بجلی غائب ہو جاتی ہے۔یورپ میںبھی ذرا سا زیادہ درجہ حرارت یہاں کے باسیوں کے لئے تکلیف دی بن جاتا ہے۔


ایسا بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے نہیں ہوتا، بجلی تو ہر وقت ہوتی ہے مگر یورپ میں مسلسل سرد موسم ہونے کی وجہ سے گھروں میں ایئرکنڈیشنرز یا الیکٹرک پنکھے نصب نہیں۔ یوں اگر بجلی ہو بھی تو زیادہ ٹمپریچر میں ان کا حال خراب ہوجاتا ہے۔

کراچی والوں کے لیے بارش یا ابر آلود موسم ہوتا ہے اسی طرح یورپ کے رہنے والوں کے لیے جون میں شدید کڑک دار دھوپ دعائیں مانگ کر ملتی ہے۔

یہی کچھ یہاں آج تیسرے دن سے جاری ہے۔ اس طرح کا موسم پورے یورپ میں گولڈن دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یعنی ہر صنف اور عمر کے لوگ اپنی اپنی مصروفیات ترک کرکے اسے گولڈن موسم کے نام کر دیتے ہیں۔

دفاتر سے چھٹی اور کام کاج چھوڑ کر لوگ اپنے خاندانوں اور دوستوں کے ساتھ تفریحی مقامات کا رخ کرتے ہیں بالکل ایسے ہی جیسے کراچی میں معمولی سی بونداباندی ہوئی اور شہری سمندر کا رخ کرلیتے ہیں۔

زیرنظر مناظر میونخ کے اولمپیا پارک کے ہیں۔ 1972 میں اولمپک اسٹیڈیم سے منسلک کرکے بنائے گئے اس شاندار اور طویل پارک میں خوب گہما گہمی تھی۔ یہاں آنے والوں کی بڑی تعداد کڑکتی دھوپ لینے والوں کی تھی اور ہاں مجھے گرمی بالکل بھی نہیں لگی۔

تازہ ترین