• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اپنے آپ کو دو بڑی جنگوں میں جھونکنے کے لیے تیاری کر چکی ہے ۔ ایک طرف وہ اپنا پہلا بجٹ پیش کرنے جا رہی ہے ، جو نہ صرف سابقہ سیاسی حکومتوں سے مختلف ہو گا بلکہ اسے عوام اور سیاسی حکومتوں کے لیے قابل قبول بنانا بھی ایک بڑا چیلنج ہو گا کیونکہ حکومت کے ’’ مشکل ‘‘ معاشی فیصلوں سے اسے ردعمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔ دوسری طرف تحریک انصاف کی حکومت ’’ احتساب ‘‘ کے عمل کو بھی تیز کرنے کا عندیہ دے رہی ہے ۔ اس پر بھی اسے کسی حد تک سیاسی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کیا سیاسی طور پر اس قدر مضبوط ہے کہ وہ ان ’’ گہرے پانیوں ‘‘ میں اتر سکے ۔

عام انتخابات میں تحریک انصاف معیشت کی کایا پلٹ کرنے او رکرپشن کو ختم کرنے کے نعرے لگا کر آئی تھی ۔ ایک زمانہ تھا جب تیسری دنیا کے ملکوں میں فوجی طالع آزما اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد یہ نعرے دیتے تھے ۔ اب یہ نعرے تیسری دنیا میں سیاسی جماعتیں لگاتی ہیں ۔ تیسری دنیا کے ملکوں میں معیشت کو عالمی مالیاتی اداروں کی جکڑ بندی کے ذریعہ تباہ کرنا اور کرپشن کو اداراتی طورپر نافذ کرنا یعنی انسٹی ٹیوشنلائز کرنا عالمی اور مقامی مقتدر حلقوں کا مشترکہ ایجنڈا ہے ، جس پر عمل درآمد کے لیے وقت کے ساتھ ساتھ طریقہ کار تبدیل کیاجاتا ہے ۔ کچھ ترقی پذیر ممالک میں یہ ایجنڈا کارگر نہیں ہوا ۔ اس کے مختلف اسباب ہیں لیکن پاکستان ان ملکوں میں شامل ہے ، جہاں یہ ایجنڈا دنیا میں سب سے زیادہ کارگر ہے ۔ چاہے نعرے کوئی بھی لگائے ۔ اس تاریخی تناظر میں ہم تحریک انصاف کی حکومت ان نعروں پر کس طرح پیش قدمی کرتی ہے ۔

تحریک انصاف کی حکومت جون کو اپنا پہلاسالانہ بجٹ پیش کرنے جا رہی ہے ۔ اس سے پہلے حکومت عالمی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف ) کےساتھ ایک معاہدہ کر چکی ہے ۔ بجٹ سے حکومت کو یہ ثابت کرنا ہو گا کہ وہ اس معاہدے پر کس طرح عمل درآمد کر رہی ہے ۔ ویسے بجٹ سے پہلے ہی معاہدے کی بہت سی شقوں پر عمل درآمد کیا جا چکا ہے ۔ بجلی ، گیس ، پٹرولیم مصنوعات سمیت کئی اہم اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کیا جا چکا ہے ۔ ترقیاتی بجٹ میں بڑے پیمانے پر کٹوتی کی گئی ہے ۔ ایمنسٹی اسکیم کا اعلان کیاگیا ہے ۔ روپے کی بے قدری کو روکنے والا نظام ختم کر دیاہے ۔ ٹیکسوں میں اضافے کے لیے بھی حکمت عملی وضع کر لی گئی ہے ۔ موبائل فون کے استعمال کنندگان سے بالواسطہ ٹیکسوں کی صورت میں اربوں روپے کی وصولی کو روکنے کا جو عدالتی فیصلہ ہوا تھا وہ فیصلہ بھی عدالت نے خود کالعدم قرار دے دیا ہے ۔ بجٹ صرف اعداد و شمار کا بے ربط اعلان ہو گا۔ ماہرین معیشت ، سماجیات اور سیاسیات اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان کے عوام کا جینا بہت مشکل ہو گیاہے ۔ یہ اچھی بات ہے کہ موجودہ معاشی صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان کی مسلح افواج نے آئندہ سال دفاعی بجٹ میں اضافہ نہ کرنے کا رضاکارانہ طور پر فیصلہ کیا ہے ۔ کچھ حلقے اس بات کو بھی ثبوت کے بغیر آئی ایم ایف کی شرائط سے نتھی کر رہے ہیں ۔ اگر ان کی یہ بات درست نہ بھی ہو تب بھی سیکورٹی کی کسی بھی غیر معمولی صورت حال میں اخراجات کرنا پڑتے ہیں ۔ پاکستان کئی عشروں سے ایسی غیر معمولی صورت حال سے دوچار ہے اور نئی عالمی اور علاقائی صف بندی میں پاکستان کی سیکورٹی کے لیے چیلنجز بڑھتے جا رہے ہیں ۔

نئے بجٹ میں اعداد و شمار کو جس طرح بھی ماہرانہ انداز میں خوش خبری بنا کر پیش کیا جائے ۔ عام آدمی کو کسی بھی قسم کا کوئی ریلیف نہیں ملنے والا ہے ۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ عوامی فرسٹریشن میں اضافہ کا عمل نہیں رک سکے گا ۔ ان حالات میں احتساب کے نام پر اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں سے ٹکراؤ بھی ناگزیر بنتا جا رہا ہے ۔ حالانکہ احتساب کا عمل تحریک انصاف کی حکومت سے پہلے شروع ہو چکاہے ۔ ویسے بھی یہ کام حکومت کا نہیں اداروں کا ہے۔ اس کے باوجود تحریک انصاف کی حکومت سیاسی مخالفت کا رخ اپنی طرف کرنے کے لیے احتساب کو اپنا سیاسی بیانیہ بنائے ہوئے ہے ۔ مشکل سیاسی فیصلے بھی اس کے اپنے نہیں ہیں کیونکہ بجٹ سے پہلے وہ اپنی معاشی ٹیم ہٹا چکی ہے ۔ غیر سیاسی اور مضبوط حکومتیں بھی مشکل معاشی فیصلوں اور سیاسی تصادم میں نہیں اتری تھیں ۔ انہیں بھی اس امر کا ادراک تھا کہ معاشی فیصلوں سے پاکستان جیسے ملکوں کی عالمی مالیاتی اداروں کی جکڑ بندی والی معیشت مزید تباہ ہوتی ہے اور سیاسی تصادم سے حکومتیں کمزور ہوتی ہیں ۔ اس لیے انہوں نے مشکل معاشی فیصلے آنے والی سیاسی حکومتوں پر چھوڑے اور سیاسی تصادم کی انتہا سے پہلے مفاہمت یا این آر او کر لیا کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ احتساب کے نام پر مخالف سیاسی قوتوں کو ایک حد تک دبایا جا سکتا ہے ۔ اب یہ دونوں کام تحریک انصاف کی حکومت کرے گی ؟ مشکل معاشی فیصلوں سے تحریک انصاف کی سیاسی مقبولیت کو جو نقصان پہنچے گا ، وہ بظاہر اس کی حامی قوتوں کا فائدہ بن سکتا ہے اور موجودہ عالمی اور علاقائی حالات میں سیاسی مفاہمت یا این آر او کچھ قوتیں کریں گی تو تحریک انصاف والے منہ دیکھتے رہ جائیں گے ۔ لہذا گہرے پانیوں میں اترنے سے پہلے کئی بار سوچنا ہو گا ۔

تازہ ترین