• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم کاقوم سے حالیہ خطاب...ناطقہ سربگریباں ہے اسے کیاکہیے

تحریر: مولانا محمد حنیف جالندھری
ناظم اعلیٰ وفاق المدارس العربیہ پاکستان
’’وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ عمران خان نے گذشتہ دنوں اپنی تقریرمیں غزوۂ بدراور غزوۂ احد کاتذکرہ کرتے ہوئے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے بارے میں غیر محتاط اور خلاف واقعہ گفتگو کی ہے ۔غزوۂ بدر کے متعلق انہوں نے کہا کہ ’’جب جنگ بدر ہوئی تو صرف 313تھے لڑنے والے ،باقی ڈرتے تھے لڑنے کے لیے‘‘اور غزوۂ احد کاذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’’جب جنگ احد ہوئی ،سرکارمدینہ نے تیر کمان والوں کو کہا کہ تم نے اپنی پوزیشن نہیں چھوڑنا ،جب لوٹ مارشروع ہوئی تووہ چھوڑ کر چلے گئے سرکارمدینہ کاحکم نہیں مانا‘‘۔
ہم نے عمران خان کابیان من وعن انہی کے الفاظ میں نقل کردیا ہے اور معمولی سادین کاعلم رکھنے والا شخص بھی ان الفاظ کو پڑھ کر یہ فیصلہ کرسکتا ہے کہ وزیراعظم کایہ بیان اسلامی تعلیمات ،تاریخی حقائق ،مشرقی روایات اور اخلاقی آداب کے اعتبار سے درست نہیں،ان کاانداز،لب ولہجہ،طرزِ تکلم اور الفاظ کاچنائو بھی بالکل غیرمناسب ،غیر ذمہ دارانہ تھا۔
وزیراعظم کے اس متنازع بیان پر تبصرے سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان واقعات کی حقیقت قارئین کرام کے سامنے پیش کردی جائے ۔واضح رہے کہ غزوۂ بدر کافیصلہ کسی باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ نہیں کیا گیا تھا بلکہ ابتداء ً حضورﷺ کامقصود محض قریش کے تجارتی قافلے کوروکنا تھا لیکن حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ جو اس تجارتی قافلے کے سربراہ تھے اور ابھی تک اسلام نہیں لائے تھے انہوں نے قریش مکہ کو یہ پیغام بھجوادیاکہ مسلمان ہمیں لوٹنا چاہتے ہیں لہذا تم ہماری مددکو پہنچو۔حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے یہ پیغام نہایت اشتعال انگیزاندازمیں اہلِ مکہ تک پہنچایا چنانچہ اہل مکہ یہ خبر سنتے ہی ایک بہت بڑے اور منظم لشکر کی صورت میں بدرکی طرف روانہ ہوگئے ۔
جب حضورﷺ کو اس صورت حال سے آگاہی ہوئی تو آپﷺ نے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے مشاورت فرمائی اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے حسب معمول وتوقع جانثاری کایقین دلایا ۔اس موقع پر حضرت سعدبن عبادہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’یارسول اللہ !ہم آپ پرایمان لائے ہیں اور ہم نے آپ کی تصدیق کی ہے اور گواہی دی ہے کہ جو کتاب آپ لائے ہیںوہ حق ہے اور ہم نے آپ کی اطاعت اور فرمانبرداری کاعہدکیا ہے یارسول اللہ! جس طرف مرضی ہو تشریف لے چلیے ،قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کوحق کے ساتھ مبعوث کیا ہے اگر آپ ہمیں سمندر میں کودپڑنے کاحکم دیں گے تو ہم ضروراس میں کود پڑیں گے اور ہم میں سے کوئی ایک شخص بھی پیچھے نہیں رہے گا ‘‘اسی طرح حضرت مقداد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ’’ہم حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت کی طرح نہیں جنہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا کہ تم اور تمہارا رب دونوں جاکر لڑو ہم تو یہاں بیٹھے ہیں بلکہ ہم آپ کے دائیں بائیں ،آگے پیچھے آپ کے ساتھ لڑیں گے‘‘ اس غزوۂ میں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے ذوقِ شجاعت وشوقِ شہادت کایہ عالم تھا کہ ایک نوعمر صحابی حضرت عمیربن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اس خیال سے چھُپتے پھرتے تھے کہ کہیں کم عمری کے باعث واپس نہ کردیے جائیں۔
اس تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ غزوۂ بدر میں باقاعدہ جنگ کافیصلہ اچانک کرنا پڑاتھا اس لیے گنتی کے چند حضرات اس غزوۂ میں شریک نہیں ہوسکے تھے ورنہ یہ بات تصور ہی نہیں کی جاسکتی کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین میں سے کوئی ایک شخص بھی جان بوجھ کراس غزوہ سے پیچھے رہ جائے ۔اس اولین معرکہ ٔ حق وباطل میں مسلمانوں کے جوش وجذبے کایہ عالم تھا کہ بڑے اور تجربے کارحضرات تو رہے ایک طرف بچے اور نوجوان بھی اپنے بڑوں سے کسی طرح پیچھے نہیں تھے ،بچوں نے محاذِ جنگ میں بڑوں ہی طرح کارنامے سرانجام دیے ،یہ بچے اپنے بڑوں کے شانہ بشانہ میدان جنگ میں اترے اور ایک ایسا لاثانی کارنامہ سرانجام دیا جو بڑوں کے لیے بھی آسان نہ تھا کیونکہ قریش مکہ کامشہور سردارابوجہل تلواروں کے سائے اور تیروں اور نیزوں کی باڑھ میں تھا اور اس کے ساتھی ایک دوسرے کو تلقین کیے جارہے تھے کہ دیکھو ابوالحکم(ابوجہل)کو کوئی گزند نہ پہنچے۔اتنے سخت پہرے میں ہونے کے باوجود دونوںبچے حضرت معاذؓ اور حضرت معوذؓ اس تک پہنچے اوراسے واصل جہنم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
الغرض نہ صرف غزوۂ بدر بلکہ تمام غزوات میں حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے جس پامردی ،استقلال ،جرأت وبسالت اور جان نثاری کامظاہرہ کیا ہے ،دنیا کی کوئی جماعت اس کی مثال پیش نہیں کرسکتی ،اس پاکبازوپاک طینت جماعت نے اپنی زندگیاں ،اولادیں رشتے ناطے ،مال ودولت اور علاقۂ ووطن سمیت سب کچھ سرکارِ مدینہ ﷺ کے قدموں میں نچھاور کردیا ،شجراسلام کی آبیاری کے لیے اپنا خونِ جگر تک پیش کیا اور اللہ اس کے رسول ﷺ کے لیے ہرطرح کی قربانی دینے کے لیے ہمیشہ آمادہ وتیار رہے یہاں تک کہ بارگاہِ ربوبیت سے انہیں ’’رضی اللہ عنہم‘‘ کے سرٹیفکیٹ عطاکیے گئے۔ایسی جلیل القدر اور رفیع المنزلت جماعت کے متعلق یہ ہرزہ سرائی کرنا کہ’’وہ ڈرتے تھے‘‘بہت بڑی جسارت اور گستاخی ہےاور جہاں تک غزوۂ احد کے معاملے کاتعلق ہے تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ تیر اندازدستے میں شامل افراد کا اپنی متعین جگہ کو چھوڑکر مالِ غنیمت جمع کرنے میں لگ جانا انکی ایک اجتہادی لغزش تھی کیونکہ انہوں نے یہ سمجھا تھا کہ اس مقام پر ہمارا تقرروتعین تب تک ہے جب تک جنگ جاری ہے اور اب چونکہ جنگ ختم ہوچکی ہے اور دشمن بھاگ چکا ہے لہذایہاں رُکارہناضروری نہیں اور پھر یہ بات ذہن نشین رہے کہ غنائم کی تقسیم کاباقاعدہ ایک نظام اور طریقہ کار موجودہے جو دسویں پارے کی ابتدائی آیۃ میں مذکورہے ،ایسا نہیں ہے کہ میدان جنگ کے اندر دشمن کاجومال جس کے ہاتھ میں لگے وہی اسکا مالک بن جائے۔ نیز مال غنیمت کی حلت اس امت کی خصوصیات میں سے ایک اہم خصوصیت ہے چنانچہ ایک حدیث میں حضورﷺ نے اپنی خصوصیات بیان کرتے ہوئے پانچ چیزیں ذکر فرمائیں ان میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ ’’احلت لی الغنائم‘‘ یعنی میرے لیے غنیمتوں کو حلال قراردیاگیا ہے نیزفرمان نبوی ’’ وجعل رزقی تحت ظل رمحی‘‘ میری روزی میرے نیزے کے سائے کے نیچے بنادی گئی ہے‘‘ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضورﷺ کی معاش کاسب سے بڑا ذریعہ مالِ غنیمت ہے لہذا غنیمت کامال پاکیزہ ترین اموال میں سے ہے اور اس کو جمع کرنے میں شریک ہونے کے بھی مستقل فضائل ہیں ۔توجوصحابہ کرام اپنی جگہ چھوڑکر عنیمتوں کو جمع کرنے میں شریک ہوگئے تھے وہ دراصل ایک اجتماعی عمل میں شریک ہوکر فضیلت حاصل کرنا چاہتے تھے اب ان حضرات کے اس عمل کولوٹ مار کرنے سے تعبیر کرنا اگرجسارت اور گستاخی نہیں ہے توپھر اورکیا ہے ؟خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس میں تو کوئی دورائے نہیں ہیں کہ ان دونوں معاملات میں وزیراعظم صاحب نے انتہائی غیرذمہ دارانہ اور سنگین گفتگو کی ہے ۔البتہ اس پر بات ہو سکتی ہے کہ خان صاحب نے یہ الفاظ دانستہ طور پر کہے ہیں یا نادانستہ طور پر ان سے یہ غلطی ہوگئی ہے موجودہ حکومت کے مجموعی طرز عمل اور مختلف وزراء کے مجموعی رویوں سمیت مختلف آثار و قرائن سے تو یہی لگتا ہے کہ خان صاحب کے اہالی موالی میں شامل دین دشمن عناصر نے دانستہ طور پر ان سے یہ غلطی کر ائی ہے کیونکہ وزیراعظم نے جو کچھ اپنی تقریر میں کہنا ہوتا ہے وہ کئی جگہوں پر باریک بینی کے ساتھ جائزہ لینے اور خدشات و مضمرات اور متوقع عوامی ردعمل سے وزیراعظم کو آگاہ کرنے کے بعد ہی فائنل کیا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ ان الفاظ کے مضمرات اور ان پر متوقع ردعمل سے وزیراعظم کے عملے کا آگاہ نہ ہونا قرین قیاس نہیں ہے اور اگر بالفرض نا دانستگی میں اور غیر ارادی طور پر یہ الفاظ ادا کر دیے گئے تھے تو پھر اس غلطی کا اعتراف نہ کرنا اور اس جسارت پر اللہ رب العزت اور قوم سے معافی نہ مانگنا اس معاملے کو اور سنگین اور پیچیدہ بنانے کا باعث ہے اس واقعے کا سب سے سنگین پہلو یہ ہے کہ اس غلطی کے بعد بعض لوگوں نے بے جا تاویلیں کرتے ہوئے اس واضح اور سنگین غلطی کو وجہ جواز فراہم کرنے کی قابل مذمت کوششیں شروع کر دیں جو لوگ دین دار طبقہ کو اندھی تقلید کا طعنہ دیتے نہیں تھکتے ان کی اپنی یہ حالت ہے کہ ان کا سیاسی لیڈر اگر ہمالیہ جیسی بڑی غلطی بھی کر لے تو ان بے بصیرت وبے بصارت لوگوں کو وہ نظر نہیں آتی۔ اس واقعے اور اس کے بعد کی صورتحال سے یہ بھی ثابت ہوا کہ ہمارے ہاںسیاسی وابستگی ،ذاتی مفادات اور اپنی پسندوناپسند کو دینی مطالبات ومقتضیات پرترجیح دی جاتی ہے حالانکہ کم از کم دینی معاملات میںتو ہمیں اپنی وابستگیوں اور مفادات سے بالاتر ہوکردینی غیرت اور ملی حمیت کاثبوت دینا چاہیے۔اس غلطی نے ایک بار پھر یہ بات واضح کر دی ہے کہ ہمارے نظام تعلیم میں اصلاحات کی بہت زیادہ ضرورت ہے یہ ہمارے نظام تعلیم کا واضح نقص،بیّن سقم اور کھلا عیب ہے کہ وزارت عظمیٰ کے منصب پر پہنچ جانے والا شخص ریاستی و سرکاری مذہب کے منافی بیانات دینے اور اقدامات کرنے کا مرتکب ہوجاتا ہے۔ وزیر داخلہ سورۃ اخلاص تک نہیں پڑھ سکتا اور وزیر تعلیم قرآن کریم کے چالیس پارے بتاتا ہے اور طرفہ تماشا یہ ہے کہ ہر کسی کو دینی مدارس کی اصلاحات اور ان کے نظام و نصاب کی تبدیلی کی فکر تو ہے لیکن اس نظام تعلیم اور ان اداروں کی اصلاح کی فکر تو کُجا احساس تک نہیں جو نظریہ پاکستان اور آئین پاکستان سے انحراف کرنے والے افراد تیار کر کے اعلی ملکی عہدوںتک پہنچا رہے ہیں۔ اس واقعے کو ایک وقتی صورت حال کے تناظر میں نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ اس کی بنیاد پر ہمیں اپنا محاسبہ اور اپنے طرز عمل پر نظرثانی کرنے کی بھی ضرورت ہے اللہ تعالی ہمارے حال پر رحم فرمائیں۔آمین۔
تازہ ترین