• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی(تجزیہ:…مظہرعباس)پیرکوجوکچھ پارلیمنٹ میں ہوااورپی ٹی آئی کےرہنمائوں نے جوگرین سگنل اپنی’جارحانہ ٹیم‘کودیےہیں اس کےبعدایسےلگتاہےکہ وزیراعظم عمران خان کی زیرِقیادت اتحادی حکومت اورجوائنٹ اپوزیشن کےدرمیان تصادم بس ہونےہی والاہے۔ پی ٹی آئی کےرہنمااپوزیشن کیلئےبرےدنوں کی پیشگوئی کرتےہیں اوران کامانناہےکہ ان کےمزیدرہنماجیل جائیں گے،اپوزیشن پارٹیاں عمران خان کوپارلیمنٹ کےاندراور باہردونوں جگہ مشکلات سےدوچارکرنےکیلئےپُرعزم ہیں۔ وزیراعظم کے قریبی ذرائع نےانکشاف کیاکہ اِن دنوں عمران خان جارحانہ رویےاپنائےہوئےہیں اورحتٰی کہ اعتراف کرچکےہیں کہ انھوں نےپی ایم ایل(ن) کےصدرشہبازشریف کی بطوراپوزیشن لیڈراورچیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی کی نامزدگی میں مزاحمت نہ کرکے غلط فیصلہ کیا، ایسا انہوں نےپارٹی میں عقلمندافرادکےمشورے پرکیا۔ اب وہ چاہتے ہیں کہ ان کی پارٹی انھیں بولنے کی اجازت نہ دے اور وہ خود شہباز کی گرفتاری کے راستے تلاش کررہے ہیں۔ اس وقت سب سے مشکل ترین پوزیشن قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصرکی ہےجنھیں گزشتہ ہفتے تک اپوزیشن کا مکمل اعتماد حاصل تھا جب وہ خواجہ سعد رفیق اور شہباز شریف کے پروڈکشن آرڈر جاری کرتے تھے۔ اب انھیں بتایاگیاہےاور ذرائع کہتے ہیں انھیں لیڈرشپ کی جانب سے سخت پیغام ملاہے کہ وہ سابق صدر آصف زرداری، پی ایم ایل(ن) کے مرکزی رہنما خواجہ سعدرفیق اورپی ٹی ایم کےدوایم این ایزمحسن داوڑاورعلی وزیرکےپروڈکشن آرڈراس وقت تک جاری نہ کریں، جب تک اپوزیشن وزیراعظم کو بولنےاورانھیں عزت دینےسمیت کچھ مخصوص شرائط پررضامندنہیں ہوتی۔ پیرکوناکام رہے اورحتیٰ کہ شہباز شریف کی تقریرکےدوران سرکاری بنچزکوکنٹرول نہ کرسکےاور انھیں پیغام دیاجاچکاتھاکہ پی ٹی آئی ارکان کی نعرےبازی کےدوران انھیں روکانہ جائے۔ انھیں بعد میں یہ بتایاگیاکہ یہ سب انھوں نے وزیراعظم کی ہدایات پر کیا۔ یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ یہ بجٹ سیشن کیسے چلے گا لیکن ووٹنگ کی صورت اگران کے گرفتاررہنمائوں کو بجٹ پرووٹنگ کیلئے نہ بلایاگیا تو اپوزیشن شورشرابہ کرےگی۔ لیکن یہ حکمران اتحاد کیلئے بھی اچھی خبر نہیں ہے کہ ان کے اتحادیوں میں سے دو ، بی این پی (مینگل) اور ایم کیوایم(پاکستان)، پروڈکشن آرڈر کےمسئلےپراپوزیشن کی حمایت کرنے پررضا مند ہوچکے ہیں۔ وزیراعظم جنھوں نے پی ٹی آئی اور اتحادیوں کو پارلیمنٹری پارٹی میٹنگ کےدوران اپنا ٹھنڈارویہ ختم کردیاتھا، انھوں نے اپنے قانون سازوں کو یہاں تک کہہ دیاہے کہ وہ اپنے منصبوں کے ساتھ پارلیمنٹ میں زیادہ دوستانہ رویہ اختیار نہ کریں اور ’پارلیمنٹ کیفٹریا‘اور عوامی مقامات پر ان سےاس حد تک گریز کرنے کاکہاہے کہ انھیں ایک دوسرے کیلئے مسکرانہ بھی نہیں چاہیئے۔ جیسا انکشاف کیاگیاہے اگر یہ سچ ہے تو یہ بالکل غیر مثالی ہے۔ ٹی وی ٹاک شوز میں بھی انھیں سخت ہونے کاکہاگیاہے اور ’چور، ڈاکو، کرپٹ، مجرم‘ جیسے ریمارکس کہنے سے بھی گریز نہ کریں، اس کی جھلک دیکھ ہی چکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ وزیراعظم اپنا ٹھنڈا رویہ کھو رہے ہیں کیونکہ حکومت کوبجٹ اجلاس کےدوران نہ صرف آسانی کیلئے اپوزیشن کی حمایت کی ضرورت ہے بلکہ آئندہ قانون سازی اور ’ملٹری کورٹس‘ یا الیکشن کمیشن کے دو ارکان کی سندھ اور بلوچستان سےنامزدگی جیسے زیرِ التوافیصلوں کیلئے بھی حمایت چاہیئے، یہ 30مارچ سے التواکاشکارہے۔

تازہ ترین