• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بہت دفعہ پاکستانی معاشرے پہ غور کرتا ہوں، اس کی خرابیوں کا احاطہ کرتا ہوں، سوچتا ہوں ہمارے دیکھتے دیکھتے کس طرح معاشرے نے زوال کے رستے اپنا لئے، چالیس برسوں میں معاشرہ بالکل بدل گیا۔ اگر اچھی طرز سے بدلتا تو دکھ نہ ہوتا، دکھ تو صرف اس لئے ہے کہ معاشرہ برے طریقے سے تبدیل ہوا ہے۔ یہاں جھوٹا بولنا فیشن ہے، بددیانتی عروج پر ہے، قوم کے رہنمائوں نے دیانتداری چھوڑ کر لوٹ مار کو اپنا لیا، لوگ رہنمائوں کی نقل کرتے ہیں۔اس طرح پورا معاشرہ بددیانتی پر لگ گیا مگر کچھ چراغ ابھی ہیں جنہیں کرپشن کی آندھی بجھانے میں ناکام رہی ہے۔ ہمارے معاشرے کی حالت یہ ہے کہ ہم انسانوں پر توجہ نہیں دیتے، ہم محلات کی تعمیر چاہتے ہیں، ہم دولت کے انبار لگا رہے ہیں حالانکہ مولا علیؓ کا فرمان ہمارے سامنے ہے کہ ’’جہاں کہیں بھی دولت کے انبار دیکھو تو سمجھ لو کہیں نہ کہیں گڑبڑ ضرور ہوئی ہے‘‘۔ کبھی اپنے معاشرے پر غور کیجئے، آپ کو کئی افراد ایسے مل جائیں گے جو اچانک امیر ہوئے ہوں گے۔ ایسا گڑبڑ کے بغیر تو نہیں ہو سکتا۔ انصاف نہ ہونے کی وجہ سے معاشرے میں ظلم بڑھتا جا رہا ہے، سماجی اور معاشی ناانصافی کے طفیل طبقاتی فرق بڑھتا جا رہا ہے، گاڑیوں اور گھروں میں فرق آتا جا رہا ہے، لوگوں نے عزت کا معیار کردار کے بجائے دولت کو بنا لیا ہے۔ لوگ دولت کے پجاری بن کے رہ گئے ہیں، عزت کے معیار بدل گئے، کتابیں دور چلی گئیں، حرص و ہوس کا ایک جہان آباد ہو گیا، دلوں میں کدورتیں، محبت کے جھوٹے دعوے،پورے معاشرے کا ’’چہرہ‘‘ بگڑ گیا۔

معاشرے میں نت نئی بیماریاں سامنے آ جاتی ہیں ابھی چند برسوں میں ایک نئی بیماری پورے معاشرے میں سرایت کر گئی ہے راتوں کو جاگنا فیشن بن گیا ہے، تاخیر سے سونا رواج بن گیا ہے، رات گئے دعوتوں کا چلن ماڈرن ازم کی علامت بن گیا ہے حالانکہ یہ فطرت کے خلاف ہے، ہمیں مذہباً بھی جلدی سونے اور جلدی اٹھنے کا حکم ہے مگر پتہ نہیں معاشرے میں یہ بری عادت کہاں سے آ گئی ہے۔ میں نے امریکہ و یورپ میں لوگوں کو جلدی سوتے اور جلدی بیدار ہوتے دیکھا، چین اور جاپان کی بھی یہی حالت ہے، وہ لوگ صبح سویرے جاگ جاتے ہیں، ایک ہم ہیں کہ ہم سوئے رہتے ہیں صبح اٹھتے نہیں، تاخیر سے سونا ہماری عادت بن گئی ہے، یہ غیر فطری ہے، دنیا میں جن افراد یا جن معاشروں نے ترقی کا سفر کیا ہے، انہوں نے فطرت کے قریب رہنے کی عادات اپنائی ہیں، صبح سونے والوں کے مقدر سو جاتے ہیں۔ ندیم افضل چن بتا رہے تھے کہ ’’کینیڈا میں شام پانچ بجے لوگ رات کا کھانا کھا لیتے ہیں‘‘۔ جنرل ظہیر الاسلام ایک روز بتانے لگے کہ ’’ہم امریکہ میں ٹریننگ کے دنوں میں ساڑھے پانچ بجے رات کا کھانا کھا لیتے تھے‘‘ میں نے خود دیکھا کہ دنیا کے بیشتر ممالک میں مارکیٹیں شام پانچ چھ بجے بند ہو جاتی ہیں مگر ہمارے ہاں سر پر ٹوپیاں سجائے تاجر رات ایک دو بجے سے پہلے دوکانیں بند کرنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ کسی نے کہا کہ شعبۂ صحافت کے لوگوں کے لئے صبح جلد اٹھنا مشکل ہے تو عرض کیا کہ اس شعبے میں میرے سب سے پرانے دوست سہیل وڑائچ صبح سویرے اٹھ جاتے ہیں، خدا نے انہیں شہرت اور ناموری سے نواز رکھا ہے، کئی کتابوں کے خالق ہیں، ملنساری کا ہنر بھی جانتے ہیں، اخلاقیات کو بھی فراموش نہیں کرتے، انہیں دیکھ کر تو مجھے اقبالؒ کا شعر یاد آجاتا ہے کہ ؎

زمستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی

نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آدابِ سحر خیزی

میں معاشرے کی ان برائیوں کو یاد کر رہا تھا کہ میرے ایک دوست نے مولانا طارق جمیل کا ایک کلپ بھیج دیا۔ طارق جمیل کے اچھا لگنے کی تین وجوہات ہیں۔ ایک تو وہ راوین ہیں، دوسرا یہ کہ وہ فرقہ واریت کی نفی کرتے ہیں، امت کے ایک ہونے کی باتیں کرتے ہیں،تیسری اہم بات یہ ہے کہ وہ ہر وقت ملت کو جگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ معاشرے کے سدھار کے لئے کام کرنے والے طارق جمیل کہتے ہیں ’’مجھے سیرت میں سے تین چیزیں ملیں، قوموں کے عروج و زوال کے تین اسباب ہیں۔ جس قوم میں عدل ہو گا، سچائی ہو گی، دیانتداری ہو گی، وہ خواہ مسلمان ہو یا غیر مسلم، اسے دنیا میں زوال نہیں آسکتا، اس قوم کے لوگوں پر کوئی غالب نہیں آ سکتا مگر جس قوم میں ظلم ہو گا، جھوٹ ہو گا، بددیانتی اور دھوکہ ہو گا اسے عزت نہیں مل سکتی، چاہے اس قوم کی مساجد تہجد پڑھنے والوں سے بھری ہوں۔ اگر جھوٹ، ظلم، بددیانتی اور دھوکہ ہے تو پھر عزت کا خواب نہیں دیکھنا چاہئے کیونکہ ظلم، بددیانتی اور جھوٹ کے ہوتے ہوئے صرف پستی ہے، زوال ہے‘‘۔

مولانا طارق جمیل کی انہی تین باتوں کی روشنی میں ہمیں اپنے معاشرے کا ’’چہرہ‘‘ دیکھنا چاہئے۔ ہمارے معاشرے کو پستی کیوں نہ ملے، ہمارے ہاں ظلم ہے، بددیانتی ہے اور جھوٹ ہے۔ہمارے رہنما ایوانوں میں جھوٹ بولتے ہیں، بددیانتی کا یہ عالم ہے کہ اپنے پیارے وطن کو بیدردی سے لوٹا گیا اور اب کہتے ہیں ’’حساب کتاب بند کرو‘‘ ۔اگر ہم ترقی چاہتے ہیں، بلندی چاہتے ہیں تو پھر ہمیں ظلم، ناانصافی، جھوٹ، بددیانتی اور دھوکے سے گریز کرنا ہو گا۔ محسن نقوی یاد آ گئے کہ ؎

کیا سوچتے رہتے ہو سدا، رات گئے تک

کس قرض کو کرتے ہو ادا، رات گئے تک

تازہ ترین