• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں نے اپنے گزشتہ کالم میں موجودہ بجٹ پر بزنس کمیونٹی کے شدید تحفظات تحریر کئے تھے۔ اس سلسلے میں کراچی میں فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس (FPCCI)نے ایک اہم پریس کانفرنس کی تھی جس میں میرے علاوہ فیڈریشن کے صدر انجینئر دارو خان، ایس ایم منیر، زبیر طفیل، خالد تواب، فیڈریشن کے نائب صدور، عبدالسمیع خان اور پورے پاکستان کے بزنس کمیونٹی کے سینئر لیڈرز نے شرکت کی جس میں ہم نے ایکسپورٹ کے 5سیکٹرز پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم کرنے، انکم ٹیکس آڈٹ میں 3سال کا وقفہ ختم کرنے، سروس سیکٹر اور افرادی قوت فراہم کرنے والی کمپنیوں میں ٹیکس کی شرح 2فیصد سے بڑھاکر 4فیصد کرنے، ٹیکس نادہندگان کو مال بیچنے کی صورت میں 3فیصد اضافی ٹیکس اور خریدار کے شناختی کارڈ لینے کی شرط، کمرشل امپورٹرز کو امپورٹ مرحلے پر 6فیصد ٹیکس ادا کرنے کو فائنل نہ سمجھنے، کاٹیج انڈسٹریزکی سالانہ ٹرن اوور حد ایک کروڑ روپے سے کم کر کے 50لاکھ روپے کرنے، اداروں، فیکٹریوں اور گھروں پر چھاپے مارنے اور ایف بی آر کو غیر معمولی اضافی اختیارات دینے جیسے 10مطالبات پیش کئے تھے اور نہ ماننے کی صورت میں فیڈریشن جو پاکستان کی بزنس کمیونٹی کا نمائندہ ادارہ ہے، نے پریس کانفرنس میں ملک بھر میں ہڑتال سمیت ہر طرح کے احتجاج کرنے کا اعلان کیا تھا جس کے نتیجے میں دوسرے روز مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے اسلام آباد میں صبح 10بجے وزارت خزانہ میں فیڈریشن کے اعلیٰ وفد کے ساتھ ایک اہم میٹنگ رکھی جس میں میرے علاوہ فیڈریشن کے صدر دارو خان، افتخار علی ملک، ایس ایم منیر، زبیر طفیل اورفیڈریشن کے نائب صدور نے فیڈریشن کی نمائندگی کی جبکہ حکومت کی طرف سے ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ، عبدالرزاق دائود، ڈاکٹر عشرت حسین، چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی اور سیکریٹری خزانہ نوید کامران نے شرکت کی۔

مشیرِ خزانہ نے بتایا کہ اس سال حکومت نے ریونیو وصولی کا ہدف 5550ارب روپے رکھا ہے ،اگر یہ ہدف حاصل ہوجاتا ہے تو اس میں سے 2900ارب روپے قرضوں اور سود کی ادائیگی، 700ارب روپے دفاعی اور دیگر اخراجات میں چلے جائیں گے اور حکومت کے پاس صرف 1900ارب روپے بچیں گے جس میں سے کم آمدنی والے غریب لوگوں کو 200ارب روپے اور فاٹا کی تعمیرِ نو کیلئے 150ارب روپے دیئے جائیں گے جس کے بعد حکومت چلانے کیلئے مطلوبہ رقم نہیں بچتی اور قرضے لینے جانا پڑتا ہے حالانکہ اس سال حکومت نے اپنے اخراجات میں 50ارب روپے کی کٹوتی کی ہے۔ مشیر خزانہ نے بتایا کہ گزشتہ 40سال میں حکومت نے ٹیکسٹائل سیکٹر کو بے انتہا مراعات دیں، رعایتی نرخوں پر قرضے، بجلی اور گیس فراہم کی لیکن یہ سیکٹرز ویلیو ایڈیشن نہ کرنے کے باعث ملکی ایکسپورٹ کو بڑھا نہ سکے بلکہ گزشتہ 11سال میں ملکی ایکسپورٹس میں کمی ہوئی ہے لہٰذا اب حکومت ان سیکٹرز کو دی جانے والی مراعات جاری نہیں رکھ سکتی اور آئی ایم ایف کی بھی یہی تجویز ہے۔

بزنس کمیونٹی نے افواج پاکستان کے دفاعی بجٹ نہ بڑھانے کے جذبے کو سراہا اور اعلان کیا کہ وہ ان مشکل حالات میں معیشت کی بحالی کیلئے ہر طرح کی قربانی دینے کیلئے تیار ہے لیکن موجودہ حالات اور نئے بجٹ کے بعد بالخصوص ایکسپورٹ سیکٹرز کی سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم کرنے سے ہماری صنعتیں بند ہو جائیں گی۔ ملکی ایکسپورٹ جو پہلے ہی گررہی ہے، مزید کم ہو جائے گی جس سے کرنٹ اکائونٹ اور تجارتی خسارے میں اضافہ ہوگا جس سے ملک میں مہنگائی اور بیروزگاری بڑھے گی۔ میں نے وزیر خزانہ کو بتایا کہ اگر آپ گزشتہ 40سال کی غلطیوں اور کوتاہیوں کا ازالہ ایک سال میں کرنا چاہتے ہیں تو ملکی صنعت کے تابوت میں یہ آخری کیل ثابت ہوگی۔ صنعتی سیکٹر پہلے ہی سکڑ رہا ہے اور ملکی معیشت میں اس کا حصہ صرف 20فیصد رہ گیا ہے جبکہ سروس سیکٹر فروغ پارہا ہے اور ملکی معیشت میں اس کا حصہ 61فیصد تک پہنچ گیا ہے، پاکستان ایک ٹریڈنگ اسٹیٹ بنتا جارہا ہے جو ہم سب کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ میں نے انہیں بتایا کہ قرعہ اندازی کے ذریعے انکم ٹیکس آڈٹ کے طریقہ کار پر بزنس کمیونٹی متفق تھی اور آڈٹ ہو جانے کے بعد 3سال تک نئے آڈٹ کی چھوٹ تھی لیکن اس بجٹ میں اسے ختم کرکے ہر سال آڈٹ کا اعلان کیا گیا ہے جو بزنس کمیونٹی کو قبول نہیں۔ میرے دوست اور ایف بی آر کے چیئرمین شبر زیدی نے مجھ سے کہا کہ انکم ٹیکس قوانین آڈٹ کی چھوٹ کی اجازت نہیں دیتے۔ میں نے شبر زیدی سے کہا کہ تو پھر آپ سال میں دو بار آڈٹ کرلیں، بزنس کمیونٹی پروڈکشن اور مارکیٹنگ چھوڑ کر اپنی فائلیں لے کر ہر روز انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ کے چکر لگائےگی جو ہمیں قبول نہیں۔ حالات کی کشیدگی کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے مداخلت کرتے ہوئے چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کو اس سلسلے میں ایف بی آر سے انتظامی آرڈر جاری کرنے کا حکم دیا کہ ایک سال آڈٹ کے بعد 3سال تک نیا آڈٹ نہیں کیا جائے گا جس کیلئے میں مشیر خزانہ اور چیئرمین ایف بی آر کا شکر گزار ہوں۔ میٹنگ میں مشیر خزانہ نے فیڈریشن کے 10میں سے 7مطالبات مان لئے لیکن 5ایکسپورٹ سیکٹرز سے سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم کرنے کے بجائے انہوں نے بنگلہ دیش کی طرح ایکسپورٹ کی پیمنٹ آنے پر بینکوں کے ذریعے فوراً سیلز ٹیکس ریفنڈ کا وعدہ کیا ہے۔ ٹیکس نادہندگان کو خریداری پر 3فیصد اضافی ٹیکس ختم کردیا گیا ہے لیکن خریدار کو اپنا شناختی کارڈ دینا ہوگا۔ سہ پہر میں وزیراعظم اور ان کی معاشی ٹیم سے بزنس کمیونٹی کی چھوٹی ٹیم نے ملاقات کی جس کی نمائندگی عقیل کریم ڈھیڈی اور ایس ایم منیر کررہے تھے، وزیراعظم نے بزنس کمیونٹی کی ایمنسٹی اسکیم میں حصہ لینے کی ضرورت پر زور دیا اور بتایا کہ ایف بی آر نے کئی غیر ممالک سے پاکستانیوں کے اثاثوں کی تفصیلات حاصل کرلی ہیں اور 30جون کے بعد ان تفصیلات کے مطابق کارروائیاں کی جائیں گی۔ کالم کے آخر میں میری ملک اور ملک سے باہر تمام پاکستانیوں سے درخواست ہے کہ وہ ایمنسٹی اسکیم جس کی آخری تاریخ 30جون ہے اور اس میں توسیع ممکن نہیں، سے جلد از جلد فائدہ اٹھائیں کیونکہ اُن کیلئے آنے والے وقت میں بے نامی اکائونٹس اور اثاثے رکھنا ممکن نہ ہوگا۔

تازہ ترین