• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
2013ء کی ایک تجزیاتی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں غیر دستاویزی معیشت میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے ”بلیک اکانومی“ میں سالانہ 5% سے 6%/اضافہ ہورہا ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی 2012ء کی تیسری سہ ماہی کی رپورٹ میں بھی اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے۔ افغانستان اور پاکستان میں 1980ء سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے پاکستان میں منشیات اور اسلحہ کے بزنس میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ حکومت کے آئی ایم ایف کے حالیہ مذاکرات میں بجٹ کا مالی خسارہ 4.7% کے ہدف کو بڑھاکر 7% تک پہنچنے کا عندیہ دیا گیا ہے لیکن حکومت کی کوشش ہے کہ اسے زیادہ سے زیادہ 6.5% تک رکھے۔ بجٹ کے بڑھتے ہوئے مالی خسارے کی وجہ سے آئی ایم ایف نے پاکستان کو ریونیو میں 360 بلین روپے فوری اضافہ کرنے کا کہا ہے ۔ایف بی آر کے چیئرمین کے مطابق ملک کی موجودہ غیر یقینی صورتحال اور رواں مالی سال کے پہلے 6 ماہ کی ریونیو وصولی کو دیکھتے ہوئے آئی ایم ایف کے مطابق اس سال کا 2381/ارب روپے کا ریونیو ہدف حاصل کرنا مشکل ہے۔ انہوں نے ٹیکس اور جی ڈی پی کی شرح میں 1.5%/اضافے کی تجویز دی ہے جبکہ ملک میں معاشی سست روی کی وجہ سے ہماری امپورٹس میں 9% کمی ہوئی ہے جس کی وجہ سے بھی کسٹم ڈیوٹی کی مد میں ریونیو کی وصولی میں کمی ہوئی ہے۔ آئی ایم ایف نے دوبارہ ایگریکلچر ٹیکس کے نفاذ اور سیلز ٹیکس کو بڑھانے کا کہا ہے لیکن انتخابی سال ہونے کی وجہ سے حکومت کا ان تجاویز پر عمل کرنا مشکل نظر آتا ہے۔
ورلڈ بینک کی گلوبل اکنامک رپورٹ 2013ء کے مطابق 2013ء میں پاکستان کی معیشت 3.8%سے 4% سے زیادہ گروتھ حاصل نہیں کرسکے گی جبکہ اسی رپورٹ کے مطابق 2013ء میں دنیا کی معیشت میں 2.3%/اور ترقی پذیر ممالک کی معیشت میں 5.5% گروتھ کی توقع کی جارہی ہے۔ ملک میں بجلی، گیس کی لوڈشیڈنگ اور غیر یقینی سیاسی صورتحال کے باوجود ملک کی بڑے درجے کی صنعتوں جو ہماری ملکی مجموعی صنعتی پیداوار کا 70%ہیں نے نومبر میں 6.5% کی متاثر کن گروتھ حاصل کی ہے جس میں فوڈ، آئرن اسٹیل، پیٹرولیم، پیپر، معدنیات، کیمیکل، ٹیکسٹائل، فارماسیوٹیکل اور ربڑ کی صنعتیں شامل ہیں جبکہ رواں مالی سال فرٹیلائزر، الیکٹرونکس، لیدر، انجینئرنگ گڈز اور آٹوموبائل سیکٹرز کی گروتھ منفی رہی۔ اوسطاً رواں مالی سال کے پہلے 5 ماہ میں LSM کی گروتھ 2.38% رہی ہے جبکہ گزشتہ سال LSM کی گروتھ منفی تھی۔ اسی طرح اس سال بیرون ملک پاکستانیوں سے ہمیں ریکارڈ ترسیلات زر حاصل ہوا ہے۔ رواں مالی سال کے پہلے 6 ماہ میں ہمیں 12.5% گروتھ کے ساتھ مجموعی 7.12 بلین ڈالر کی ترسیلات زر حاصل ہوئی ہیں اور امید کی جا رہی ہے کہ رواں سال کے آخر تک یہ 14 بلین ڈالر سے تجاوز کر جائیں گی جس میں سعودی عرب سے 1.96 بلین ڈالر، عرب امارات سے 1.46 بلین ڈالر، امریکہ سے 1.15 بلین ڈالر جبکہ برطانیہ سے ایک بلین ڈالر ترسیلات زر پاکستان بھیجے گئے۔ یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ بینکوں کی موثر کارکردگی کی بنیاد پر لوگوں میں ”حوالے“ سے رقوم بھیجنے کا رجحان کم ہورہا ہے۔ بیرونی قرضوں کی ادائیگی کیلئے اس وقت ہمارے پاس بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی ترسیلات اور ملکی ایکسپورٹ ہی قابل اعتبار ذرائع ہیں۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال بنگلہ دیش اور سری لنکا میں بھی ریکارڈ ترسیلات زر موصول ہوئی ہیں۔ بنگلہ دیش نے اپنی گارمنٹس ایکسپورٹ میں حیرت انگیز اضافہ کیا ہے اور وہ چائنا کے بعد دنیا کا دوسرا بڑا گارمنٹس ایکسپورٹ کرنے والا ملک بن گیا ہے۔ گزشتہ سال بنگلہ دیش کی گارمنٹس کی ایکسپورٹ 19 بلین ڈالر تھی اور اس سال ان کا ہدف 20 بلین ڈالر ہے جو 2020ء تک بڑھ کر 36 بلین ڈالر تک پہنچ سکتا ہے جبکہ پاکستان کی مجموعی ٹیکسٹائل کی ایکسپورٹ صرف 13 بلین ڈالر ہے۔ بنگلہ دیش کی گارمنٹس ایکسپورٹس کا 60% یورپی یونین، 23% امریکہ اور تقریباً 5% کینیڈا کو ہوتی ہے۔بنگلہ دیش میں اس وقت 7200 گارمنٹس فیکٹریاں اور 1300 اسپننگ، فنشنگ اور ڈائنگ ملز ہیں جن میں استعمال ہونے والا خام مال وہ امپورٹ کرتا ہے۔ بنگلہ دیش کی گارمنٹ انڈسٹری تقریباً 35 لاکھ افراد کو روزگار فراہم کررہی ہے جن میں 80% خواتین ہیں۔ اس سال بنگلہ دیش کی جی ڈی پی گروتھ 6.3%رہنے کی توقع ہے۔
پاکستان میں اس وقت 35 لاکھ افراد انکم ٹیکس میں رجسٹرڈ ہیں جس میں سے صرف 15 لاکھ ٹیکس کے گوشوارے داخل کرتے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کی جی ڈی پی میں ٹیکس ادا کرنے والوں کی شرح خطے میں سب سے کم صرف 9.1% ہے جبکہ خطے کے دوسرے ممالک میں یہ شرح کم از کم 15% ہے۔ میں نے اپنے گزشتہ کالم میں بڑھتے ہوئے بجٹ خسارے کی ایک اہم وجہ پاکستان میں ٹیکسوں کی کم وصولی بتایا تھا۔ ہمیں اپنی معیشت کو دستاویزی شکل دینے اور ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کیلئے نئے افراد جو ٹیکس دینے کی استطاعت رکھتے ہیں کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہوگا۔ ایف بی آر نے پاکستان میں شاہانہ طرز زندگی کی بنیاد پر23 لاکھ 76 ہزار 523/ایسے افراد کی تفصیلات حاصل کرلی ہیں جو ٹیکس نیٹ میں رجسٹرڈ نہیں، ان میں 16 لاکھ ایسے افراد ہیں جو کئی اکاؤنٹ رکھتے ہیں اور ہر سال بیرون ملک چھٹیاں منانے جاتے ہیں لیکن ایک روپیہ بھی ٹیکس ادا نہیں کرتے۔انکے پاس 19,149 قیمتی گاڑیاں ہیں۔ اور وہ ایک لاکھ روپے ماہانہ سے زیادہ بجلی کے بل ادا کرتے ہیں۔
ایف بی آر کے ذرائع کے مطابق بیرون ملک بینکوں میں پاکستانیوں کے کرپشن کے اربوں ڈالر ایسے ہیں جو غیر قانونی طریقے یعنی حوالہ یا ہنڈی کے ذریعے باہر بھجوائے گئے ہیں۔ نیب کے تخمینے کے مطابق یہ غیر قانونی دولت 250 سے 500/ارب ڈالر تک ہو سکتی ہے جس میں سے کچھ کالا دھن قومی معیشت میں واپس لانے کیلئے ایف بی آر ایک ایمنسٹی اسکیم منظوری کیلئے پارلیمینٹ میں پیش کر چکی ہے جسکے تحت ایک کروڑ روپے سے زیادہ غیر قانونی اثاثے اور رقوم ظاہر کرنے پر 1% سے 1.5% معمولی انکم ٹیکس کی ادائیگی کرکے اسے قانونی شکل دی جاسکتی ہے۔ اس اسکیم کے تحت رضاکارانہ طور پر اپنے غیر ظاہر شدہ اثاثوں کو ظاہر کرنے اور بینکوں کی رقوم ملک واپس لانے والوں سے رقوم کے حصول کے ذرائع پوچھے نہیں جائیں گے۔ ایف بی آر کی ایمنسٹی اسکیم اگر پارلیمینٹ سے منظور ہو بھی جاتی ہے تو بھی موجودہ حالات میں اس اسکیم کے ذریعے مطلوبہ ریونیو نہیں حاصل کیا جاسکتا۔ آخر میں، میں یہ ضرور بتاتا چلوں کہ متواتر ایمنسٹی اسکیم کے آنے سے ٹیکس چوروں کا خوف ختم ہوجاتا ہے اور وہ ان اسکیموں کو سنجیدگی سے نہیں لیتے کہ وہ آئندہ آنے والی اسکیموں کے ذریعے اپنے کالے دھن کو سفید کرالیں گے لہٰذا ایمنسٹی اسکیم ختم ہونے کے بعد ان ٹیکس چوروں کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کیا جانا نہایت ضروری ہے تاکہ یہ پیغام دیا جاسکے کہ کالا دھن رکھنا خطرناک اور نقصان دہ ہے۔ایمنسٹی اسکیم اعلان کرنے کے ساتھ ساتھ یہ ضروری ہے کہ سخت قوانین کے تحت کالے دھن حاصل کرنے کا خاتمہ کیا جائے کیونکہ یہ ایک المیہ ہے کہ ایمنسٹی اسکیم کے تحت ٹیکس چور ایماندار ٹیکس دہندگان کے مقابلے میں نہایت کم ٹیکس ادا کرکے اپنے اثاثے اور آمدنی کو قانونی شکل دے دیتے ہیں۔
تازہ ترین