• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فکرفردا … راجہ اکبر دادخان
برطانیہ کی موجودہ پارلیمنٹ کو ختم ہونے میں ابھی تین سال باقی ہیں لیکن بریگزٹ ایشو کے نتیجہ میں ملک غیر تسلی بخش سیاسی صورتحال سے دو چار ہے۔ کوئی ایک جماعت بھی دعویٰ نہیں کرسکتی کہ وہ ملک کی زیادہ مقبول جماعت ہے۔ یورپ سے متعلق ٹوری پارٹی کی پالیسیز کبھی زیادہ یورپ ہمنوا نہیں رہی ہیں اور بریگزٹ ایشو پر اس کے دو وزرا اعظم کا گھر چلے جانا اور ایک نئے انتخاب کیلئے جواز پیداہو جانا اس کے واضع ثبوت ہیں۔
بورس جانسن حال ہی میں وزیراعظم منتخب ہوئے وہ کونسی وجوہات میں جن کی بنا پہ پارلیمنٹری انتخابات اگلے چند ماہ میں منعقد ہوسکتے ہیں؟ سب سے اہم وجہ پارلیمنٹ کے اندر ٹوری اکثریت صرف ایک عدد ہے۔ معاملات سے شناسائی رکھنے والے احباب آگاہ ہیں کہ اتنی قلیل اکثریت میں حکومت چلانا جان جوکھوں کا کام بن جاتا ہے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر سیاسی جماعتیں حکومت کو بلیک میل کرتی ہیں جس کے دبائو کے نتیجہ میں اکثر اوقات حکومت کو ایسے فیصلے بھی کرنے پڑ جاتے ہیں جو مفاد عامہ میں ہر گز نہیں ہوتے۔ وزیراعظم جانسن نے ٹوری قیادت کے حصول کیلئےکچھ ایسے فیصلے بھی کرلئے جیسے یہ فیصلہ کہ 31اکتوبر تک ہر حال میں ای یو سے باہر آجانا ہے۔ یہ ایک ایسافیصلہ ہے جسے اخبارات اور دوسرے ذرائع ابلاغ انتہائی متنازع سمجھتے ہیں۔ کیونکہ برطانیہ کسی صورت میں بھی 31اکتوبر کو باہر آجانے کیلئے تیار نہیں۔ بریگزٹ بل جو دارالعوام کے سامنے ہے سابق وزیراعظم تھریسامے کی تین کوششوں کے باوجود پاس نہیں ہوسکا۔ تقریباً ایک ماہ پر پھیلی بحث میں اس بل میں ترامیم بھی دارالعوام کی اکثریت کو مطمئن نہیں کرسکیں کہ باہرآجانے کا یہ بل پاس ہو جانا چاہئے۔ بورس حکومت میں ای یو معاملات سے نمٹنے کیلئے اٹارنی جنرل کی قیادت میں پوری ٹیم کوشش میں ہے کہ باہر آجانے کا بل چند مزید ترامیم کے ساتھ دارالعوام سے پاس ہو جائے۔ یورپین یونین کے سفارتکار بھی کوئی عندیہ نہیں دے رہے کہ وہ مختلف برطانوی تجاویز پہ بات کرنے کو تیار ہیں۔ اکتوبر ڈیڈ لائن سے تقریباً دو ماہ قبل ای یو اور برطانوی حکومت کسی جگہ پر اکٹھی ہوتی نظر نہیں آرہیں۔ اگر معاملات ایسے ہی چلتے رہے تو معاملہ اس طرف بڑھ جائے گا کہ برطانیہ کسی ڈیل کے بغیر اختتام اکتوبر کو ای یو سے نکل آئے گا۔ اس کے بعد انسانوں اور اشیا کی امد و رفت کس طرح جاری رکھی جائے گی۔ نئے قوانین کا اطلاق کس طرح عمل میں لایا جائے گا وغیرہ ایسے سوالات ہیں۔ جن پر نہ تو پارلیمنٹ کے اندر اور نہ ہی باہر کھل کر بات ہوئی ہے۔ حکومت کے تمام محکمہ جات یقیناً اس نئی ابھرتی صورتحال سے نمٹنے کیلئے ضرور کچھ نہ کچھ کررہے ہوں گے۔ دوسرا یہ بہت بڑا پروجیکٹ ہے جسے صرف زمین سے اٹھانے کیلئے طویل وقت درکار ہے۔پارلیمنٹ کے اندر یورپ سے کسی ڈیل کے بغیر نکلنے والوں کی تعداد اور وہ لوگ جو صرف کسی ڈیل کے نتیجہ میں باہر آنا چاہتے ہیں میں زیادہ فرق نہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ تھریسامے کا بل جو ابھی پاس نہیں ہوسکا میں اکثر معاملات پر اتفاق رائے موجود ہے۔ آئر لینڈ کے دونوں حصوں کے درمیان آمد رفت کے معاملات ایک ایسا ایشو ہے جس پر اکثرممبران اتفاق نہیں کررہے۔ حکومت اس مسئلہ کو حل کرنے کیلئے اپنی تمام تر کوششیں مرکوز کئے ہوئے ہے۔ اگر یہاں بورس جانسن مزید ممبران کو اپنے ساتھ ملا لیتے ہیں تو بل جو پہلے سے ایوان میں موجود ہے چند ترامیم کے ساتھ پاس ہو جائے گا۔ کئی مبصرین کا خیال ہے کہ ای یو اور برطانیہ جلد ایک ڈیل پہ متفق ہو جائیں گے ۔THE TIME کی کئی رپورٹس میں کارٹونوں اور تحریروں کے ذریعہ واضح کردیا گیا ہے کہ اگرچہ کابینہ کی اکثریتBRIXIT حامی ہے۔ مگر حکومت کو یہ خبر نہیں کہ وہ ملک کو کس طرف لے جارہی ہے۔ اگر نو ڈیل کے نتیجہ میں یہ ملک باہر آجاتا ہے تو حکومت کا اندازہ ہے کہ ایسے 39بلین پونڈ کی بچت ہوگی۔ اس پر سابق وزیر خزانہ فلپ ہیمنڈ ایم پی نے کہا ہے کہ یہ بچت جلد ختم ہو جائے گی۔ اس لئے اگر ہم کسی ڈیل کے ذریعہ باہر آجائیں تو ہم کافی حد تک ای یو سے جڑے رہیں گے۔ جس کے نتیجہ میں ملک کو ای یو سے باہر بھی اپنی تجارت بڑھا سکیں گے۔ BEST OF BOTH WORLD ٹوری پارٹی کے پاس صرف ایک ممبر کی اکثریت ہے اس کی حکومت کو اپنوں اورغیروں دونوں سے خوف ہے۔ اپنوں سے کیوں ؟ جو ممبران پارلیمنٹ NO DEAL بریگزٹ کو پسند نہیں کرتے وہ اتنی تعداد میں موجود ہیں کہ وہ ہم خیال ایم پیز کے ساتھ مل کر حکومت گرا سکتے ہیں۔ اہم اخبارات کے مطابق ملک کو ایک آئینی بحران کا سامنا ہے۔ لیبر پارٹی نے بھی موسم خزاں میں حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کا اعلان کردیا ہے۔ وزیراعظم بریگزٹ ایشو سے نمٹنے کے بعد از خود انتخابات کی طرف جاسکتے ہیں۔ اگر ای یو سے معقول ڈیل ہو جاتی ہے تو یہ ٹوری پارٹی کیلئے ایک بڑا بوسٹ ہوگا۔ لیبر متحد بھی ہے اور الیکشن کیلئے تیار بھی۔ لبرلز کی حالیہ کامیابیوں کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ وہ اگلی حکومت میں اتحادی ہوں گے۔ لیبر کو اپنی پروفائل اوپر اٹھانے کی ضرورت ہے کیونکہ انہیں نہ صرف سیاسی جماعتوں سے مقابلہ ہے بلکہ دائیں بازو کے مضبوط میڈیا سے بھی نمٹنا ہے۔ اللہ ملک کو اچھی اور اہل قیادت سے نوازے۔
تازہ ترین