• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر :محمد عمر توحیدی ۔۔۔اولڈہم
نظریۂ پاکستان کو پاکستان کی زندگی میں وہی اہمیت حاصل ہے ، جو انسان کی زندگی میں روح کو ہے اور روح نکل جانے کے بعد ’’ تنِ مُردہ ‘‘ کو مٹی کے نیچے دفن کر دیا جاتا ہے ۔ ورنہ اس میں تعفن پیدا ہو جاتا ہے جو دوسروں کی زندگی بھی دوبھر کر دیتا ہے ، لہٰذا اس روح کی بالیدگی کے لیے مسلسل اور پیہم اقدامات کی ضرورت ہے ، تاکہ پاکستان کا جسم بیماریوں سے پاک رہے اور اس میں جواں ہمتی و قوت موجود رہے ۔ اس کا طریقۂ کار یہ ہے کہ نوجوان نسل کو جس کے ذہن سے تحریکِ پاکستان اور نظریۂ پاکستان کے تصورات محو ہوتے جا رہے ہیں ، اپنی تاریخ سے آگاہ کیا جائے ترقی پزیر قومیں اپنی نئی نسل کو اپنی تاریخ اور اپنے اسلاف کے کارناموں سے آگاہ کر کے ان کو اپنے شاندار ماضی اور اپنے اسلاف پر فخر کرنا سکھاتی ہیں ، مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس کے بر عکس ہوتا آ رہا ہے ۔درحقیقت ہم نے اپنی تاریخ کو اپنے خود ساختہ عقائد و نظریات پر مبنی قرار دے لیا ہے اور اس لئے آج ہماری نوجوان نسل پاکستان کی صحیح تاریخ اور اس کی خاطر اپنے اکابر کی دی گئی قربانیوں سے واقف ہی نہیں ہے ۔ ہم نے تاریخ کو اپنی من مرضی کے مطابق گھڑ کے علمائے حق کے ایک خاص طبقہ کو بجائے بطور مثال پیش کرنے کے قابلِ طعن و تشنیع بنا دیا ہے ، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اگر تاریخِ آزادی ہند و پاک پر تعصب کی عینک لگائے بغیر نظر ڈالی جائے تو آج جن علما کو ہم حقارت اور نظریۂ پاکستان کا مخالف قرار دیتے ہیں ، ان کے اکابر نے حصولِ پاکستان میں بے پناہ قربانیاں دی ہیں اوران کا کردارہماری تاریخ کا بہت روشن باب ہے۔ چند دنوں تک ہم قریبا 73یوم آزادی منانے جا رہے ہیں لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اختصار سے اس موقع پر تاریخ کے دریچوں سے سچے نقوش کو آویزاں کیا جائے۔اسلامی تاریخ کے مطالعہ سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ اسلام کا کوئی بھی دور ایسا نہیں گزرا کہ جس میںابتلاء آزمائش کے جھکڑ نہ چلے ہوں،عواقب و حوادث کی کالی راتیں پہاڑ بن کے سامنے نہ آئی ہوں۔تاریخ ہمیں بتاتی ہیں کہ حضرت امداد اللہ مہاجر مکیؒ، امام محمد قاسم نانوتویؒ اورمولانا رشید احمد گنگوہیؒ نے اور دیگر علمائے اسلام نے1857ء کی جنگ آزادی میں عملی طور پرحصہ لیتے ہوئے جرات و بسالت کی درخشندہ تاریخ رقم کی۔ سینکڑوں علما شہید و گرفتارہوئے۔مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کے گھر رات کے وقت گنگومیںآپ کی گرفتاری کیلئے چھاپا مارا گیالیکن آپ اس وقت رامپور میں روپوش تھے۔ ایک غدار وطن کی اطلاع پر آپ کو رام پور سے پولیس نے گرفتار کر کے دو سال کیلئے جیل میں ڈال دیا۔جیل کی سختیاںبھی علم و عرفان کے اس کوہ رواں کے پایہ استقلال میں ذرا برابر جنبش پیدا نہ کر سکیں اور آپ رہا ہو کرآزادی وطن کیلئے مصروف عمل رہے۔ دارلعلوم دیوبند کی بنیاد علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ کے والدِ گرامی مولوی فضل الرحمنؒ اور شیخ الہند مولانا محمودالحسنؒ کے والدِ محترم مولوی ذوالفقار علیؒ نے 30 ؍ مئی 1867ء کو دیوبند کی ایک چھوٹی سی مسجد میں رکھی تھی ،امام محمد قاسم نانوتویؒکی دست شفقت اورسرپرستی ان بزرگوںکوحاصل رہی اور آگے چل کرحضرت نانوتوی کو بانی دارالعلوم دیوبند کے نام سے عالمگیر شہرت حاصل ہوئی۔ دارالعلوم دیوبند کو سب سے زیادہ ترقی شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ کے دور میں ہوئی ، جو 1888ء سے 1920ء تک دارالعلوم کے صدر مدرس رہے ۔ ان کے بعد حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ کو سرپرست بنایا گیا ۔ دنیا جانتی ہے کہ اسی مدرسہ نے دنیا کا سب سے بڑا انقلابی ’’ شیخ الہند ‘‘ پیدا کیا اور پھر ان کے شاگرد رشیدمولانا عبیداللہ سندھی ؒ کے کامریڈ (Comrade)ہونے سے کون انکار کر سکتا ہے ۔ حضرت شیخ الہندؒ نے ہی قیامِ پاکستان کی آواز اُٹھنے سے بہت پہلے ہی ہندوستان کو دارالحرب کہنے والی آواز پہ لبیک کہتے ہوئے’’ تحریک ریشمی رومال ‘‘ کے زریعے ہندوستانیوں پرقابض استبدادی حکومت کے خلاف علمِ بغاوت بلند کر دیا تھا ، اور اس جرم عظیم کی پاداش میںانھوں نے اپنے شاگردوں مولانا سید حسین احمد مدنیؒ ؒاور مولانا عزیرگلؒ سمیت جزیرہ کالا پانی کی سزائیں کاٹیں،نیز ان سے بھی بہت پہلے انہی کے پیش رو،مجاہدین فی سبیل اللہ سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسمٰعیل شہیدؒ نے ظلمت کدہ ہند میں توحید و سنت کے چراغ روشن کرتے ہوئے 7مئی بروز جمعہ 1831ء بالا کوٹ کے کارزارمیںاپنے تین سو فرزندان اسلام کے ہمراہ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے مسلمانانِ برصغیر کو آزادی کی راہ دکھا تے ہوئے ان کے دلوں کے اندرجذبہ آزادی اور ولولہ حریت پیداکر دیا تھا۔ تحریکِ پاکستان کے آخری سالوں میں جمیعت علمائے ہند کی روش کے خلاف علما ہند میں شدید ردِ عمل پیدا ہوا اور لوگوں میں یہ احساس پیدا کر دیا گیا کہ تمام دیوبندی علما پاکستان کی مخالفت کر رہے ہیں ، اس تاثر کو ختم کرنے کے لیے علمائے دیوبند میں شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ اُٹھے اور انھوں نے(1946 ء )میں’’ جمیعت علمائے اسلام ‘‘ قائم کی ، جس نے مسلم لیگ اور پاکستان کی بھر پور حمایت کی اور پورے ملک میں کانفرنسیں منعقد کر کے اس زہر کا تریاق مہیا کیا ، جو مسلمانوں کے اندر اتارا جا رہا تھا ۔ علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ فرماتے ہیں کہ : ’’ ہندوستان میں جو سیاسی کش مکش اس وقت جاری ہے ، میرے نزدیک اس سلسلے میں سب سے زیادہ قابلِ تنفر بلکہ اشتعال انگیز جھوٹ اور سب سے بڑی اہانت آمیز دیدہ و دلیری یہ ہے کہ یہاں کے دس کروڑ فرزندانِ اسلام کی مستقل قومیت کا صاف انکار کر دیا جانا ہے ۔ ہندوستان میں دس کروڑ مسلمان ایک مستقل قوم ہیں اس قوم کی وحدت اور شیرازہ بندی کے لیے ضروری ہے کہ اس کا کوئی مستقل مرکز ہو ، جہاں سے اس کے قومی محرکات اور عزائم فروغ پا سکیں اور جہاں سے وہ مکمل آزادی اور مادی اقتدار کے ساتھ اپنے خدائی قانون کو بے روک ٹوک نافذ کر سکے بلکہ اس بے مثال قانونِ عدل و حکمت کا کوئی عملی نمونہ قائم کر کے دنیا کو وہ مشعلِ ہدایت دِکھا سکے ، جس کی ہمیشہ سے زیادہ دنیا کو ضرورت ہے ۔ ‘‘ علامہ شبیر احمد عثمانی ؒکی مساعی اور رات دن جلسوں ، کانفرنسوں کی بدولت علما کی ایک عظیم اکثریت ان کی ہم نوا ہو گئی اور علمائے دیوبند کی ایک بڑی تعداد نے مسلم لیگ کے جھنڈے تلے پاکستان کے لیے رات دن جدوجہد کی ۔ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے اپنے قابلِ قدر کانگریسی اور جمیعت علمائے ہند کے ساتھیوں کو چھوڑ کر ببانگِ دہل قائد اعظم محمد علی جناح ؒ اور مسلم لیگ کی حمایت کی۔ امیرشریعت سید عطا اللہ شاہ بخاریؒ از خود قائد اعظم کے حضور پیش ہو گئے اور فرمانے لگے کہ میرے چند خدشات ہیں ، اگر قائد اعظم محمد علی جناح ؒ وہ دور کر دیں تو میں اُن کے ایک ادنیٰ سپاہی کی حیثیت سے لڑوں گا اور پھر تاریخ گواہ ہے کہ انھوں نے اپنا تن من دھن پاکستان کی خاطر وار دیا اور لاکھ کوششوں کے باوجود وہ قیامِ پاکستان کے مؤقف سے ذرہ برابر بھی پیچھے نہ ہٹنے پائے اور اپنی شعلہ نوائی سے مسلمانوں کے دِلوں کو گرماتے رہے ۔ مولانا احمد علی لاہوریـؒ نے قید و بند کے دکھ اٹھائے،اسلام کی سربلندی،وطن کی آزادی کی تحریک نے انہیں نڈھال کیئے رکھااوروہ آخری دم تک قوم و ملک کے لئے نبرد آزمارہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح ؒنے علمائے دیوبند کی قیامِ پاکستان کے لیے دی گئی قربانیوں کا اس طرح اعتراف کیا کہ قیامِ پاکستان کے موقع پر جھنڈا لہرانے کی تقریب کراچی میں علامہ شبیراحمدعثمانی ؒ اورڈھاکہ میںمولاناظفراحمدعثمانی ؒکے مقدس ہاتھوں سے ادا کروائی۔ علمامشائخ اور پیران عظام کی موجودگی میں علامہ شبیر احمد عثمانی ؒنے احتراماًتھوڑی ہچکچاہٹ محسوس کی تو قائد اعظم نے اس موقع پر فرمایا کہ یہ تمھارا ہی استحقاق ہے! اور یہی نہیں بلکہ اپنا جنازہ پڑھانے کی وصیت بھی علامہ شبیراحمدعثمانی ؒکے لئے کی۔ افسوس کہ آج بھی ہم دوسروں کی پڑھائی تاریخ پڑھ کے بلا وجہ نفرتوں کو پال رہے ہیں۔ روحِ دین ہے کہ تم آپس میں بھائی بھائی بن کے رہو ۔ اہل پاکستان کو 73واں یوم آزادی مبارک ہو۔
تازہ ترین