یہاں پاکستانی کمیونٹی کا سیاسی سفر شروع ہو چکا ہے
اسپین میں مقیم پاکستانی کمیونٹی نے یہاں مختلف شعبوں میں ان تھک محنت کرکے نام کمایا اور مقامی کمیونٹی کی زبردست پذیرائی حاصل کی ۔محنت مزدوری کا ذکر کریں تو ہسپانوی ادارے پاکستانیوں کو جفا کش اور با ہمت قوم کے طور پر دیکھتےہیں ۔ اگر ہم کاروباری سیکٹر میں دیکھیں تو بھی ہمیں سیکڑوں پاکستانی بزنس کمیونٹی کی نمائندگی کرتے نظر آتے ہیں ۔ پاکستانی کمیونٹی نے اپنی محنت سے جہاں اپنا مقام بنایا وہیں انہوں نے پاکستان میں رہنے والے اپنے عزیز و اقارب کی بھی بھرپور معاونت کرتے ہوئے اپنے پاؤں پر کھڑا کیا ۔اسپین میں پاکستانی کمیونٹی کی آمد کا سلسلہ 70کی دہائی میں شروع ہوا تھا اُس کے بعد یہ تعداد بڑھتی گئی اور پھر 1990کے بعد اسپین آمد کا یہ سلسلہ تیز ہو گیا اور 2000میں کھلنے والی ایمیگریشن نے بہت سے پاکستانیوں کواسپین کی جانب مبذول کردیا ۔جس کی وجہ سے اب اسپین میں مقیم پاکستانیوں کی تعداد ایک لاکھ 20ہزار سے تجاوز کر گئی ہے ۔
جب پاکستانی یہاں اپنا مقام بنا چکے تو پھر اہل خانہ کو اسپین بلایا، چھوٹی عمر میں یہاں آنے والے بچوں نے مقامی کلچر اور زبان پر جلد عبور حاصل کر لیا ، بچوں نے یہاں کے مقامی اسکولوں ، کالجز اور یونیورسٹیز میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور سرکاری و نیم سرکاری اداروں میں ملازمت اختیار کی ، مقامی اداروں میں ملازمت کرنے والے پاکستانیوں نے ہسپانوی کمیونٹی کے کلچر کو بہتر انداز میں سمجھا اور ہسپانوی زبان میں اپنا پاکستانی کلچر انہیں سمجھایا، جس سے دو اقوام کے درمیان قربتوں کو بڑھنے میں بڑی مدد ملی ۔پاکستانی نوجوانوں نے مقامی سیاست میں بھی حصہ لینا شروع کیا اورا سپین کی بڑی سیاسی پارٹیوں کی ممبر شپ حاصل کی۔ ہسپانوی سیاسی پارٹیوں نے پاکستانیوں کو اپنے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑنے کے لئے ایم این اے ، ایم پی اے اور کونسلرز کے ٹکٹ بھی دیئے ، ابھی تک قومی اور صوبائی انتخابات میں کوئی پاکستانی جیت تو نہیں سکا لیکن سیاسی پارٹیوں کی توجہ حاصل کرنے میں پاکستانی کمیونٹی دوسری اقوام سے سبقت لے گئی ہے ۔ مسئلہ ہار جیت کا نہیں ہے بلکہ پاکستانیوں کو یورپی ممالک میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے ٹکٹ اشو کیا جانا پاکستانی کمیونٹی کی حیثیت کو ماننا ہے ۔اسپین کی تیسری بڑی سیاسی پارٹی ’’ سیوتادانس ‘‘ہے جس کے سربراہ ’’البرٹ ریویرا ‘‘ ہیں ۔
یہ پارٹی نوجوانوں کی پارٹی ہے کیونکہ اس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد شامل ہیں ۔ یہ پارٹی تارکین وطن کے حقوق پر دوسری پارٹیوں سے زیادہ توجہ دیتی ہے ۔ایک پاکستانی نوجوان طاہر رفیع جن کا تعلق پاکستان کے شہر لاہور کے علاقہ شادباغ سے ہے ،نے سیوتادانس پارٹی کی ممبر شپ لی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ پارٹی قائدین کی نظروں میں آگئے، طاہر رفیع بارسلونا کے مقامی ہسپتال میں کمیونٹی ہیلتھ ورکر کے طور پر اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ طاہر رفیع نے پاکستان سے ایم بی اے کیا ، وہ آل پاکستانی فیملیز ایسوسی ایشن اسپین کے صدر بھی ہیں اور پاک فیڈریشن اسپین کے جنرل سیکرٹری بھی رہ چکے ہیں ، انہوں نے چار سال قبل سیوتادانس کو جوائن کیا اور آج وہ اس پارٹی کی طرف سے پہلے پاکستانی کونسلر بن گئے ہیں جو پاکستانیوں کی مقامی پارلیمنٹ کی جانب شروع ہونے والے سفر کی شروعات ہے۔
روزنامہ جنگ سے بات کرتے ہوئے طاہر رفیع نے بتایا کہ انہوں نے سیوتا دانس پارٹی کو اُن کا منشور پڑھ کر جوائن کا تھا کیونکہ اس پارٹی کا منشور اسپین کے سسٹم میں تبدیلی لانے کا ہے ، انہوں نے بتایا کہ یہ پارٹی سوشل میڈیا سے شروع ہوئی اور اپنے سفر کا آغاز 2006میں کیا اب ان 13برسوں میں یہ اسپن کی تیسری بڑی پارٹی بن چکی ہے ۔ گزشتہ قومی انتخابات میں ان کے پاس 32 قومی نشستیں تھیں، جبکہ اس سال ہونے والے انتخابات میں اس پارٹی نے 57سیٹیں لی ہیں جو اس کی مقبولیت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔طاہر رفیع نے بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ اس وقت صوبہ کاتالونیا میں اس پارٹی کے پاس سب سے زیادہ سیٹیں ہیں جن کی تعداد 36ہے ۔انہوں نے بتایا کہ میں چار سال تک اپنی پارٹی میں ایشین کمیونٹی کا ڈائریکٹر تھا اور میری انہی خدمات کو دیکھتے ہوئے پارٹی نے مجھے کونسلر منتخب کیا ہے اور یہ اعزاز دراصل پاکستان کا اعزاز ہے کیونکہ کسی بھی پاکستانی کو پہلی بار اس پارٹی نے کونسلر بنایا ہے ۔انہوں نے بتایا کہ جب میں کونسلر بنا تو ایشین کمیونٹی کے حقوق پر پارٹی میں کام کرنے والی سیٹ خالی ہوگئی لہذا پارٹی قائدین نے اسپین میں سماجی کاموں میں پیش پیش علی رشید بٹ کو سیوتادانس پارٹی کی طرف سے ایشیا زون کا کوآرڈینیٹر مقرر کیا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستانی کمیونٹی کا سیاسی سفر شروع ہو چکا ہے اور وہ دن دور نہیں جب یہ سفر قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں جا کر ختم ہو گا ، انہوں نے کہا کہ برطانیہ میں پاکستانیوں کی تیسری چوتھی نسل آباد ہے وہاں پاکستانیوں کا میئر اور ایم پی اے بننا ایک فطری عمل ہے اسپین میں بھی ایسا ہوگا جب ہماری پہلی نسل اپنی تعلیم مکمل کرکے سیاسی میدان میں اترے گی ، انہوں نے کہا کہ میرا مقامی بلدیہ میں جانا پاکستانی کمیونٹی کے لئے بہت خوش آئند ہے کیونکہ اب ہم مقامی اداروں میں اپنی آواز بلند اور قریب سے سنا سکیں گے ، اپنے مسائل کو سامنے بیٹھ کر بیان کر سکیں گے ، انہوں نے کہا کہ اب ہمارے بچوں نے یہیں رہنا ہے اس لئے یہاں اپنا بہتر مقام بنانا اور مقامی لوگوں کی توجہ حاصل کرنا ہم سب پر فرض ہے ، انہوں نے کہا کہ یہاں مقیم پاکستانی والدین اپنے بچوں کی تعلیم پر زیادہ توجہ دیں کیونکہ اب ہمارے بچے اپنے ساتھ ساتھ ہمارے بہتر مستقبل کے بھی ضامن ہیں ۔