کسی شاعر نے کہا تھا کہ ’’قدرت کا کرشمہ ہے، یہ میرا کشمیر۔ آؤ دوزخ میں ڈوبی ہوئی جنت دیکھو‘‘۔ جی ہاں! کشمیر کرۂ ارض کی وہ جنت ہے، جسے گزشتہ 72برسوں سے جہنم بنا دیا گیا ہے۔ بقول کسے ’’جہاں برف گرتی ہے‘ جہاں پتھر کے نیچے‘ پھول کھلتے ہیں‘ جہاں چشمے ابلتے ہیں‘ جہاں بارش برستی ہے‘ برستی بارشوں میں بھی‘ جہاں کوہسار جلتے ہیں‘ چلو کشمیر چلتے ہیں‘‘ اس سے بڑا انسانی المیہ کیا ہو سکتا ہے کہ اس جنت ِ ارضی کے بارے میں قلم اٹھایا جائے تو صرف مرثیے اور نوحے تخلیق ہوتے ہیں۔
کشمیری دنیا کی وہ بدنصیب قوم ہیں، جنہوں نے وہ دکھ جھیلے، جن کے وہ سزا وار نہیں تھے۔ 1947میں برصغیر کی تقسیم نے اگرچہ بے شمار المناک داستانوں کو جنم دیا، جو تاریخ کا حصہ بن گئیں لیکن کشمیر وہ المناک داستان ہے، جس کا خود تاریخ حصہ بن گئی۔ یہ داستان کئی زمانوں پر محیط ہے اور نہ جانے تاریخ اپنے آپ کو اس المیے سے کب نجات دلا سکے گی۔ کشمیر کا المیہ ختم ہو سکتا ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ کچھ عالمی طاقتوں کا مفاد اس بات سے وابستہ ہو گیا کہ چنار کے درختوں کے قرمزی رنگ والے پتوں کی خوبصورتی کو خون اور آگ کے شعلوں سے ماند کر دیا جائے۔ ان کا مفاد اسی میں تھا کہ کشمیر خود چیخ کر کہے کہ
خون میں ڈوبی ہوئی تصویر ہوں
ہاں میں کشمیر ہوں ، ہاں میں کشمیر ہوں
نہ صرف کشمیری تباہ و برباد ہوئے بلکہ بھارتی اور پاکستانی بھی خوش و شادماں نہیں رہے۔ اگرچہ دونوں ملکوں کے اکثریتی عوام اور پاکستان بطور ریاست مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کرنے کا موقف اختیار کرتے رہے لیکن یہ مسئلہ حل نہ ہونے سے دو جوہری طاقتیں جوہری تصادم کے خطرات سے دوچار ہیں اور جنوبی ایشیا کی ڈیڑھ ارب سے زائد آبادی کی بقا کا سوال پیدا ہو گیا ہے۔ یہ سب کچھ بھارت کی ہیئت مقتدرہ (اسٹیبلشمنٹ) کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ہوا ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے بھارتی مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے اور اس ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کر کے انہیں بھارتی ریاست کا حصہ بنانے کا جو اقدام کیا ہے، وہ جلتے ہوئے کوہساروں کو ایسے لاوے میں تبدیل کرسکتا ہے، جو پورے برصغیر کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ نریندر مودی نے جو کچھ کیا، وہ نریندر مودی ہی کر سکتا تھا، جس کی عالمی سامراج اور سرمایہ دارانہ نظام طویل عرصےسے پرورش کر رہا تھا۔ نریندر مودی کے اس اقدام کے لئے بہت پہلے سے تیاریاں کی گئیں۔
یہ اقدام نہ صرف برصغیر میں امن و ترقی کے راستے محدود کر دے گا بلکہ مشرق خصوصاً ایشیا کی ابھرتی معیشتوں اور عالمی بالادستی کی راہ میں بھی رکاوٹیں پیدا کر دے گا۔ انتہا پسند دائیں بازو کا نریندر مودی مغربی استعمار کا بدترین نمائندہ ہے، جو خود بھارت کے عالمی طاقت بننے کی صلاحیت پر کاری ضربیں لگا رہا ہے۔ وہ چین، روس، ایران اور دیگر ملکوں کی نئی صف بندی کیخلاف مغربی سازشوں کا آلہ کار ہے حالانکہ اس نئی صف بندی اور نئے بلاکس بننے سے سب سے زیادہ فائدہ بھارت کو ہوتا۔ وہ اس خطے میں بڑی تباہی کا موجب بن رہا ہے۔
اس صورتحال میں ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ پاکستان کے لئے ایسے چیلنج پیدا ہو گئے ہیں۔ میں وزیراعظم عمران خان کی اس بات سے متفق ہوں کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں۔ جنگ میں کوئی جیتتا نہیں بلکہ جنگ خود ہی جیت جاتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ پاکستان کو ہر وقت بھارت کی کسی بھی مہم جوئی کا جواب دینے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ دونوں جوہری طاقتوں کے درمیان سرد جنگ بھی انتہائی خطرناک ہے۔ مودی کے اقدامات نے پاکستان کے لئے وہ موقع پیدا کر دیا ہے، جو پہلے کبھی نہیں ملا۔ بھارت میں پہلی مرتبہ نریندر مودی کے اقدامات کے خلاف اور کشمیریوں کے حق میں موثر آواز پیدا ہوئی۔ بھارت کے ادیب، شاعر، دانشور، صحافی، انسانی حقوق کی تنظیمیں، نچلی ذات کے ہندوئوں کی تنظیمیں، سکھ برادری اور ترقی پسند سیاسی حلقے نریندر مودی کے اقدام کی نہ صرف مذمت کر رہے ہیں بلکہ مظلوم کشمیریوں سے یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں۔
یہ کشمیری عوام کی جائز جدوجہد اور پاکستانی موقف کی حمایت ہے۔ چین، روس، ترکی، ایران اور کئی مغربی ممالک نے نریندر مودی کے اس اقدام کر رد کر دیا ہے۔ اگرچہ بعض مسلم ممالک اپنے تجارتی مفادات کی وجہ سے کھل کر نریندر مودی کی مخالفت نہیں کر رہے بلکہ وہ اس کی حمایت بھی نہیں کر رہے۔ مودی نے مسئلہ کشمیر کو زندہ کر دیا ہے اور عالمی ضمیر کو فیصلہ کرنے پرمجبور کر دیا ہے۔ اس صورتحال میں پاکستان کو چاہئے کہ وہ اپنی سفارتی سرگرمیاں تیز کرے۔ سفارتی محاذ پر بھارت دفاعی پوزیشن پر آگیا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس اس امر کا ثبوت ہے۔ پاکستان کی حکومتی اور سیاسی قیادت کو باہر نکل پڑنا چاہئے اور عالمی حمایت حاصل کرنا چاہئے۔ امریکہ میں کشمیریوں نے بھارت کیخلاف ’’بائیکاٹ، ڈیوسٹیمنٹ اینڈسٹیگنیشن‘‘۔ Boycott, Divestments and Stagnation یعنی بی ڈی ایس کی جو تحریک چلائی ہوئی ہے، اسے پوری دنیا میں بڑھاوا دینا چاہئے۔ پاکستانی عوام کو مقبوضہ کشمیر کے عوام کی مدد کے لئے اس طرح کام کرنا ہو گا، جس طرح 2005ءکے زلزلے میں کیا گیا۔ مظلوم کشمیریوں کیلئے خوراک، دوائیں، کپڑے، کمبل او ردیگر مالی امداد بین الاقوامی این جی اوز کے ذریعے بھجوانے کا بندوبست کرنا چاہئے۔ سب سے زیادہ ذمہ داری حکومت پاکستان پر عائد ہوتی ہے۔ وہ اس صورتحال میں پاکستان کی تمام سیاسی قوتوں کو اکٹھا کرے اور ملک میں سیاسی پولرائزیشن کے عمل کو روکے۔ اس سے بہتر موقع نہیں آئے گا۔ اگر ہم نے یہ موقع ضائع کیا تو یہ ہماری اجتماعی ناکامی ہو گی۔ ہمیں یہ بات نہیں بھولنا چاہئے کہ کشمیر وادی سندھ کا حصہ ہے۔ کشمیر کاز کو ہونے والے نقصان سے ہمیں سب سے زیادہ نقصان ہو گا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)