ناسا نے انکشاف کیا ہے کہ اب چاند سے زمین پر دیوار چین کے علاوہ بھی کچھ نظر آنے لگا ہے ۔ان ماہرین کے مطابق پاکستان میں سی این جی کے لئے لگنے والی لائنیں دیوار چین سے بھی طویل ہوتی جارہی ہیں۔ مبارک ہو حکمرانوں کی محنت رنگ لا رہی ہے۔ پاکستان عالمی برادری کے سامنے سر بلند ہو رہا ہے۔ بزرگ کہتے ہیں ماضی سے رشتہ نہیں توڑنا چاہئے۔ موجودہ حکمرانوں کا شکریہ ان کی کرتوتوں کی وجہ سے آج بھی ہمارا رشتہ ماضی سے قائم دائم ہے۔ ہم آج بھی لالٹین استعمال کرتے ہیں۔ ہم آج بھی لکڑیاں جلاتے ہیں۔ ہم آج بھی تندوروں سے روٹیاں خرید کر لاتے ہیں اور تندور بھی جدید والے یا میاں شہبازشریف والے نہیں بلکہ لکڑیوں ، اوپلوں پر چلنے والے تندور۔ میاں صاحب سے کوئی بعید نہیں کہ وہ سولر تندور بھی تقسیم کرنے لگیں۔ الیکشن الیکشن ہی ہوتا ہے چاہے ملتوی ہونے کے لئے ہو اوروہ الیکشن کے لئے پل بھی بنا سکتے ہیں پلوں پر لال پیلی بسیں بھی چلا سکتے ہیں۔ مجھے تو اپنے قومی ہیرو اور محسن پاکستان کی اس بات سے شدید اختلاف ہے کہ اگر عوام نے موجودہ حکمرانوں سے جان نہ چھڑائی تووہ جلد گھاس کھانے پر مجبور ہوں گے۔ ڈاکٹر صاحب یقین کیجئے جو کھا رہے ہیں گھاس ہی ہے۔ کیونکہ گلاب جامن، قلاقند تو ہمارے عظیم حکمرانوں کے ریس میں حصہ لینے والے اور ایوان صدر کو بھینی بھینی خوشبو بخشنے والے گھوڑوں کے حصہ میں آگئی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ایٹم بم بناتے وقت کہا تھا ہم گھاس کھالیں گے پر بم ضرور بنائیں گے۔ آصف زرداری نے اسے کچھ زیادہ ہی سیریس لے لیا۔ ڈاکٹر صاحب کا یہ کہنا کہ عوام ان حکمرانوں سے پیچھا چھڑا لیں ویسے ہی غلط ہے۔ جمہوریت تھوڑے سے فرق کے ساتھ کبڈی کا کھیل ہے جس میں سیاستدان عوام کو دونوں ہاتھوں سے گھیرتے ہوئے کبڈی کبڈی کرتے ہیں۔ اگر پکڑنے کے دوران کبڈی کبڈی کہتے ان کا دم ٹوٹنے لگے تو نیا کھلاڑی وہیں سے کھیل شروع کر دیتا ہے۔ کمزوروں پر ہاتھ بھی انہوں نے لگانا ہوتا ہے۔ پالا بھی انہوں نے مارنا ہوتا ہے اگر عوام کو گھاس ہی کھانے کو مل جائے تو غنیمت ہے ورنہ دو نمبر آٹا انہوں نے کھانا ہے ۔ کیمیکل ، ہیئر ریمور پاؤڈر ملا دودھ ان کی اولادوں کو جوان کر تا ہے۔ مرے بیمار جانور کا گوشت ان کا مقدر ہے۔ دنیا کی سب سے زیادہ آلودہ فضا میں یہ مخلوق زندہ رہنے کے لئے سانس لینے کا فرض ادا کرتی ہے۔ ان حالات میں گھاس ایک ایسی غذا رہ جاتی ہے جو ملاوٹ سے پاک ہے۔ وہ ہی کھا لینے دیں۔ ڈاکٹر عبد القدیر بلا شبہ محسن پاکستان ہیں۔ انہوں نے ہمیں ایٹم بم دیا۔ کہتے ہیں غریب کی جورو سب کی بھابھی۔آج پوری دنیا ہم غریبوں کے ایٹم بم کی طلبگار نظر آتی ہے۔ہم آج ایک بے بس قوم ہیں امریکہ بہادر کی اب خواہش ہے تو کل کے گندے بچے طالبان آج ایک بار پھراچھے بن گئے ہیں۔ ان کے لیڈر جنرل مشرف کی طرح” گارڈ آف آنر“ کے ساتھ رہا ہو رہے ہیں اور مذاکرات کی ٹیبل پر بٹھائے جا رہے ہیں۔ زرداری حکومت اور باقیوں کی کیا مجال کہ مذاکرات سے انکار کریں۔ سعودیہ جانے سے پہلے تھو تھو کرنے والے میاں صاحب بھی واپس آکر مذاکرات کے حق میں ہپ ہپ بیان دینے لگتے ہیں۔ اسے کہتے ہیں”ڈاڈے دا ستے ویاں دا سو ہوندا اے“ہے۔
میں بات کر رہا تھا ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی جنہوں نے اپنی جماعت بناتے ہوئے سیاست میں آنے کا باقاعدہ اعلان کر دیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب جانتے ہیں کہ پاکستانی ان سے محبت کرتے ہیں۔وہ اٹھارہ کروڑ عوام کے متفقہ ہیرو ہیں۔ مشرف گروہ کی جانب سے انہیں متنازعہ بنانے کی لاکھ کوششوں کے باوجود وہ واحد غیر متنازعہ ہیرو ہیں۔ لیکن ڈاکٹر صاحب آپ نے یہ کیا کیا؟ آپ سیاستدان بننے چل پڑے ۔ کہاں وہ کہاں یہ مقام۔ ۔۔اللہ اللہ۔نئے تعینات ہونے والے آئی جی نے ایک سپاہی کو طلب کیا ۔ کانپتی ٹانگوں کے ساتھ سپاہی حاضر ہوا۔ آئی جی کہنے لگے یاد ہے ایک بار تم نے پولیس مقابلے میں میر ی جان بچائی تھی۔ اس احسان کے بدلے تمہیں آج ”آؤٹ آف دی وے“ ایس پی سٹی لگا رہا ہوں۔ پھر آئی جی نے مسکرا کر کہا بولو اور کچھ چاہتے ہو ۔ سپاہی نے کھڑاک کر کے سلوٹ مارا اور بولا !سر آپ کی مہربانی اگر ایس پی سٹی کے ساتھ مجھے ایس ایچ او ٹبی تھانہ بھی لگا دیا جائے۔ ڈاکٹرصاحب آپ ہماری عظمت کے روشن چاند ہیں ، یہ سیاست یہ نظام چوروں ، اچکوں، لٹیروں، بازی گروں، دھوکے بازوں کا نظام ہے ۔ اس میں آپ کا کیا کام۔ یقین کریں اگر الیکشن میں انہوں نے آپ کے مقابلے میں کسی دستی، کسی حمزہ، ستار کو کھڑا کر دیا تو آپ کی ضمانت ضبط ہو جائے گی۔ مانا آپ ایٹم بم بنا سکتے ہیں لیکن آپ کو جعلی ووٹ بنانے نہیں آتے۔ آپ کو ٹرانسفیوژن کا فارمولا آتا ہے لیکن جعلی ڈگریاں بنانے کا فارمولا کبھی نہیں آسکے گا۔ آپ غوری میزائل بنا لیتے ہو ں گے لیکن جعلی ووٹر لسٹیں، بوگس ووٹ اور بوگس پولنگ اسٹیشن کیسے بنائیں گے۔ الیکشن کمشنر فرماتے ہیں جو ووٹ نہیں ڈالے گا اسے ہزار روپے جرمانے کی سزا ملے گی اور جو ووٹ ڈالے گا وہ پانچ سال قید با مشقت کاٹے گا۔ پانچ سال اپنے جرم کے خمیازے میں بھوک ، پیاس برداشت کرے گا۔ اندھیروں میں ٹکرے مارے گا۔ سی این جی کو عید کے چاند کی طرح تلاش کرے گا۔ پھندہ لے کر ، زہر کھا کر، ٹرین تلے آکر اپنے جرم کا کفارہ ادا کرے گا۔ زمانے بھر کی پھٹکا ر اور طاقتوروں کی دھتکار اس کا مقدر ہو گی۔ جناب محترم ڈاکٹر صاحب اگر آپ بھی اس نظام کا حصہ بن گئے تو تبدیلی کیسے آئے گی۔ اچھا لگے گا کہ آپ ووٹ مانگنے در در حاضر ہوں ؟ یہ تو قوم کی خوش قسمتی ہے جو یہ تسلیم کرتی ہے کہ آپ محسن پاکستان ہیں لیکن یقین کیجئے یہ اپنے محسنوں کے ساتھ بہت برا سلوک کرتے ہیں۔ ان کا محسن سڑک کنارے ایک تباہ حال ایمبولینس میں تڑپتا ہے اور اس کی بہن پتھرائی نگاہوں سے مدد کے لئے قریب سے گزرنے والی گاڑیوں کو دیکھتی رہ جاتی ہے اور پھر اسی بہن کو ہم ایک ڈکٹیٹر کے ہاتھوں انتخابات میں شکست کا تحفہ دے کر احسان کا بدلہ چکا دیتے ہیں۔ یہ قوم اپنے محسنوں کو بھرے جلسے میں گولی مارتے دیکھتی رہ جاتی ہے اور اللہ پاکستان کی خیر کرے کہتے ہوئے راہ عدم روانہ ہو جاتے ہیں۔ آپ نے ایٹم بم دیا اور جس نے بنوایا اسے ہم نے پھانسی پر لٹکا دیا۔ خدارا آپ اس نظام کا حصہ نہ بنیں یہ نظام ایک ایسی گائے ہے جس کا دودھ صرف امراء اور طاقتور پیتے ہیں۔ ہمیں تو تھاپیاں لگانے کے لئے اس نظام سے گوبر تک نہیں ملتا۔ صلاح الدین ایوبی نے کہا تھا جب حکمرانوں کی ترجیح خودان کی اپنی حفاظت بن جائے تو ملک و قوم کی آبر و کے تحفظ کے قابل نہیں رہتے۔ آج کوئٹہ ، پشاور،ہزارہ ، کراچی میں لوگ گاجر مولی کی طرح کاٹے جا رہے ہیں اور حکمرانوں کی حفاظت کے لئے ایلیٹ فورس پھر مصاحبوں کی ڈھیٹ فورس، تربیت یافتہ سونگھتے پھرتے کتے اور زمانے بھر کے اسلحہ بردار گھیرا ڈالے نظر آتے ہیں۔ دوسری طرف دہشت گرد، ٹارگٹ کلرز، بھتہ خور عوام کے گرد گھیرا ڈالے لڈی ہے جمالو ڈال رہے ہیں ۔ اس نظام کے جوں جوں حکمرانوں کے محافظ بڑھیں گے عوام بے امان ہوتے جائیں گے۔ سرمایہ داروں کی توند جتنی پھولے گی غریب آدمی کا کبھ اتنا ہی بڑھتا جائے گا۔ تجوریاں بھرنے کا مطلب غریب کی کٹیا اجڑنا ہے۔ آپ اس نظام میں رہ کر کیا کریں گے ۔ خدارا یہ نظام کوئلوں کی دلالی کے سوا کچھ نہیں ۔ آج اس خوفزدہ ، سہمی، ٹھکرائی، بھوکی ننگی قوم کو سیاست دان کی نہیں ایک لیڈر کی ضرورت ہے اور لیڈر کو کسی الیکشن میں حصہ لینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ کیا امام خمینی نے الیکشن لڑا تھا؟کیا نیلسن منڈیلا انتخابات کے بعد رہنما بنے تھے؟ کیا ماؤزے تنگ کو عوام نے ووٹو ں سے قوم کی تقدیر بدلنے کا مینڈیٹ دیا تھا؟؟؟؟آج عوام کو بیورو کریسی کے بجائے ایک ہیرو کریسی کی ضرورت ہے۔ آپ بھی ان دو نمبر جعل سازوں کے گروہ میں حصہ بننے نکل کھڑے ہوئے۔ تھوڑا صبر کر لیں تبدیلی آکے رہے گی۔ ہم ڈاکٹر طاہر القادری کی شخصیت پر جو مر ضی بات کر لیں لیکن انجانے میں انہوں نے سٹیٹس کو کی نشاندہی ضرور کر دی ہے۔ نادانستہ ہی سہی لیکن تبدیلی کانعرہ عوام کے منہ چڑھتا جا رہا ہے۔ کاش آپ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے کی بجائے تبدیلی پسند لوگوں کے ساتھ مل جائیں یا انہیں اپنے پاس بلالیں۔ عمران خان پر ابھی اس گٹر سیاست کی بدبو پوری طرح نہیں چڑھی، دو ہیروز کیوں اکٹھے نہیں ہو سکتے آپ ایک بار بغاوت کا اعلان تو کریں علم بغاوت تھام کر باہر تو آئیں۔پوری قوم آپ کو مسیحا بنانا چاہتی ہے خدا کے واسطے آپ وزیراعظم بننے کی خواہش نہ رکھیں پاکستان کو وزیراعظم کی نہیں ایک لیڈر کی ضرورت ہے۔