• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس کہانی کا آغاز ہوتا ہے سال 2008سے، جب اٹلی کی ایک غیر منافع بخش تنظیم نے وفاقی وزارت کے ساتھ مل کر پاکستان میں تھیلیسیمیا کے شکار بچوں کو خون منتقل کرنے اور بون میرو ٹرانسپلانٹ کے لئے پمز میں بون میرو ٹرانسپلانٹ سینٹر پر کام شروع کیا، بون میرو ٹرانسپلانٹ چونکہ انتہائی حساس سرجری ہے جس کے لئےخصوصی تربیت درکار ہوتی ہے چناچہ طے پایا کہ اٹلی کے تربیت یافتہ ماہرین پاکستانی ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کو یہ ٹریننگ فراہم کریں گے۔ ابتدائی طور پہ پمز میں بون میرو ٹرانسپلانٹ یونٹ قائم کر دیا گیا جس کے لئےمیڈیکل کے شعبے سےاسسٹنٹ پروفیسر سے ہائی جین ورکر تک 25افراد کوکنٹریکٹ پہ بھرتی کیا گیا، بعد میں یہ تعداد 42تک پہنچ گئی، ٹریننگ مکمل ہوئی اور ایک سال میں 20بچوں کے بون میرو ٹرانسپلانٹ کر دئیے گئے، اس دوران تمام اخراجات اطالوی حکومت نے اٹھائے، جو 20ٹرانسپلانٹ کئے گئے ان کے متعلق خود اطالوی ماہرین نے اعتراف کیا کہ یہ کسی بھی ترقی یافتہ ملک کے مساوی کامیاب آپریشنز تھے، اس کے بعد سال 2010میں کئیر ٹو چلڈرن فائونڈیشن اور پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے درمیان ایک سال میں بون میرو سنٹر کے باضابطہ قیام کے لئے معاہدے پہ دستخط کیے گئے، تعمیر کیلئے تمام فنڈز پاکستان اٹالین ڈیبٹ فار ڈویلپمنٹ سویپ اگریمنٹ کے تحت فراہم کیے جانا تھے اور سنٹر کے قیام کے بعد اسے ایک سال میں حکومت پاکستان نے اپنے زیر انتظام لینا تھا جبکہ دو سال کے اندر مستقل ڈاکٹرز اور اسٹاف کی تعیناتی کرنا تھی، حکومت پاکستان کی عدم توجہی کے باعث منصوبہ ایک سال میں مکمل ہوا اور نہ ہی مستقل تعیناتیاں کی جا سکیں، ڈیڈ لائن میں توسیع کی جاتی رہی، سال 2014تک ہمارے معصوم بچوں کو نئی زندگی فراہم کرنے کے لئے اطالوی تنظیم سرکاری افسر شاہی اور بابوئوں سے سر کھپاتی رہی لیکن کسی کے کانوں پہ جوں نہ رینگی اور بالآخر وہ سرکار کو اس کے حال پہ چھوڑ کر چلی گئی، اسی دوران اٹھارہویں ترمیم کے تحت صحت کا شعبہ صوبوں کو منتقل ہوا تو بھی اطالوی حکومت اس سنٹر کی اہمیت کے پیش نظر فنڈز فراہم کرتی رہی، پیپلز پارٹی کی حکومت کے بعد مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں وزارت کیڈ نے اس منصوبے کو پی ایس ڈی پی کے کھاتے میں ڈال دیا اور دو سال تک اس مد میں ڈاکٹرز اور عملے کی تنخواہیں ادا کی جاتی رہیں لیکن اعلیٰ تعلیم اور تربیت یافتہ ان ڈاکٹرز اور عملے کے کنٹریکٹ میں سالانہ بنیادوں پہ توسیع سے کام چلایا جاتا رہا، اس دوران کنٹریکٹ میں توسیع کے وقت تین تین ماہ کی تنخواہیں رک جاتیں، ارباب اختیار کی اس بے حسی کو دیکھ کر بون میرو ٹرانسپلانٹ یونٹ سے وابستہ مسیحا اپنے غیر یقینی مستقبل کے باعث آہستہ آہستہ ملازمت چھوڑ کر جانے لگے، سال 2017تک ان کی تعداد کم ہو کر 21رہ گئی، حکومت نے انہیں مستقل کرنے کے بجائے بون میرو سنٹر منصوبے کو ڈویلپمنٹ سے نان ڈویلپمنٹ بجٹ میں ڈال دیا، سنٹر میں 21سے تعداد کم ہوکر محض 12تک پہنچ گئی جس میں گریڈ 18کی ایک اسسٹنٹ پروفیسر، جو انچارج ہیں، ایک گریڈ 17کی میڈیکل آفیسر اور گریڈ 16کی چارج نرس شامل ہیں، گریڈ 15تک کے معاون عملے کے دیگر 9افراد بھی بدستور کنٹریکٹ پہ ہیں جنہیں پمز انتظامیہ خود مستقل کرنے کا اختیار رکھتی ہے لیکن خود پی ایم ڈی سی کے رولز کے خلاف ایگزیکٹو ڈائریکٹر تعینات ہونیوالے ڈینٹل سرجن کو اس معاملے میں شاید رولز ریگولیشن کا بہت خیال ہے، سال 2018میں فنڈز کی عدم فراہمی اور کئی ماہ کی تنخواہوں کی عدم فراہمی پہ سرکار کی فائل میں سنٹر بند ہو گیا لیکن خدمت خلق کا جذبہ رکھنے والی انچارج ڈاکٹر اور ان کی ٹیم نے معصوم بچوں کی زندگی بچانے کے لئے غیر علانیہ طور پہ کام جاری رکھا، اس وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ ثاقب نثار نے ان 12مسیحائوں کی مستقل تعیناتی نہ کرنے اور انہیں تنخواہیں ادا نہ کرنے کے باعث سنٹر کی بندش پہ سو موٹو نوٹس لیا، وزارت کیڈ نے موقف اختیار کیا کہ مستقل تعیناتیاں فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ہی کی جا سکتی ہیں اس لئے سنٹر کو کھلا رکھنے کے لئے اس وقت تک انہی ڈاکٹرز اور عملے کو کام جاری رکھنے کی اجازت دی جائے، چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے اپریل 2018میں عبوری آرڈر جاری کیا کہ ان ڈاکٹرز اور معاون عملے کو فوری طور پہ واجب الادا تنخواہیں ادا کی جائیں اور سنٹر کو شام چار بجے تک کھول کے رپورٹ پیش کے جائے، عدالتی احکامات پہ کئی ماہ کی رکی تنخواہیں ادا کر دی گئیں تاہم 30جون 2018کو ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کا ایک سال کا کنٹریکٹ پھر ختم ہونے کا آن پہنچا، سپریم کورٹ نے 26جون کو اپنے حتمی فیصلے میں فیڈرل پبلک سروس کمیشن کو احکامات دئیے کہ وہ دو ماہ میں بون میرو ٹرانسپلانٹ سینٹر میں ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی مستقل تعیناتی کا عمل مکمل کرے جبکہ وفاقی حکومت کو ہدایت کی گئی یہ ایف پی ایس سی کا عمل مکمل ہونے اور مستقل تعیناتیوں تک ان ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کے کنٹریکٹ کو ختم نہ کیا جائے اور انہیں بروقت تنخواہوں کی ادائیگی کی جائے، بے حسی کی کہانی یہاں بھی ختم نہ ہوئی، گزشتہ آٹھ نو سال سے بون میرو سنٹر میں بچوں کو نئی زندگی دینے والے ان مسیحائوں میں سے تین گزیٹڈ افراد نے گزشتہ سال مستقل تعیناتی کے لئے ایف پی ایس سی کا امتحان دیا اور پاس کر لیا لیکن تقریباً ایک سال گزر چکا ایف پی اسی سی ان کے انٹرویو لینے کو تیار نہیں جو توہین عدالت بھی جبکہ 30جون 2019کو آخری کنٹریکٹ ختم ہونے کے بعد سے ان کی تنخواہیں ایک بار پھر بند ہیں، ظلم اور ناانصافی کی انتہا یہ کہ بون میرو ٹرانسپلانٹ سنٹر کی انچارج اسسٹنٹ پروفیسر کی ماہانہ تنخواہ صرف 65ہزار روپے جو اب تک اپنی ٹیم کے ہمراہ 141بچوں میں کامیابی سے بون میرو ٹرانسپلانٹ کر چکیں، ستم ظریفی یہ بھی کہ ملک کا واحد سرکاری اسپتال جہاں یہ بون میرو ٹرانسپلانٹ کی سہولت میسر لیکن ایک وقت میں صرف تین بچوں کی سرجری اور تین کو پوسٹ سرجری نگہداشت میں رکھنےکی گنجائش، ملک بھر سے بون میرو ٹرانسپلانٹ کے لئے 800بچے باری کے انتظار میں رجسٹرڈ جبکہ تین ہزار تھیلیسیمیا کے لئے اندراج کرائے لائن میں لگے ہوئے۔ وزیراعظم عمران خان سے درخواست کہ اس سے پہلے بون میرو سنٹر میں باقی بارہ افراد بھی چھوڑ کر چلے جائیں فلاحی ریاست قائم کرنیکا آغاز اسی بیون میرو ٹرانسپلانٹ سنٹر کے بارے میں روا رکھی جانے والی بے حسی کا فوری نوٹس لے کر کردیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین