• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں رحیم یار خان اور لاہور میں پنجاب پولیس کے مبینہ تشدد کے باعث دو افراد کی ہلاکتوں کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے پولیس نظام میں اصلاحات کے عمل کو مزید تیز کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا تھا کہ پولیس کے رویوں میں بہتری لاکر تھانہ کلچر کو تبدیل کریں گے لیکن عملاً ایسا کچھ ہوتا نظر نہیں آ رہا کیونکہ اُنکے اِس بیان کے چند دن بعد ہی ہفتے کے روز بوریوالہ کی ایک محنت کش خاتون کو ایک ٹرینی انسپکٹر اور اے ایس آئی نے ایک بااثر زمیندار کے کہنے پر اُس کے گھر سے گرفتار کیا اور اپنے نجی ٹارچر سیل میں وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ خاتون کے مطابق متشدد اہلکار ایک کروڑ کا پرونوٹ لکھوانے کے بعد اُسے تشویشناک حالت میں گھر چھوڑ کر چلے گئے۔ اِس واقعہ کے بعد ڈی پی او وہاڑی نے ایکشن لیتے ہوئے چار اہلکاروں کو معطل کرتے ہوئے اُن کیخلاف مقدمہ درج کروا دیا ہے۔ حکومتی جماعت کے منشور میں پولیس اصلاحات ایک اہم ترین موضوع تھا۔ حکومتی جماعت کو خیبر پختونخوا میں پولیس اصلاحات لانے کے حوالے سے پذیرائی بھی ملی تھی لیکن پاکستان تحریک انصاف دوسرے صوبوں کے پولیس نظام میں مثبت تبدیلیاں لانے کی عملاً کوئی کوشش کرتی نظر نہیں آ رہی۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ ناقص تربیت اور عادی بدعنوانوں کے بوجھ تلے دبے پولیس کے محکمے میں ایسے عناصر موجود ہیں جو دیمک کی طرح اس کی بنیادیں چاٹ رہے ہیں۔ کسی بھی ملک کے نظامِ انصاف میں پولیس بنیادی حیثیت کا حامل ہوتی ہے لیکن ہمارے ہاں محکمہ پولیس میں سیاسی مداخلت اور خود اس محکمے کی منہ زوری اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ اس کی مکمل تطہیر بلکہ تشکیل ِ نو کے بغیر اصلاح ممکن دکھائی نہیں دیتی۔ حکومت محض محکمہ پولیس کی اصلاح کر دے تو عوام اسے احسانِ عظیم خیال کریں گے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین