• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیب کی زیادتیاں، بیورو کریسی نے دل کھول کر رکھ دیا، نان پیپر جاری

اسلام آباد (انصار عباسی) وفاقی سیکریٹریٹ میں نیب کے حوالے سے بیوروکریسی کا نان پیپر زیر گردش ہے کہ کس طرح بیورو نے سرکاری ملازمین کو پریشان کر رکھا ہے اور سرکاری شعبے کی سوجھ بوجھ پر گہرے داغ چھوڑے ہیں جس کی وجہ سے سرکاری ملازمت میں فیصلہ سازی کا معاملہ بدتر صورتحال اختیار کر گیا ہے۔

بیوروکریسی کے نان پیپر میں اُن ترامیم کا بھی ذکر شامل ہے جو حکومت نیب قانون میں کرنا چاہتی ہے، اور بظاہر ایسا لگتا ہے کہ بیوروکریسی ان مجوزہ ترامیم کے مسودے سے متفق نہیں۔

نان پیپر میں لکھا ہے کہ بیوروکریٹ کا اعتماد بحال کرنے کی خواہش کی باتوں کے دوران، حکومت نے یہ بنیادی بات نظر انداز کر دی ہے کہ ایک ایماندار شخص کس بات سے زیادہ خوفزدہ ہوتا ہے؟ گرفتار ہونے اور مجرم کی طرح پریڈ کرائے جانے سے۔

ایک بار گرفتار ہونے کے بعد یہ بات اہم نہیں رہتی کہ جرم قابل دست اندازی تھا یا نہیں، کیونکہ جس وقت اس بات کا تعین کیا جاتا ہے اس وقت ’’تماشا‘‘ آگے بڑھ چکا ہوتا ہے۔

پیچھے ایک دل شکستہ انسان رہ جاتا ہے جس کی ساکھ تار تار ہو چکی ہوتی ہے، وہ ملازمت سے معطل ہو چکا ہوتا ہے، تنخواہ بند ہو جاتی ہے اور وہ بھاری قانونی فیس کے بوجھ تلے دب جاتا ہے۔

ایسے حالات میں عقلمند شخص کیا کرے گا؟ بتیاں بجھا کر خاموشی سے سر جھکا کر بیٹھ جائے گا۔ کیونکہ ایمانداری کی بات ہے کہ کوئی کام اتنا مقدس نہیں کہ اس کیلئے کسی کے خاندان کو کرب سے گزارا جائے اور بدقسمت ہیں وہ لوگ جو گزشتہ سال کے پاگل پنے کے دوران نیب کی فنکاریوں سے شکست کھا چکے ہیں۔

بیوروکریسی سمجھتی ہے کہ نیب کے اقدامات کی وجہ سے جس اذیت اور کرب میں وہ مبتلا ہوئی ہے اس نے سرکاری شعبے کی ذہنوں پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں؛ چاہے ہو کیریئر بیوروکریٹس ہوں یا پھر عارضی کنسلٹنٹس، ٹھیکیدار اور مارکیٹ سیکٹر کے ایسے پیشہ ور افراد ’’جن کی اِس حکومت کے ساتھ کام کرکے قسمت بگڑ گئی۔‘

’ نان پیپر میں سوال اٹھایا گیا ہے کہ ’’جیسے جیسے معیشت کا پہیہ جام اور غیر دستخط شدہ کام کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے؛ یہ فیصلہ ابھی ہونا باقی ہے کہ نیب کی جانب سے ’’لوٹی ہوئی دولت‘‘ کی واپسی کیلئے شروع کردہ انتہائی سرگرم مہم کا ملک پر مثبت اثر ہوا یا منفی۔

قابل فہم انداز میں دیکھیں تو یہ کہا جاتا ہے کہ حکومت نے اس صورتحال کا نوٹس تو لیا لیکن جب لینا چاہئے تھا اس سے تھوڑی دیر ہوگئی، اور نیب ، اس کی جانب سے حد سے زیادہ طاقت استعمال کرنے کی عادت اور جوشیلی پولیسنگ کیلئے بھی چونکا دینے والی صورتحال پیدا ہوئی۔

نان پیپر میں قانون میں مجوزہ ترامیم کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ’’یقیناً، جو کچھ بھی یہ ترامیم ہیں ان سے یہ طے ہوگا کہ ملک کے معاشی مسائل کو سدھارنے کیلئے واقعی علاج کیا جا رہا ہے یا نفسیاتی حربے استعمال کرتے ہوئے صرف تسلی دی جا رہی ہے۔

بظاہر ایسا لگتا ہے کہ حکومت دو بڑے اسٹیک ہولڈرز یعنی بیوروکریٹس اور کاروباری افراد کے معاشی سست روی کے خطرات و خدشات کو زائل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

پہلے گروپ کے حوالے سے دیکھیں تو وزیر قانون نے تجویز دی ہے کہ نیب کے دائرہ اختیار سے نجی افراد کو ہٹا دیا جائے تاوقتیکہ یہ لوگ بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر کسی سرکاری عہدیدار سے وابستہ ہوں۔

پاکستان بزنس کونسل نے پہلے ہی اس پر اپنی رائے دیدی ہے کہ اس تجویز کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ ادارے کو جسے کسی بھی معاملے میں گھیسٹنا ہوگا اسے نشانہ بنانے میں نیب آزاد ہوگا۔

نان پیپر کے مطابق، بیوروکریٹس کیلئے مجوزہ ترمیم کچھ یوں ہے: ’’ضابطے کے نقائص کی بنیاد پر ہونے والے جرائم پر نیب نوٹس نہیں لے گا تاوقتیکہ ٹھوس شواہد سے یہ ثابت ہو جائے کہ کسی افسر کو مذکورہ فیصلے یا نقص کی وجہ سے فائدہ پہنچا ہے۔‘‘

بیوروکریسی کی رائے ہے کہ اگر یہ بات کوئی ایسی جادوئی چیز ہے جس پر حکومت مسئلے کے حل کیلئے بھرپور انحصار کر رہی ہے تو اس نے یہ اہم بات نظرانداز کر دی ہے کہ آخر نیب کے ساتھ مسئلہ کیا ہے اور وہ کیوں بیوروکریٹس کو اتنا خوفزدہ کر رہا ہے کہ وہ کسی فائل پر دستخط کرنے کی بجائے برطرف ہونا چاہے گا۔ نان پیپر میں لکھا ہے کہ کیا نیب کا قانون فی الوقت اسے مالی فوائد کے بغیر ضابطے کے نقائص یا ’’اختیارات کے ناجائز استعمال‘‘ پر نوٹس لینے کی اجازت دیتا ہے؟ اس کا جواب ہے: جی نہیں۔

قانون کی جو شق اختیارات کے ناجائز استعمال کو کرپشن میں شمار کرتی ہے وہ (vi) (a) 9 ہے جس میں لکھا ہے کہ ’’[اگر وہ] اختیارات کا ناجائز استعمال اپنے لیے یا کسی اور کیلئے کسی بھی طرح کے فائدے یا مراعات کے حصول کیلئے کرتا ہے تو ۔۔۔۔۔‘‘

سیکڑوں عدالتی فیصلوں میں یہ بات واضح کی جا چکی ہے کہ ’’کسی اور کیلئے‘‘ کا تعلق ملزم سے ہونا چاہئے اور فائدہ مادی ہونا چاہئے۔

نوٹس ہمیشہ ٹھوس شواہد کی موجودگی میں لیا جاتا ہے سہ صرف کہنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ لہٰذا اگر موجودہ تشریح نظرثانی شدہ تشریح سے تقریباً ملتی جلتی ہی ہے تو نیب بغیر کسی جدوجہد اور محنت کے کس طرح گزشتہ ایک سال کے دوران پنجاب حکومت کیخلاف شروع کردہ کارروائی میں ایسے معاملے (مثلاً قومی خزانے کو نقصان، نقصان روکنے میں ناکامی اور پروجیکٹ مکمل کرنے میں ناکامی) میں وزیروں، بیوروکریٹس، ٹھیکیداروں اور کنسلٹنٹس کو کھیپ در کھیپ گرفتار کرتا رہا جس پر نوٹس نہیں لیا جا سکتا۔

اس کا جواب بہت ہی سادہ اور آسان ہے اور اس سے ساری صورتحال واضح ہو جائے گی: چیئرمین نیب اپنے سوا کسی کو جوابدہ نہیں۔

بیوروکریسی کی رائے ہے کہ نیب اپنی موجودہ حالت میں غیر معمولی طور پر طاقتور سمجھے جانے والے چیئرمین کے گرد مرتکز ہے۔ چیئرمین نیب شواہد کے حوالے سے اپنی سوجھ بوجھ کے مطابق کسی بھی شخص کی گرفتاری کے احکامات جاری کر سکتے ہیں اور ایسا کرنے کیلئے وہ وجوہات پیش کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتے۔

آسان بات ہے کہ انہیں کسی کو جواب نہیں دینا؛ کوئی نگرانی ہے، داخلی نظرثانی اور توازن کا بھی کوئی نظام نہیں کہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ کس کو اور کیوں گرفتار کیا گیا؛ کوئی آزاد جائزہ پیش نہیں کیا جاتا کہ آیا کیس واقعی عدالت میں قابل سماعت ہے؛ کوئی فائلیں ہیں اور نہ ہی کوئی نگران ادارہ جو ان اقدامات کے برعکس کوئی مشورہ دے سکے۔

روایتی طور پر دیکھا جائے تو عدالتوں کو ایگزیکٹو کی زیادیتوں کو روکنے والا ادارہ سمجھا جاتا ہے لیکن جب کسی ادارے کا چیئرمین ہی سپریم کورٹ کا ریٹائرڈ جج بن جائے تو یہ بات بھی ختم ہی ہو جاتی ہے۔

نان پیپر میں لکھا ہے کہ بیوروکریٹ کا اعتماد بحال کرنے کی خواہش کی باتوں کے دوران، حکومت نے یہ بنیادی بات نظر انداز کر دی ہے کہ ایک ایماندار شخص کس بات سے زیادہ خوفزدہ ہوتا ہے؟ گرفتار ہونے اور مجرم کی طرح پریڈ کرائے جانے سے۔

ایک بار گرفتار ہونے کے بعد یہ بات اہم نہیں رہتی کہ جرم قابل دست اندازی تھا یا نہیں، کیونکہ جس وقت اس بات کا تعین کیا جاتا ہے اس وقت ’’تماشا‘‘ آگے بڑھ چکا ہوتا ہے۔

پیچھے ایک دل شکستہ انسان رہ جاتا ہے جس کی ساکھ تار تار ہو چکی ہوتی ہے، وہ ملازمت سے معطل ہو چکا ہوتا ہے، تنخواہ بند ہو جاتی ہے اور وہ بھاری قانونی فیس کے بوجھ تلے دب جاتا ہے۔

ایسے حالات میں عقلمند شخص کیا کرے گا؟ بتیاں بجھا کر خاموشی سے سر جھکا کر بیٹھ جائے گا۔ کیونکہ ایمانداری کی بات ہے کہ کوئی کام اتنا مقدس نہیں کہ اس کیلئے کسی کے خاندان کو کرب سے گزارا جائے اور بدقسمت ہیں وہ لوگ جو گزشتہ سال کے پاگل پنے کے دوران نیب کی فنکاریوں سے شکست کھا چکے ہیں۔

نان پیپر میں مزید لکھا ہے کہ ’’اور اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ گرفتاریوں پر شفاف ضابطے کیلئے کمیٹی بنا دی جائے گی (جیسا کہ مجوزہ قانون کے مسودے میں لکھا ہے) اور یہ اقدام کرکے توازن درست کیا جا سکتا ہے تو حکومت کو چاہئے کہ وہ حیران کن رد عمل کیلئے تیار رہے۔ جس شخص کی گردن پھنس رہی ہو وہ یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ جب کوئی فیصلہ ہو جاتا ہے تو کوئی کمیٹی طوفان کو روک نہیں پاتی۔

جو افسران جیلوں میں ہیں اور جو افسران جیلوں سے باہر رہ کر کام کرنے سے انکاری ہیں وہ سب یہ بات جانتے ہیں۔ اور پیپلز پارٹی یہ بات سمجھتی ہے، اور یہی وجہ ہے کہ پارٹی کی جانب سے قانون میں جو مجوزہ ترامیم پیش کی گئی ہیں وہ بہت ہی نفیس اور موثر ہیں کہ چیئرمین سے گرفتاری کے اختیارات لے کر عدالتوں کے سپرد کر دیے جائیں۔

اگر کوئی ریفرنس دائر ہوتا ہے، اور ملزم پیش نہیں ہوتا تو عدالت اس کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کر سکتی ہے۔ گرفتاری کے پیچھے جو بنیادی سوچ کار فرما ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص معاشرے کیلئے خطرہ ہے، بھاگ سکتا ہے یا شواہد تباہ کر سکتا ہے تو اسے پکڑا جائے۔

اگر مقصد کسی کو نشانہ بنانا یا اسے صدمہ دینا یا خوف میں مبتلا کرنا ہے تو بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کریں بسم اللہ۔ لیکن اگر ملک کو شفافیت اور انصاف کی ضرورت ہے تو عقل کا تقاضہ ہے کہ صبر سے کام لیا جائے تاوقتیکہ عدالت اپنا ٹرائل مکمل کرکے فیصلہ صادر فرمائے۔ اگر کوئی قصور وار ہے تو اسے سزا ملے گی اور اگر نہیں ہے تو اس کیلئے کوئی ایسی پیشگی سزا نہیں جو اسے ظالمانہ نظامِ انصاف کے تحت بھگتنا پڑے گی۔

جہاں تک ’’اختیارات کے ناجائز استعمال‘‘ کی بات ہے تو حکومت کو کھلے دل سے اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ وہ انسداد بدعنوانی کے ادارے سے کیا کام کروانا چاہتی ہے۔

اگر وہ کرپشن کی روک تھام چاہتی ہے یعنی غلط کام کرنے پر رشوت لینا، تو ایسی صورت میں (vi) (a) 9 کی شق واقعتاً غیر ضروری ہے اور ساتھ میں بے وقوفانہ بھی۔ اسے یکسر مٹا ہی دینا چاہئے۔

(ii) اور (i) (a) 9 کی شق کسی بھی طرح کی رشوت، کک بیک یا غیر قانونی فائدے یا اسے کوئی اور نام ہی کیوں نہ دیدیا جائے، کے حوالے سے کافی ہے۔ یہ وہ شقیں ہیں جو معاشرے کے کسی بھی کرپٹ یا بدعنوان عنصر کو ٹھیک کرنے کیلئے کافی ہیں۔ لیکن اگر مقصد بلا روک ٹوک کسی حکومت کے سر پر ہتھوڑے برسانا ہے تو یہ ایک ایسا آلہ ہے جو کل کلاں صرف اس بات پر پوری لاہور پارکنگ کمپنی کو لپیٹ سکتا ہے جو پارکنگ کے مقامات نہ دے پائی، پنجاب لینڈ ڈویلپمنٹ کمپنی کو کم قیمت گھر تعمیر نہ کرنے پر لپیٹ سکتا ہے اور پنجاب صاف پانی کمپنی کو بند کر سکتا ہے جو ایک اور ضلع میں فلٹریشن پلانٹ نصب نہ کر پایا۔

نان پیپر میں لکھا ہے کہ بدقسمتی سے ہم نے سمجھوتا کر لیا ہے کہ چاند پر کوئی مشن نہیں بھیجنا کیونکہ خدانخواستہ اگر رابطہ منقطع ہوگیا تو یہ بھی اختیارات کا ناجائز استعمال قرار دیدیا جائے گا جس سے قومی خزانے کو نقصان پہنچا۔

تازہ ترین