• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: محمد علی عابد ۔برمنگھم
1958 ء تک ایسٹ انڈیا کمپنی نے برطانوی حکمران کی نمائندہ ہونے کی حیثیت میں ہندوستان کے بڑے علاقے پر قبضہ کرلیا تھا اس کی یہ کامیابی ہمارے اپنے غداروں کی مرہون منت تھی۔ بنگال میں شہید ستیتو میر اور نواب سراج الدولہ اور دکن میں ٹیپو سلطان جیسے بہادر جرنیلوں کوہمارے اپنے غداروں کی سازشوں کے نتیجے میں شکست ہوئی۔ دہلی محمد شاہ رنگیلا کی بزدلی کے سبب انگریز کی جھولی میں جا گری علاقے فتح کرنے کے بعد ان پر قبضہ اور امن و امان قا ئم رکھنے کی ضرورت تھی ۔1870 ء میں پینل کوڈ کمپائل کیا گیا جو آج تک چند تبدیلیوں کے بعد رائج ہے۔ ان دنوں میں زندگی میں موجودہ دور کی قانونی پیچیدگیاں نہیں تھیں۔ جھگڑے مقامی طور پر پنچائیت اورقصبے یا گائوں کے بڑوں کے فیصلے مانے جاتے تھے۔ کسی وکیل کی ضرورت نہیں تھی اور کوئی اپیل نہیں ہوتی تھی ان حالات کے پیش نظر قوانین بنا ئے گئے اور عدالتیں تشکیل دی گئیں ان عدالتوں میں چونکہ مقدمات کی بہتات نہیں ہوتی تھی اور ضابطے سیدھے سادھے تھے اس لئے پہلی پیشی پر ہی فیصلہ صادر ہو جاتا تھا جو ں جوں معا شرے میں کاروباری اور صنعتی ترقی ہوئی اختلافات بڑھتے گئے اور ان میں پیچیدگیاں بھی بڑھتی گئیں جنہیں حل کرنے کے لئے تحصیل و ضلع اور صوبے کے لیول پر عدالتیں تشکیل پائیں ان سب کے فیصلوں کے خلاف ایک ملکی لیول کی سپریم کورٹ وجود میں آئی۔ عدالتوں کی تعداد بڑھتی گئی جس کے ساتھ ساتھ ضا بطے بھی بڑھتے گئے آج ہماری عدالتوں کو یہ حال ہے کہ ضابطے قانون پر حاوی ہو گئے ہیں سستا اور جلد انصاف ہماری گرفت سے نکل گیا ہے۔ اب حال یہ ہے کہ برس ہا برس مقدے کا فیصلہ ہی نہیں ہوتا انصاف کے حصول کے لئے بے حد وقت اور سرمایہ درکار ہے ۔اس سست روی کو بڑی آسانی سے دور کیا جا سکتا ہے۔ اگر مقدمہ درج کروانے کے لئے آپ کو خود حاضر نہ ہونے کی سہولت مل جائے تو یہ پہلا قدم ہو گا۔ مقدمہ بذریعہ ڈاک درج ہو۔ عدالت دونوں فریقوں کو طلب کر کے مقدمے کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کر کے آئندہ پیشی پر پیش کئے جائے گواہوں اور دستاویزات متعین کر دے اور آئندہ پیشی پر ان کو عدالت میں پیش کئے جانے کے احکامات جاری کردے۔ اس سے کم از کم 50 فیصد مقدمات کا فیصلہ ہو جائے گا۔دوسری ضرورت اس بات کی ہے کہ عدالت ایک فریق کی معمولی درخواست پرسماعت ملتوی نہ کرے التوا انتہائی ناگزیر حالات میں ممکن ہو جیسا کہ ہمارے چیف جسٹس صاحب نے فرمایا کہ یہ عمل وکیل صاحب یا جج صاحب کے وفات پانے پر ہی ہونا چاہئے۔ موجودہ صورت حال یہ ہے کہ اگر کسی فاضل جج صاحب کا قریبی رشتہ دار وفات پا جا ئے تو تمام وکلاء عدالتوں میں پیش ہی نہیں ہوتے اور اسٹرائیک کر دی جاتی ہے جو متوفی کی تعزیت کااظہار ہوتا ہے عدالتوں کو مجبوراًپیشی دینی پڑتی ہے اگر کوئی موکل وکیل صاحب کی شان میں گستاخی کر دے تواسے خوب زد و کوب کیا جاتا ہے اور اسٹرائیک کا اعلان ہو جاتا ہے۔ پیشی پر آنے والے خواتین و حضرات نامراد اور مایوس گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔ پیشی کے لئے دی گئی فیس ضائع ہو جاتی ہے۔ایک اور تکلیف دہ عمل یہ بھی ہے کہ جج صاحب چھٹی پر چلے جا تے ہیں جس کی پیشگی اطلاع نہ ہو نے پر پیشی پر آنے والے لو گوں کو بیحد مایو سی ہوتی ہے۔ جج صاحب چھٹی پر جانے سے ایک روز پہلے اپنے پروگرام سے واقف ہوتے ہیں کیا ہی اچھا ہو کہ عدالت کا عملہ مقدمہ بازوں کو ٹیلی فون کے ذریعے جج صاحب کی چھٹی کی اطلاع کر دے۔ یہ انتہائی معمولی بات ہے جو مقدمہ بازوں کا وقت اور مایوسی بچا سکتی ہے ۔
وارثت کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے لئے سائل کو ضابطے کی بھول بھلیوں سے گزرنا پڑتا ہے اور مہینوں بعد کامیابی ہوتی ہے۔ عدالت اس درخواست کے لئے ایک فارم مہیا کرے جس میں تمام ضروری کوائف کی فراہمی ہو اخبار میں اشتہار کی فیس درخواست کے ساتھ ہی جمع کروانی ضروری ہو درخواست ملتے ہی عدالت کا عملہ اخبار میں اشتہار لگوادے اور کسی دعویدار وارث کو ہداہت کر دے کہ پیشی کے دوران وہ حاضر ہو کر ثبوت اور گواہ ساتھ لائے یہ تفصیل درخواست گزاروں کو بھجوادی جائے اور انہیں آئندہ پیشی پر وارث ہونے کے ثبوت کا جواب بھی ساتھ لائے۔ اس طرح یہ درخواست دو یا زیادہ سے زیادہ تین پیشیوں میں بھگتائی جا سکتی ہے۔ لیکن حال یہ ہے کہ یہ مقدمات سالہا سال چلتے رہتے ہیں۔ یہ تو جہ طلب ہے۔کسی ممکنہ وارثت کے نقصان کی تلافی کے لئے وارثاں معمولی سی رقم دے کر انشورنس پالیسی حاصل کر سکتے ہیں جو مقدمے بازی کا خاتمہ کر دے گی۔انشورنس کمپنی نقصان کی تلافی کر دے گی۔ازدواجی جھگڑوں میں اس شعبے کے ماہر جج صاحبان یا خواتین مقرر کئے جائیں جو درخواست دہندہ اور دوسرے فریق کو بلا کر ان کے بیان سنے ظاہر ہے دونوں فریق ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کر یں گے۔ جج صاحب ان بیانوں سے ازدواجی زندگی میں صلح کے امکانات کا جائزہ لیں اگر ممکن ہو تو صلح کرنے میں مدد دیں۔ ظاہر ہے کہ اختلافات اس قدر بڑھ چکے ہوں گے کہ فریقین عدالت کا فیصلہ لینے کو ترجیح دیں گے۔ فیصلہ جلد سنا دیا جا ئے کچھ لو گ مخالفین کو تنگ کرنے کے لئے جھوٹے مقدمے دائر کروا کر مخالفین کو تکلیف دیتے ہیں۔ پیشی پر پیشی لے لی جاتی ہے اس کے سدباب کے لئے ضروری ہے کہ عدالت مدعی کا الزام جھوٹا ثابت ہونے پراسے مدعلیہ کے اخراجات کے نقصانات اور ذہنی اذیت کو مدنظر رکھتے ہو ئے فیصلے کے ساتھ مدعلیہ کو معاوضہ بھی دلوائے اس سے غیر ضروری اور جھوٹے مقدمات میں خاطر خواہ کمی آجائے گی۔ جناب سید منصور علی شاہ نے اپنے بحیثیت چیف جسٹس پنجاب ہا ئی کورٹ ایک سرکلر جاری فرمایا تھااور ما تحت عدالتوں کو حکم دیا تھا کہ وہ اوورسیز پاکستانیوں کے مقدمات ایک سال کے اندر اندر نمٹائیں، شاہ صاحب سپر یم کو رٹ کے جج مقرر ہو گئے ہیں ان احکامات پر کوئی توجہ نہیں دے رہا۔ہمارے موجودہ چیف جسٹس سپریم کورٹ بھی نظام عدل کو سستا اور جلد انصاف مہیا کرنے کا ذریعہ بنانے کے لئے کوشش فرما رہے ہیں اور تجرباتی عدالتیں بھی قائم فرما رہے ہیں جو نہایت کامیاب ثابت ہوئی ہیں، انصاف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ Justice Delayed is Justice Denied ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ ہمارے چیف جسٹس کو کامیابی عطا فرمائے تاکہ وہ موجودہ نظام میں تبدیلی لا سکیں۔
تازہ ترین