پاکستانی کمیونٹی میں تعلیم کا رجحان بڑھانا ہوگا
برطانیہ میں ہماری پانچویں نسل پروان چڑھ رہی ہے اور اسی وجہ سے برطانیہ کےسرکاری محکموں ، ایوانوں ، میڈیکل ، وکالت ، جج ، بیرسٹرز اور میئرز تک کے عہدوں پر پاکستانی نژاد افراداپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں ، ان افراد میں خواتین و حضرات کی تقریبا یکساں تعدادہے ۔ یورپ کے دوسرے ممالک جن میں فرانس ، ہالینڈ ، جرمنی ، بیلجیم شامل ہیں میں بھی ہماری دوسری اور تیسری نسل پروان چڑھ رہی ہے اور پاکستانیوں نے ان ممالک کے سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں اپنا نام بنایا ہے جس سے پاکستان کا نام اور وقار بلند ہوا ہے ۔پاکستانیوں کی زیادہ تعداد یورپ کے اُن ممالک میں مقیم ہے جہاں گاہے بگاہے امیگریشن کھلتی رہی ہے ان ممالک میں اٹلی ، یونان ، پولینڈ ، پرتگال ، آسٹریا اورا سپین شامل ہیں ۔ اسپین وہ واحد ملک ہے جہاں ہر تین سال بعد آپ قانونی رہائش رکھنے کا پرمٹ لے سکتے ہیں ، کیونکہ اسپین میں ہسپانوی عوام نے ایک قانون پاس کروایا ہوا ہے جس کے مطابق آپ اگر یہ ثابت کر دیں کہ آپ تین سال سے مسلسل یہیں رہائش پذیر تھے اور آپ کے پاس ان تین سالوں میں قانونی طور پر رہائش رکھنے کا اجازت نامہ نہیں تھا تو بھی یہاں کے قانون ’’ آرائیگو ‘‘ کے مطابق آپ قانونی رہائش کا پرمٹ حاصل کرنے کا حق رکھتے ہیں اس قانون کی وجہ سے یورپ کے دوسرے ممالک کی بہ نسبت اسپین میں پاکستانیوں کی آمد کا سلسلہ زیادہ تیزی سے جاری ہے ، پاکستانی اس وقت وکالت ، کاروبار اور میڈیکل میں کافی ترقی کر چکے ہیں۔
ہماری پہلی نسل اب تعلیم سے فارغ ہو رہی ہے اور اپنے اپنے سرکاری محکموں ، سیاست اور میڈیکل سمیت وکالت کے شعبے میں طبع آزمائی کرنے میں مصروف ہے ۔ ایسی ایک مثال ڈاکٹر سحرش گل کی ہے جو پاکستان کے ضلع گجرات کی تحصیل کھاریاں سے تعلق رکھتی ہیں ، ڈاکٹر سحرش گل کے والد محمد آصف 2000 میں اسپین آئے اور محنت مزدوری شروع کی پھر 2007میں اہل خانہ کو اسپین بلا لیا۔سحرش گل نے اپنی ابتدائی تعلیم آرمی پبلک سکول کھاریاں سے حاصل کی ۔میٹرک کے بعد ایف ایس سی ، ایف جی ڈگری کالج فار وویمن کھاریاں سے حاصل کی، اُس کے بعد وہ اسپین آگئیں ، یہاں آکر انہوں نے اسپینش زبان سیکھنی شروع کر دی ، اسپینش سیکھنے کے بعد انہوں نے میڈیکل میں داخلہ لینے کے لئے مقامی زبان کاتالان میں ٹیسٹ دیا جو پاس کرنے کے بعد انہیں ’’ آتو نومیا دے بارسلونا سبادل ‘‘ میں داخلہ مل گیا اور انہوں نے چھ سال میڈیکل کی تعلیم حاصل کی اور مکمل طور پر اسپین میں تعلیم حاصل کرنے والی پہلی ڈاکٹر بن گئیں ۔ سحرش گل اپنی والدہ کے ساتھ 2007میں اسپین آئی تھیں، یہاں ایم بی بی ایس کی تعلیم چھ سال پر محیط ہوتی ہے ،2009 میں انہوں نے انٹری ٹیسٹ پاس کیا اور 2015میں میڈیکل کی ڈگری حاصل کر لی ۔ڈاکٹر سحرش گل پہلی پاکستانی خاتون ڈاکٹر ہیں جو یہاں اسپینش مریضوں کا علاج کرتی ہیں ۔ اس وقت ڈاکٹر سحرش گل بارسلونا کے قریبی علاقے ’’ سان گوگات ‘‘ میں ہسپتال یونیورستیتاریو خینرال دے کاتالونیا ‘‘ میں بطور لیڈی ڈاکٹر اپنی ڈیوٹی سر انجام دے رہی ہیں۔
یہ پاکستانی کمیونٹی کے لئے بڑے فخر کی بات ہے کہ سحرش گل پہلی پاکستانی ڈاکٹر بنی ہیں اور پاکستان کا نام روشن کر رہی ہیں ۔بات چیت کے دوران ڈاکٹر سحرش گل نے بتایا کہ کہ وہ اب چائلڈ اسپیشلسٹ بن رہی ہیں یہ چار سالہ کورس ہے اور اس وقت میرا آخری سال ہے اس کے بعد میں شعبہ اطفال کی اسپیشلسٹ بن جاؤں گی ۔انہوں نے بتایا کہ میں ابھی جس ہسپتال میں کام کر رہی ہوں وہاں اس شہر میں پاکستانیوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے لیکن کوشش کر رہی ہوں کہ اسپیشلسٹ اطفال بن جاؤں تو پھر بارسلونا کے کسی ہسپتال میں ملازمت اختیار کرلوں گی اور یہاں پاکستانی کمیونٹی کی بھر پور مدد کروں گی ، انہوں نے بتایا کہ ابھی کچھ مزید پاکستانی لڑکیوں کا میڈیکل میں آ خری سال چل رہا ہے اس کے بعد وہ بھی ڈاکٹر بن جائیں گی اور یہاں خدمت کریں گی۔
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر سحرش گل نے کہا کہ پاکستانی والدین جو اسپین میں مقیم ہیں اور یہیں رہنا چاہتے ہیں وہ اپنے بچوں کو تعلیمی میدان میں سر گرم کریں ، انہوں نے کہا کہ پاکستانی کمیونٹی میں تعلیم دلانے کا رجحان بہت کم ہے ، کیونکہ پاکستانی والدین بچوں کی تعلیم کی بجائے انہیں اپنے معاشی حالات ٹھیک کرنے کی چکی میں پیسنا شروع کر دیتے ہیں یہ ٹھیک نہیں ہے ، انہوں نے کہا کہ سولہ سال تک کے بچوں کا تعلیم حاصل کرنا لازمی ہے لیکن جونہی وہ سولہ سال کے ہو جاتے ہیں تو ان کے والدین کی کوشش ہو تی ہے کہ وہ کام کریں اور ان کا بازو بنیں ۔انہوں نے کہا کہ اگر ہم تعلیمی میدان میں آگے نہیں بڑھیں گے تو ہماری ترقی کی رفتار بہت کم ہو جائے گی ، انہوں نے کہا کہ بچوں کو کام پر بھی بھیجیں لیکن ساتھ ساتھ ان کی تعلیم کا سلسلہ منقطع نہ کریں ۔ڈاکٹر سحرش گل نے بتایا کہ جب میں نے اپنی ڈاکٹری کی ڈگری پاس کر لی تو میرے والدین مجھے پاکستان لے آئے اور شادی کردی۔ ہماری ازدواجی زندگی بہت اچھی گزررہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ قونصل جنرل بارسلونا عمران علی چوہدری نے قونصلیٹ آفس میں یہاں پڑھنے والے اسٹوڈنٹس اور ان کے والدین کے حوالے سے جو معلوماتی سیشن شروع کیا ہے وہ خوش آئند ہے اسی طرح قونصلیٹ میں پاکستانی وکلا ہر طرح کے قانونی مشورہ جات دینے آتے ہیں یہ اس سے بھی زیادہ خوش آئند ہے ۔انہوں نے بتایا کہ قونصلیٹ جنرل نے مجھے قونصلیٹ آفس بارسلونا میں بلا کر پہلی پاکستانی ڈاکٹر ہونے پر جو تعریفی سرٹیفیکیٹ دیا ہے وہ میرے لئے بہت حوصلہ افزا بات ہے کیونکہ یہ سن کر دوسرے اسٹوڈنٹس بھی تعلیمی میدانوں میں آگے بڑھیں گے اور وہ بھی تعریفی اسناد سے نوازے جائیں گے ، انہوں نے اس موقع پر قونصل جنرل بارسلونا کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی حوصلہ افزائی نے مجھے مزید ہمت دی ہے۔