• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: کچھ عرصے سے میری، بیوی کے ساتھ اَن بن ہوگئی ہے ، وہ میرا کہنا نہیں مانتی، میں نے اسے کہا: نماز پڑھا کرو تووہ مجھ سے کہنے لگی:’’اپنی ماں سے کہو کہ وہ نماز پڑھا کرے‘‘، اسی طرح ایک مرتبہ میں نے اس سے پوچھا: ’’کیا تم اللہ کو مانتی ہو؟‘‘ اس نے کہا: نہیں۔ وہ مجھ سے طلاق کا مطالبہ بھی کرتی رہتی ہے۔ میں حلفیہ کہتاہوں کہ میں نے اپنی بیوی کو کوئی طلاق نہیں دی ،نہ اشارۃً اورنہ کنایۃً۔ سوال یہ ہے کہ آیا میری بیوی کے ساتھ میرا نکاح باقی رہا یا نہیں اور یہ کہ میرے لیے کیا حکم ہے؟

جواب: آپ کو اپنی اہلیہ کا سرکش مزاج جب معلوم ہے تو باربار اس طرح کے سوال کرنا اسے گمراہی پر بر انگیختہ کرنے کے مترادف ہے ، اس پر آپ کو خود بھی محتاط رہنا چاہیے ، آپ کو خود یاکسی بزرگ کے ذریعے حکمت وتدبُّر سے اسے سمجھانا چاہیے اور اس کے لیے مناسب وقت اور مناسب ماحول درکار ہوتا ہے ۔قرآن کریم کی سورۂ النحل میں راہِ حق کی دعوت کاشِعار واسلوب تعلیم فرمایاگیاہے ۔

ہم حاکم نہیں ہیں کہ آپ کے لیے حکم جاری کریں ،بس ہم ’’اَلدِّیْنُ النَّصِیْحَہ‘‘ کے تحت آپ کو مشورہ دے سکتے ہیں کہ اصلاح کاکام صبر واستقامت اورہمدردی واصلاح کے جذبے سے کیاجاتاہے ،جوش دلانے سے معاملات میں مزید بگاڑ پیداہوتاہے ،اپنی عائلی زندگی کو برباد ہونے اور اپنی بیوی کو دین کے خسارے سے بھی بچائیں ،اللہ تعالیٰ ہم سب کو خیر کی توفیق عطا فرمائے ۔ تاہم آپ کی فہمائش کے جواب میں آپ کی اہلیہ کا انکار صریح کفر ہے : توبہ، تجدیدِ ایمان اور تجدیدِ نکاح لازم ہے ۔

علامہ نظام الدین ؒلکھتے ہیں:’’زوجین (شوہر وبیوی )دونوںمیں سے کوئی ایک مرتد ہوگیا ، تو طلاق کے بغیر فوری علیحدگی ہوجائے گی ،خواہ ارتداد کا ارتکاب دخول سے قبل ہو یا بعد ،پھر اگر شوہر مرتد ہوا اور عورت مدخولہ ہے تو شوہر پر پورے مہر کی ادائیگی لازم ہے اور اگر غیر مدخولہ ہے تو نصف مہر کی ادائیگی لازم ہے،(فتاویٰ عالمگیری )تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے ، ترجمہ:’’اور شوہر بیوی میں سے کوئی ایک مرتد ہوگیا ،تو نکاح فوری ختم ہوجائے گا، حکمِ قاضی کی ضرورت نہیں ‘‘۔ارتداد طلاق نہیں ،بلکہ فسخِ نکاح ہے، لہٰذا عقدِ ثانی کی صورت میں شوہر کے پاس تین طلاقوں کا حق رہے گا ‘‘۔ علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں: ’’(خدانخواستہ )اگر کوئی ایک سے زائد بار مرتد ہوا اور ہر باراپنے اسلام کی تجدید کرکے ازسرِ نو (اسی عورت سے) نکاح کیا ،تو امام ابوحنیفہؒ کے قول کے مطابق اس عورت سے براہِ راست نکاح اس کے لئے جائز ہوگا ،’’البحرالرائق ‘‘ میں فتاویٰ ’’خانیہ‘‘ کے حوالے سے نقل کیاہے کہ مرتد ہونے سے نکاح ازخود فوراً فسخ ہوجاتا ہے ،یہ قاضی کے فیصلے پر موقوف نہیں ہے ،اسی طرح اگراُس عورت سے پہلے شوہر کی قربت بھی ہوئی ،تو بھی تجدیدِ نکاح کےلیے عدّت گزارنا شرط نہیں ہے، جیسا کہ ’’البحرالرائق‘‘میں ہے، (ردالمحتار علیٰ الدرالمختار ، جلد4)پس آپ کی بیوی توبہ کرکے کلمہ پڑھے اور دوگواہوں کی موجودگی میں نیامہر مقرر کرکے آپ دونوں عقدِ ثانی کرلیں، ظاہر ہے ،اس کے لیے بیوی کی رضامندی ضروری ہے ۔

تازہ ترین