کراچی (اسد ابن حسن) پشاور میں کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ (محکمہ انسداد دہشت گردی) میں تین ماہ قبل ایک بیرونی این جی اور اس کے مقامی سربراہ کے خلاف ٹیرر فنانسنگ (دہشت گردوں کی مالی معاونت) کی تحقیقات التوا کا شکار اور پراسرار خاموشی ہے۔ اس خبر کو دبا دیا گیا اور دہشت گردی دفعہ کے باوجود ملزم ضمانت پر رہا ہوگیا۔ ایس ایس پی سی ٹی ڈی نے اس کی تصدیق کردی ہے ۔ جبکہ سربراہ عالمی این جی او کا کہنا ہے کہ الزامات بے بنیاد ہیں ۔ تفصیلات کے مطابق پشاور کے کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ کے انسپکٹر منیر خان اور الیاس خان نے ایک انکوائری نمبر 38/2017دو برس قبل شروع کی اور پھر شواہد اکٹھا کرنے کے بعد بیرون ملک میں قائم این جی او اور ہیومن کنسرن انٹریشنل (ایچ سی آئی) کے پاکستان کے سربراہ جس کا صدر دفتر پشاور میں واقع ہے، وہاں چھاپہ مار کر چترال کے رہائشی علی نواز کو گرفتار کرلیا، گرفتاری کے بعد مقدمہ نمبر 44/2019درج کیا جس میں دہشت گردی کی دفعہ بھی شامل کی گئی۔ تفتیش میں انکشاف ہوا کہ ایچ سی آئی بھاری رقوم پشاور منتقل کرتی رہی اور وہاں سے القاعدہ کو فنڈنگ کی جاتی رہی۔ مذکورہ مقدمے کے بعد اعلیٰ سرکاری حلقوں میں ہلچل مچل گئی جس کے بعد ایک جوائنٹ انسٹروگیشن ٹیم تشکیل دی گئی جو علیحدہ سے تحقیقات کررہی ہے۔ دوران تفتیش یہ بات بھی سامنے آئی کہ مذکورہ این جی او اور سندھ کی ایک این جی اور ایف ایس ای ایف کو بھی فنڈنگ کرتی رہی ہے کیونکہ کلیم اختر نامی شخص دونوں این جی اوز میں کلیدی عہدے پر رہے۔ گرفتاری کے چند یوم بعد گرفتار علی نواز کو ضمانت مل گئی۔ تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ آئی ایچ سی آئی کا صدر دفتر کینیڈا میں ہے، وہاں اس کے کئی شہروں میں 35دفاتر ہیں۔ اس کے سربراہ پاکستانی نژاد ممتاز اختر ہیں۔ دوسرے کلیدی عہدوں اور دیگر برانچوں میں دوسری شہریت کے افراد بھی تعینات ہیں۔ ہیومن کنسرن انٹرنیشنل کو سالانہ ایک ارب روپے تک عطیات وصول ہوتے ہیں۔ مذکورہ تنظیم کی 2016ء کی سالانہ آڈٹ رپورٹ جوکہ 2019ء میں جاری کی گئی ہے، اس کے مطابق تنظیم کے اثاثے، کیش اور سرمایہ کاری کی مالیت 62لاکھ 40ہزار 696کینیڈین ڈالر (73کروڑ 64لاکھ، 2ہزار 128روپے تھی۔ 31مارچ 2016ء کی آڈٹ کے مطابق مذکورہ مالی سال میں ادارے کو 78لاکھ 48ہزار 616کینیڈین ڈالر( 92کروڑ 61لاکھ 36ہزار688روپے) کے عطیات موصول ہوئے۔ اس عرصے میں مجموعی طور پر 13لاکھ 90ہزار 425کینیڈین ڈالر (16کروڑ 40لاکھ 70ہزار 150روپے) تقسیم کیے گئے یعنی 92کروڑ میں سے صرف 22کروڑ۔ اسی مدت میں آفس ایڈمنسٹریشن کی مد میں 5کروڑ 54لاکھ 32ہزار 239روپے کے اخراجات ہوئے جوکہ ادارے کے پروموشن اور فنڈ ریزنگ کی مد میں 5کروڑ 71لاکھ 7ہزار 162روپے خرچ کیے گئے۔ اس حوالے سے ہیومن ریسورس انٹرنیشنل کے چیئرپرسن ممتاز اختر سے کینیڈا میں رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ مذکورہ مقدمہ بے بنیاد ہے، اس سے پہلے بھی سی ٹی ڈی نے ایک مقدمہ 36/2019مئی 2019ء میں قائم کیا تھا، اس میں بھی کچھ نہیں ثابت کرسکے، اب ان کے پاس اور کوئی کام نہیں تو ایک اور مقدمہ درج کردیا جس کے بعد ہمارا پاکستان کا سربراہ علی نواز گرفتار ہونے کے بعد ضمانت پر رہا ہوچکا ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ایف ای ایس ایف ان کے ادارے کی ذیلی تنظیم نہیں ہے۔ ہم صرف اس کے ڈونر ہیں۔ اسی حوالے سے ایف ای ایس ایف کے پاکستان کے سربراہ کینیڈا شہری ڈینیل کا کہنا تھا کہ ان کا ادارہ کینیڈا میں رجسٹرڈ نہیں ہے، اس لیے عطیات ایچ ای سی وصول کرکے ہمیں بھیج دیتا ہے اور وہ بھی ہمارے لیے ایک ڈونر ہی ہے۔ اُنہوں نے تسلیم کیا کہ کلیم اختر تو اس وقت ادارے کے بورڈ آف ڈائریکٹر میں ہیں، وہ ایچ سی آی سے منسلک رہے ہیں۔ اسی حوالے سے سی ٹی ڈی انوسٹی گیشن کے سربراہ ایس ایس پی ڈاکٹر اقبال نے بتایا کہ نہ صرف ان کا محکمہ تحقیقات کررہا ہے بلکہ جی آئی ٹی بھی تحقیقات کررہی ہے اور ملزم کو عدالت میں ضمانت مل گئی ہے۔ اُنہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ القاعدہ کو مالی معاونت کے حجم کا تخمینہ لگایا جارہا ہے اور اس وقت اس کی تفصیل نہیں بتا سکتے۔ اسی حوالے سے گرفتار ملزم علی نواز کا کہنا تھا کہ وہ ضمانت پر ہیں اور اب بھی ایچ سی آئی پاکستان کے سربراہ ہیں۔