• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چاکلیٹ کھائی نہ دودھ پیا پھر ملالہ کو نوبل انعام کیوں؟

ہزارہا سال سے مفکرین یہ طے کرنے کی سعی کر رہے ہیں کہ زندگی کے کس دور میں انسان کی تخلیقی صلاحیتیں اپنے عروج پر ہوتی ہیں۔ یونانی فلسفی ارسطو نے 30/اور 35سال کے درمیانی دور کو عضویاتی اور جسمانی سکت و صلاحیت کے انتہائی عروج کا اور 49ویں سال کو ذہنی استعداد کے عروج کا دور قرار دیا ہے۔ ارسطو کا خیال تھا کہ 49سال کی عمر کو پہنچتے پہنچتے چونکہ انسان کے جذبات سرد پڑ جاتے ہیں اس لئے وہ صحیح فیصلہ کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ افلاطون کا خیال ہے کہ انسان فلسفیانہ مسائل پر غور و فکر کرنے یا معاشرے میں کسی ذمہ دارانہ منصب پر فائز ہونے کا اس وقت تک اہل نہیں ہوتا جب تک اس کی عمر پچاس سال تک نہ ہو جائے۔ ایک ماہر نفسیات تاریخ عالم کی ایک ہزار عظیم شخصیات کی تخلیقی سرگرمیوں کا تجزیہ کرنے کے بعد تیس اور پینتالیس سال کے درمیانی دور کو زندگی کا سب سے بہتر دور قرار دیتا ہے۔ اس تحقیق کے مطابق ان عظیم انسانوں کی ایک تہائی تخلیقات اس وقت ممکن ہوئیں جب ان کی عمریں تیس اور چالیس سال کے درمیان تھیں اور ان کی ستّر فیصد تخلیقات و ایجادات اس وقت پایہٴ تکمیل کو پہنچ چکی تھیں جب ان کی عمر پورے پینتالیس سال بھی نہ تھی۔
میرے خیال میں جو بھی موٴقف مذکورہ فلسفیوں کا تھا وہ کوئی حتمی رائے نہیں ہو سکتی۔ ہم اگر پاکستان کے موجودہ دور ہی کو لے لیں جس میں دماغ بندوں اور فریبی دماغوں کی کثرت ہو گئی ہے، اس کے باوجود بہت ہی چھوٹی عمروں کی بچیوں نے ذہانت کو اس طرح اجاگر کیا کہ دنیا حیرت زدہ ہو گئی اور دنیا کے تمام مقیاس ذہانت ”آئی کیو“ ماند پڑ گئے۔ آپ خود مشاہدہ کر چکے ہیں کہ پاکستان کی ایک بارہ سالہ بچّی ارفع کریم نے کمپیوٹر کی دنیا کے ایک ستون بل گیٹس کو لاجواب کر دیا۔ اس بچّی کے ساتھ کیا ہوا؟ اس کی تحقیق ہونی چاہئے کہ اتنی ذہین بچّی کو بہت ہی تھوڑے عرصے میں کیا ہوا کہ وہ دنیا چھوڑ کر چلی گئی، لیکن پاکستان میں سیاسی اداکاروں نے اتنے مناظر تسلسل کے ساتھ تبدیل کئے ہیں اور ایسے ڈرامے منظرعام پر لائے ہیں جس سے یہ سوچنا یقین میں بدل گیا ہے کہ جو نظر آتا ہے وہ دراصل نہیں ہے اور جو نظر نہیں آتا وہ ”ہے۔“ یہ بھی دیکھ کر لوگ اپنی پریشانیوں میں اضافہ کر رہے ہیں کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں حکومت ہے یا ہو گی وہ اس قدر بناوٹی اور دروغ گو ہیں تو پھر کس طور سے ان کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی آئے گی؟ اس لئے وہ زندگی کی اس کٹھن دوڑ میں ارفع کریم جیسی ذہین ترین بچّی کو بھول بیٹھے ہیں۔ ارفع کریم کے دماغ اور ذہانت پر کام ہونا چاہئے تھا، جو نہ ہو سکا۔ اسے دنیا کی تمام طبّی سہولتیں مہیا کی جانی چاہئے تھیں۔ ارفع کریم نے مذکورہ فلسفیوں کو یہ ثابت کر دیا کہ ذہانت قدرت کا عطیہ ہوتی ہے اور دنیا کے مظاہر اس عطیے کو جلا بخشتے ہیں۔ حال ہی میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ برطانیہ جو مقیاس ذہانت (آئی کیو) پر بڑا اعتبار کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ آکسفورڈ کی ایک طالبہ کا ”آئی کیو“ لیول دو درجے آئن اسٹائن سے بھی زیادہ ہے لیکن یہ لوگ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آئن اسٹائن نوخیز عمر سے لے کر آخری عمر تک دنیا کو سائنس کے شعبے میں وہ کچھ دے گیا جو اس سے پہلے کوئی نہ دے سکا۔ پھر دو درجے زیادہ آئی کیو لیول کی حامل طالبہ نے دنیا کو کیا دے دیا جس کا اتنا شور مچایا گیا۔ سفید فام ماہرین نفسیات نے اس خیال کو فروغ دیا ہے کہ ذہانت زیادہ تر موروثی ہوتی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ رنگ دار لوگوں کا اوسط ”آئی کیو“ جینیاتی طور پر سفید فاموں سے کم ہے۔ یہ لوگ سائنس کو بھی غلط استعمال کر کے اپنے مفادات کی تکمیل کرتے ہیں۔ آپ نے یہ بھی دیکھا ہے کہ خیبر پختونخوا میں اسکول، کالج تباہ کئے جا رہے ہیں لیکن وہاں کی ایک بچّی ملالہ یوسف زئی نے ٹی وی پر کہا تھا کہ وہ بے نظیر بننا چاہتی ہے اور خواتین کی تعلیم کیلئے جدوجہد کرتی رہے گی۔ یہ سوچ اور انداز فکر اس عمر میں اختیار کرنا، یہ بھی ذہانت کی معراج ہے لیکن اس سوچ کو پروان چڑھنے کے خلاف صرف رجعت پسندی نہیں ہے بلکہ امریکہ بھی چاہتا ہے کہ پسماندہ ممالک اپنی پسماندگی سے باہر نہ نکلیں، بڑی طاقتیں ان کے وسائل کو ہڑپ کرتی رہیں۔ امریکہ اور ان کے حواریوں کو پاکستان ہی میں ایسے لوگ مل جاتے ہیں جو پاکستان کو دہشت گرد ملک ثابت کرنے کے ضمن میں اپنی خدمات پیسے کے عوض پیش کرتے ہیں۔ مغرب اس سے بھی فائدہ اٹھاتا ہے کہ وہ علاج کے نام سے ملالہ یوسف زئی کو لندن لے گئے اور وہاں اسے ہائی جیک کر کے نوبل انعام کیلئے نامزد کرنے اور پاکستان کو گھٹیا ثابت کرنے کی تشہیر کی مہم میں لگ گئے۔ یہ سلسلہ سابق امریکی صدر جانسن کے زمانے سے شروع ہوا تھا، جب بشیر ساربان کو امریکہ لے گئے اور اس کی اونٹ گاڑی کو پاکستان کی پسماندگی کا سمبل بنا دیا۔ یہ تو ایک سنجیدہ پہلو ہے اس کا غیر سنجیدہ پہلو بھی سامنے آ رہا ہے۔ خبر یہ ہے کہ جن ملکوں کے لوگ زیادہ دودھ پیتے ہیں اور زیادہ چاکلیٹ کھاتے ہیں ان ممالک کے ہنرمند اور دانشور زیادہ نوبل انعام پاتے ہیں۔
حیرت کی بات ہے کہ دنیا کے نامور دانشور جو مختلف ادوار میں سامنے آئے، انہوں نے تو چاکلیٹ کی شکل تک نہیں دیکھی۔ اسی طرح ملالہ یوسف زئی نے بھی اتنی چاکلیٹ نہیں کھائی اور نہ ہی سوئیڈن کے لوگوں جتنا دودھ پیا پھر اسے نوبل انعام دینے کا شور محض سیاست نہیں تو اور کیا ہے؟ ایک حالیہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ زیادہ دودھ پینا نوبل انعام حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ تحقیق کے دوران 22ممالک میں اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگری کلچرل آرگنائزیشن کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا گیا جس کے مطابق سوئیڈن جہاں سب سے زیادہ دودھ استعمال ہوتا ہے وہاں ادب کا نوبل انعام پانے والوں کی تعداد بھی زیادہ ہے لیکن یہ بھی دیکھئے چین جہاں فی شہری سالانہ 25کلو دودھ پیتا ہے جبکہ سوئیڈن میں 300کلو سے زائد فی شہری دودھ پیتا ہے، چین نے اپنی ذہانت اور ہنرمندی میں کئی چاکلیٹ کھانے والے اور زیادہ دودھ پینے والے ترقی یافتہ ملکوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ایک اور سروے میں بھی چاکلیٹ کے بارے میں اشارہ ملتا ہے کہ ان ممالک میں نوبل انعام حاصل کرنے والے کثیر تعداد میں ہیں جہاں چاکلیٹ کھائی جاتی ہے لیکن ایک نوبل انعام یافتہ کتنی چاکلیٹ کھاتے ہیں اور ان کے چاکلیٹ کھانے اور نوبل انعام جیتنے کا کیا تناسب ہے اس کی وضاحت اقوام متحدہ کا مذکورہ شعبہ نہیں کر سکا۔ کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر اور اس تحقیقی مقالے کو لکھنے والے ”فرانز میسر لی“ نے کہا ہے کہ جب سے انہیں پتہ چلا ہے کہ ”کوکا“ فائدہ مند ہے تب سے وہ چاکلیٹ کے فوائد پر حیرت زدہ ہیں۔ ایک اور تحقیق میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عمر دراز لوگ جنہیں ذہنی پریشانی ہے یا نسیان کا مرض ہو وہ اگر مستقل کوکا استعمال کرتے رہیں تو ان کی ذہنی کارکردگی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس سے مجھے یاد آیا کہ جب میں کالج میں تھا تو ایک بزرگ نے کہا ”بادام کھایا کرو، ذہن کے لئے اچھا ہے، نمبر اچھے آئیں گے“۔ میں نے انہیں کہا کہ بھولو پہلوان تو روز کے ایک سیر بادام کھاتے ہیں، ان کو تو آئن اسٹائن ہو جانا چاہئے۔ بات یہ ہے کہ نوبل انعام کی بھی ایک الگ کہانی ہے جسے پھر کبھی بیان کیا جائے گا۔ یہ انعام سوئیڈن سے ہی دیا جاتا ہے اور وہیں اس کا فیصلہ کیا جاتا ہے اس لئے اس میں وطن پرستی کے تعصّبات بھی شامل ہیں۔ نوبل انعام آج ایک سیاسی ہتھکنڈہ بن گیا ہے۔ یہ بالکل غیر سائنسی سروے ہیں جو لوگوں میں فکری مغالطے بڑھاتے ہیں۔ نوبل انعام حاصل کرنے والے راف زنکرنا گل اس نظریئے سے صاف انکار کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ بہت کم مقدار میں چاکلیٹ کھاتے ہیں۔ علم کیمیا میں نوبل انعام یافتہ رابرٹ گرب (2005ء) انہوں نے کہا کہ چاکلیٹ مل جائے تو کھا لیتا ہوں، کوئی زیادہ شوق نہیں ہے۔ ایرک کافل 2001ء میں طبعیات میں نوبل انعام پانے والے کہتے ہیں، دودھیا چاکلیٹ آپ کو بے وقوف بناتی ہے۔ جب لایعنی فلمیں اور لایعنی ادب اور سروے پیش کئے جائیں گے تو لوگ ابہام میں مبتلا ہوں گے اور لوٹنے والے اس ابہام سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ فیض احمد فیض ایک مرتبہ آمنہ مجید ملک مرحومہ کے ہاں پروین شاکر کے دوسرے مجموعے پر تبصرہ کرتے ہوئے پروین شاکر کو کہتے ہیں کہ نوخیز رومانس کی عمر صرف پانچ سال ہوتی ہے، اس میں تخلیق شاداب اور نوخیز ہوتی ہے، باقی تجربہ ہے یا پھر اپنے آپ کو دہرانا ہے۔ پرسی شیلے خوبصورت شاعر 25سال کی عمر میں ڈوب کر مر گیا لیکن اس کی جمالیاتی نظمیں آج بھی دل کو گرماتی ہیں۔ اس لئے فکری مغالطوں سے دور ہی رہنا دانشمندی ہے۔ مذکورہ سروے اس لئے جاری کئے جاتے ہیں تاکہ فکری مغالطے بڑھتے رہیں، اسی میں دنیا کے حکمرانوں کا فائدہ ہے۔
تازہ ترین