لندن (نمائندہ جنگ) ایڈورڈ کالج پشاور کو قومیائی گئی ملکیت قرار دینے کے قیصلے پر برطانیہ کی کرسچن کمیونٹی نے تحفظات کا اظہار کیا ہے، کرسچن کمیونٹی کے ایک نمائندہ وفد نے گزشتہ روز پاکستانی ہائی کمشنر نفیس زکریا سے ملاقات کی اور انہیں اپنے مطالبات سے آگاہ کیا، ملاقات کے بعد وفد کے ارکان نے جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ جانبدارانہ ہے جس کے خلاف کمیونٹی میں تشویش پائی جاتی ہے، چوہدری قمر شمس ایڈووکیٹ نے کہا کہ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی جب برطانیہ آئے تھے تو انہوں نے باقاعدہ بیان دیا تھا کہ چرچ کی پراپرٹی چرچ کے پاس ہی رہے گی، یہ کالج برٹش راج کے وقت سے آپ کا ہے اور آئندہ بھی آپ کا ہی رہے گا، لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری کمر میں خنجر گھونپا گیا ہے اور ہم اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے، اور توقع ہے کہ ہمیں ہماری جائیداد واپس ملے گی، جان باسکو نے کہا کہ خیبر پختونخوا کی حکومت کے اقدامات سے ہم مطمئن نہیں ہیں، ہم امید رکھتے ہیں کہ ہمیں انصاف ملے گا، ڈاکٹر پیٹر جے ڈیوڈ نے کہا کہ ایڈورڈ کالج 120سال سے مسلمانوں کی خدمت کر رہا ہے کیونکہ اس میں 95فیصد طلبہ مسلمان ہیں اور ہم ایک پیسہ بھی حکومت سے نہیں لیتے لیکن کوشش یہ کی جارہی ہے کہ کالج کا تمام کنٹرول گورنر صاحب کے پاس چلا جائے، ہم اس بات کی مذمت کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ اگر مدینہ کی ریاست میں ایسا ہوتا تو وہاں کے خلیفہ کبھی ایسا ہونے نہ دیتے، مائیکل میسی نے کہا کہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ گورنر کے پی کے خود مبینہ طور پر پارٹی بنے ہوئے ہیں اور وہ ہماری پراپرٹی پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں، انہوں نے کہا اگر ہمیں انصاف نہ ملا ہم عالمی سطح پر احتجاج کرنے پر مجبور ہوں گے، پاکستان کے موجودہ حالات کا سبب ہم اس انتہائی اقدام کی طرف جانا نہیں چاہتے، مورس جان نے کہا کہ اس فیصلے سے کرسچن کمیونٹی میں سخت تشویش پائی جاتی ہے، انہوں نے کہا کہ ہائی کمشنر نفیس زکریا نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ہمارے مطالبات متعلقہ حکام تک پہنچا دیں گے۔