• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے بعد اب تقریباً ڈھائی ماہ گزر چکے ہیں۔ اس دوران میں موبائل فون سروس اور انٹرنیٹ کی سہولتیں بالکل بند رہیں،گو کہ بارہ اکتوبر کو بھارتی مقبوضہ کشمیر میں موبائل فون سروس جزوی طور پر بحال کردی گئی ہے۔ پھر بھی سخت محاصرہ اب بھی جاری ہے۔

غالباً بھارتی غاصب حکومت کو خدشہ ہے کہ جوں ہی انٹرنیٹ کی سہولت بحال ہوگی مقبوضہ کشمیر کے حالات سے بیرونی دنیا کو مطلع کیا جانے لگے گا۔ ویڈیو بن کر سوشل میڈیا پر چلائی جائیں گی اور دیگر ظلم و استبداد کے عینی شواہد بھی دنیا تک پہنچ جائیں گے۔

واضح رہے کہ مقبوضہ کشمیرکے کل دس اضلاع ہیں جن میں صرف پوسٹ پیڈ موبائل سروس بحال کی گئی ہے اور پری پیڈ موبائل سروس اب بھی بند ہیں۔ لیکن اب کم از کم اتنا تو ممکن ہوا کہ کچھ لوگ اپنے عزیز رشتہ داروں سے بات کرنے کے قابل ہوگئے ہیں۔ ویسے زیادہ تر دکانیں بند ہونے کےباعث اب بھی لوگ فون کے پیسے چارج کرانے سے قاصر ہیں جس کی وجہ سے وہ فون استعمال نہیں کرسکتے۔ 

پھر کئی راستے بند ہونے کے باعث فون کے ری چارج کارڈ بھی ختم ہوچکے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق چوں کہ بھارتی فوج آمدورفت کے رستوں پر سخت نگرانی کررہی ہے اس لیے خاصی مشکل ہے۔ گرچہ اب مقبوضہ کشمیر میں اکثر جگہوں سے کرفیو اٹھایا جاچکا ہے مگر محاصرہ کی کیفیت برقرار رکھی گئی ہے اور کہیں بھی لوگوں کو جمع ہونے کی اجازت نہیں دی جارہی۔ اس کی بڑی وجہ دفعہ 144 کا مسلسل نافذ رہنا ہے۔

اس کے علاوہ اب مقامی دکان دار بہت کم دکانیں کھول رہے ہیں نہ ہی مقامی گاڑی والے اپنی گاڑیاں سڑکوں پر لارہے ہیں ۔ اس طرح سےوہ اپنا خاموش احتجاج درج کرارہے ہیں۔ بھارتی حکومت کا دعویٰ ہے کہ لوگ ایسا احتجاجاً نہیں بل کہ ڈر کے مارے کررہے ہیں، کیوں کہ انہیں دہشت گردوں کے حملوں کا خطرہ ہے۔

بی جے پی کی حکومت نے ان اقدام سے دراصل ان لوگوں کو بھی ناراض کردیا ہے جو بھارت کی مرکزی سیاست میں حصہ لے رہے تھے۔ مثلاً اب فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی کا خاندان بھی بھارتی حکومت کے خلاف کھل کر بول رہا ہے۔ اس طرح سوز خاندان جس کے سربراہ سیف الدین سوز ایک پروفیسر ہیں اور طویل عرصے تک بھارتی پارلیمان کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔ ان کا خاندان بھی اب بھارتی حکومت کے پردے چاک کررہا ہے۔ سیف الدین سوز بھارت کی مرکزی حکومت میں وزیراعظم من موہن سنگھ کے وزیر بھی رہ چکے ہیں۔ان کے بیٹے سلمان انیس سوز جو خود ماہر معیشت ہیں اور کانگریس پارٹی کے ترجمان بھی، انہوں نے مودی حکومت کے جھوٹ فاش کردیئے ہیں اور کہا ہے کہ مودی حکومت مقبوضہ کشمیر میں جو کچھ کررہی ہے اس کے دوررس نتائج ہوں گے اور کشمیری عوام بھارت کے قریب آنے کے بجائے اور دور ہوجائیں گے۔

دوسری طرف نریندر مودی اپنی تقریروں میں مسلسل یہ بڑھکیاں مار رہے ہیں کہ اب مقبوضہ کشمیر کی پچھلی صورت حال کو بحال کرنا کسی کے بس میں نہیں ہے اور کشمیر سے بھارت کا الحاق حتمی فیصلہ ہے۔ جس طرح پاکستان کشمیر کو اپنی شہ رگ کہتا رہا ہے اسی طرح اب نریندر مودی کشمیر کو بھارت کے سر کا تاج کہہ رہے ہیں اور کوئی بھی خود کشمیر کے عوام سے نہیں پوچھ رہا کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔یاد رہے کہ مودی آج کل بھارتی صوبے مہاراشٹر کے دروے پر ہیں جہاں ضمنی انتخاب ہونے والے ہیں۔ 

مودی حزب اختلاف کو بار بار اس بات پر للکار چکے ہیں کہ اگر ہمت ہے تو کانگریس اپنے انتخابی منشور میں کشمیر کی پچھلی حیثیت بحال کرنے کا وعدہ کرے۔ مودی کو معلوم ہے کہ بھارت کی مجموعی آبادی اس بات پر راضی نہیں ہوگی، اس لیے انہوں نے کانگریس کو بھی مشکل میں ڈال دیا ہے جو کہ اس سے قبل انتخابات ہار چکی ہے اور اب اگر کانگریس کشمیر کے مسئلے پر کھل کر کشمیریوں کی حمایت کرتی ہے تو بھارت میں اس کی مقبولیت مزید گھٹنے کا خدشہ ہے۔

تیرہ اکتوبر کو کشمیر میں سول نافرمانی پر ایک حقائق پر مبنی رپورٹ بھی جاری کی گئی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ لوگ شکایت کررہے ہیں کہ سیکورٹی ادارے انہیں مجبور کررہے ہیں کہ وہ دکانیں کھولیں۔ یہ رپورٹ جاری کرنے والے چار اکیڈمک اور صحافی ہیں جنہوں نے وادی کشمیر کے حالات پر حقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ لوگ دکانیں کسی ڈر سے بند نہیں رکھ رہے، بل کہ بھارتی ریاست کے خلاف مزاحمت کا اظہار کررہے ہیں۔ 

رپورٹ میں مذید درج ہے کہ اب لوگ تشدد کے بجائے پرامن اور خاموش احتجاج کی طرف مائل ہیں اور انہیں بھارتی ریاست کی اس دغا بازی اور دھوکا دہی پر شدید غم و غصہ ہے۔ ایک بھارتی سماجی کارکن اور انسانی حقوق کی علم بردار شبنم ہاشمی، جو صفدر ہاشمی اور سہیل ہاشمی کی بہن ہیں۔ صفدر ہاشمی مشہور ڈراما نگارتھے جنہیں تقریباً تیس سال قبل ہندو انتہا پسندوں نے قتل کردیا تھا۔

شبنم ہاشمی الخد کے نام سے ایک ادارہ چلاتی ہیں جو گجرات کے مسلم کش فسادات کے بعد تشکیل دیا گیا تھا۔شبنم ہاشمی کے مطابق انہوں نےاپنے حالیہ دورہ کشمیر میں دیکھا کہ کشمیر مکمل بند ہے اور حکومت جھوٹ بول رہی ہے۔ سری نگر میں البتہ کچھ کاروبار کھلے ہیں لیکن عوامی آمدورفت تقریباً بالکل بند ہے۔ ایک اور سماجی کارکن اویس سلطان خان نے بھی کشمیر کے بارے میں کم وبیش ایسی ہی روداد سنائی ہے۔

حتی کہ اب جموں کشمیر نیشنل کانفرنس کے رہ نما بھی بھارتی حکومت کے خلاف کھل کر بول رہے ہیں ۔ جسٹس حسنین مسعودی جو گزشتہ مئی سے لوک سبھا کے رکن ہیں اور اننت ناگ سے تعلق رکھتے ہیں انہوں نے بھی کھل کر بھارتی حکومت پر تنقید کی ہے۔ یہ وہی جج ہیں جنہوں نے جموں کشمیر ہائی کورٹ کے جج کی حیثیت سے 2015 میں فیصلہ دیا تھا کہ بھارتی آئین کی دفعہ 370 ناقابل تنسیخ ہے اور مستقل حیثیت رکھتی ہے جسے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ 

مئی 2019 کے لوگ سبھا کے انتخاب میں مسعودی نے محبوبہ مفتی کو شکست دی تھی۔ انہوں نے ہی محمد اکبر لون کے ساتھ مل کر مودی کے اقدام کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ جو اس وقت بالکل خاموش نظر آرہی ہے کیا آگے چل کر کشمیر کی سابقہ حیثیت بحال کرتی ہے یا نہیں، فی الحال اس کا امکان کم ہے۔

تازہ ترین