• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فیصل آباد میں ایف آئی اے ، فیسکو اور دیگر افسران کیخلاف انکوائریاں یکجا ، تحقیقات ایڈیشنل ڈائریکٹر عبدالرب کرینگے

کراچی (اسد ابن حسن) فیصل آباد میں اربوں روپے کی غیرقانونی تعمیرات میں ملوث بلڈر مافیا، فیصل آباد الیکٹرک سپلائی کارپوریشن اور ایف آئی اے لاہور زون II کے افسران کی مبینہ ملی بھگت کے حوالے سے موصول ہونے والی مختلف درخواستوں، انکوائریوں اور مقدمہ کو یکجا کرکے ان کی تحقیقات کی گئی ہے او اب اس پر بہت تیزی سے کام شروع کردیا گیا ہے۔ ’’جنگ‘‘ کو ملنے والی دستاویزات کے مطابق 2010ء سے فیصل آباد میں مختلف ہاؤسنگ اسکیموں کی شروعات ہوئیں اور ان میں بجلی ترسیل کے حوالے سے مختلف شکایات موصول ہونا شروع ہوئیں جس میں فیسکو اور فیص آباد ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا عملہ مبینہ طور پر ملوث تھا اور اسی حوالے سے فیسکو کے چیف انجینئر نے 26؍فروری 2017ء کو ایف ڈی اے کے ڈائریکٹر جنرل کو ایک مراسلہ بھجوایا جس میں ضلع کے سرکل Iمیں 17اور سرکل IIمیں 16ایسی ہاؤسنگ اسکیموں کی نشاندہی کی گئی کہ جن کا اسٹیٹس ’’کینسل‘‘ (منسوخ) بتایا گیا مگر وہاں بجلی کی ترسیل جاری تھی اس کی ایک کاپی فیسکو کو بھی بھیجی گئی اور اس پر سخت کارروائی کی ہدایت کی گئی۔ 2018ء میں اسی حوالے سے شکایتوں میں تیزی آئی جب فیصل آباد کے ایک رہائشی چوہدری یاسر گجر جوکہ ایک غیر ملکی فلاحی تنظیم کے عہدیدار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، نے ایف آئی اے، فیسکو، لیسکو اور ایف ڈی اے کے خلاف اسلام آباد ایف آئی اے ہیڈکوارٹر اور متعلقہ وفاقی وزارتوں اور دیگر صوبائی محکموں کو درخواستیں یکے بعد دیگرے بھجوانا شروع کیں۔ ان درخواستوں میں غیرقانونی ہاؤسنگ اسکیموں اور متعلقہ فیسکو اور ایف آئی اے افسران کی ملی بھگت کی نشاندہی کی اور نااہلی اور کرپشن کے الزامات کی ایک وجہ یہ ٹھہری کہ ایک برس میں ایف آئی اے فیصل آباد کے چار قائم مقام ڈپٹی ڈائریکٹر پہلے ساجد اسلم پھر چوہدری عبدالحفیظ، پھر جمیل احمد خان میو اور اب صابر حسین کا تبادلہ کردیا گیا اور اب جس افسر کو قائم مقام کا چارج دیا گیا ہے یعنی رب نواز وہ خود اپنے خلاف انسانی اسمگلنگ کی انکوائری بھگت رہے ہیں۔ واضح رہے کہ اس غیر قانونی بجلی ترسیل کے حوالے سے اس ماضی میں 2013ء میں ایف آئی اے فیصل آباد سرکل میں مقدمہ نمبر 321/13درج ہوا جو، اب تک زیرالتوا ہے، پھر رواں برس اسی سرکل میں مقدمہ نمبر 213/19درج ہوا اس پر بھی کوئی خاطرخواہ کارروائی ہوئی نہ ہی گرفتاری۔ یاسر گجر نے ایف آئی اے ہیڈکوارٹر کو بھیجی گئی درخواست میں کہا تھا کہ فیسکو حکام نے 208سے زائد مکانات اور کئی کالونیوں کو بغیر ایف ڈی اے کے این او سی یا جعلی این او سی پر کئی برس پہلے عارضی بجلی فراہمی کے میٹر تنصیب کرکے بجلی فراہم کرنا شروع کی تھی پھر بعد میں عارضی کنکشنوں کو گھریلو کے ساتھ ساتھ تجارتی بجلی کی بھی فراہمی شروع کردی گئی جس سے قومی خزانے کو ہر ماہ کروڑوں روپے کا نقصان اب بھی ہورہا ہے۔ اُنہوں نے وفاقی سیکرٹری پاور کو بھی ایک درخواست روانہ کی کہ جس وقت فیسکو میں گھپلے چل رہے تھے، اس وقت وہاں کے ایک اعلیٰ افسر مجاہد پرویز چھٹہ کو ان کے اثرورسوخ کی بنیاد پر غیر قانونی طور پر اعلیٰ عدالت کے فیصلے کے برخلاف اب لیسکو کا سی ای او تعینات کردیا گیا ہے، ان کے پاس میکینکل انجینئرنگ ڈگری ہے جو پاکستان انجینئرنگ کونسل سے منظورشدہ ہے جبکہ انہیں اب الیکٹریکل انجینئر کی پوسٹ پر تعینات کردیا گیا ہے جو قطعی غیرقانونی ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ فیصل آباد ہی میں تعینات ایک حساس ادارے کے افسر نے یاسر گجر کے متعلق ایک رپورٹ اپنے ہیڈکوارٹر ترسیل کی ہے۔ اس حوالے سے تمام متعلقہ افراد کے مؤقف لیے گئے۔ شکایت کنندہ یاسر گجر کا کہنا تھا کہ وہ 2013ء سے کرپشن اور غیر قانونیت کی نشاندہی بمع ثبوت متعلقہ محکموں کو پیش کرتے رہے ہیں مگر سب سے حیرت انگیز بات یہ رہی کہ ایف آئی اے میں دو مقدمات درج ہونے کے باوجود کارروائی سے گریز کی اگیا اور مبینہ طور پر بے انتہا رشوت کا بازار ہر متعلقہ محکمے میں اب بھی جاری ہے۔ اس حوالے سے اس وقت کے فیسکو کے اعلیٰ افسر مجاہد پرویز چٹھہ جن پر بیشتر الزامات لگتے رہے ہیں کا کہنا تھا کہ ان کے خلاف فیصل آباد ایف آئی اے میں کوئی انکوائری نہیں چل رہی۔ یہ سب اینویں باتیں ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ گجر اور اس جیسے لوگوں کے پاس کوئی کام نہیں ہوتا اور وہ بلیک ملینگ کرتے ہیں۔ اُنہوں نے تصدیق کی کہ ان کے پاس میکینکل انجینئرنگ کی ڈگری ہے اور وہ اب الیکٹریکل پوسٹ پر ہیں جوکہ کوئی انہونی بات نہیں جیساکہ کے۔الیکٹرک میں بھی ہے۔ ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل نارتھ احسان صادق کا کہنا تھا کہ اب تمام انکوائریاں یکجا کرکے تحقیقات کے لیے سینئر افسر عبدالرب کو دے دی گئی ہیں۔ ایڈیشنل ڈائریکٹر لاہور زون IIرستم چوہان کا کہنا تھا کہ یہ اچھا ہوگیا کہ تمام انکوائریاں اور مقدموں کے حوالے سے تحقیقات ایک ہی افسر کو سونپ دی گئی ہیں اے ڈی صابر حسین کا کہنا تھا کہ صابر حسین جیسے لوگ بلیک میل ہوتے ہیں، وہ میرٹ پر تحقیقات کررہے تھے اور وہ کسی انسانی اسمگلنگ انکوائری کا حصہ نہیں رہے ہیںنئے تعینات شدہ قائم مقام ڈپٹی ڈائریکٹر رب نواز کا دعویٰ تھا کہ ان کے خلاف نہ کوئی انسانی اسمگلنگ کی کارروائی چل رہی ہے اور نہ ہی کوئی درخواست ہے۔

تازہ ترین