• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آزادی مارچ کے آغاز میں یوں تو ایک عشرہ باقی ہے لیکن جے یو آئی قبل ازیں حکومت کو دبائو میں لانے کے مقصد میں کامیاب نظر آتی ہے۔ حکومت کو بھی ایک ریلیف جو وقتی طور پر سہی مگر یہ ملا ہے کہ عوام کی توجہ مسئلہ کشمیر اور غریب کش مہنگائی سے مارچ کی جانب مبذول ہو گئی ہے۔ ہمارے ہاں کی روایت بھی یہی ہے کہ ایک ایشو کے جاتے ہی لوگ اُس کے اثرات و نقصانات کو بھول کر دوسرے میں مگن ہو جاتے ہیں۔ شیخ رشید کا یہ کہنا کہ حکومت کے وزیروں و مشیروں کے بیانات نے مارچ کو حد سے زیادہ وقعت دیدی ہے، درست بھی ہے کہ اس مارچ کو اپوزیشن کے ساتھ عوام تک پہنچانے میں حکومتی کارندوں کا حصہ بھی کچھ کم نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ دانستہ مسئلہ کشمیر و مہنگائی جیسے حقیقی ایشوز سے عوام کو دور لے جانے کی حکمت عملی ہو، مگر بظاہر ان کا واویلا ان کے خوف کو ظاہر کر رہا ہے۔ معاملہ جو بھی ہو مگر ملک کے طول و عرض میں مارچ کے حوالے سے وسوے و اُمیدیں اپنے عروج پر ہیں، اس سلسلے میں ایک بحث یہ بھی بعض حلقوں میں شروع ہو چکی ہے کہ کم عمر طلبہ کو احتجاج کاحصہ بننا چاہئے یا نہیں؟ ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو دینی تعلیم کیلئے مدرسوں میں بھیجتے ہیں، احتجاج میں شرکت کیلئے نہیں۔ اس کے جواب میں یہ دلیل دی جاتی ہے کہ کالج و یونیورسٹیوں کے طلبہ بھی تو سیاسی جلسوں و جلوسوں میں کردار ادا کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ایک کالج یا یونیورسٹی میں اساتذہ و طلبہ مختلف الخیال ہوتے ہیں، ان میں جو طلبہ پڑھتے ہیں اُن میں کچھ ایک طلبہ تنظیم سے وابستہ ہوتے ہیں، کچھ دوسری تنظیم سے، یعنی یہ نہ صرف مختلف سیاسی سوچ و نظریات رکھنے والی تنظیموں سے وابستہ ہوتے ہیں بلکہ ایک دوسرے سے اختلاف بھی کرتے ہیں جبکہ ایک بڑی تعداد غیر جانبدار رہتی ہے، وہ صرف تعلیم پر توجہ دیتی ہے اور اُنہیں کسی تنظیم یا جماعت سے وابستہ یا اُن کے جلسے جلوسوں میں شریک ہونے پر مجبور بھی نہیں کیا جا سکتا جبکہ دوسری طرف مدرسے کے تمام اساتذہ اور طلبہ ایک ہی فکر کے حامل ہوتے ہیں، وہ پابند ہوتے ہیں کہ وہ اسی فکر یا اس سے وابستہ جماعت ہی کے خیالات کو آگے بڑھائیں۔ یہاں ایک کالج کے طلبہ و اساتذہ کی طرح اختلافِ رائے کا تصور بھی محال ہوتا ہے، یہ دوسری فکر کو قبول نہیں کر پاتے، یہاں تک کہ یہ طلبہ دوسرے افکار کے مدرسوں تک کے پروگراموں میں شرکت سے اجتناب کرتے ہیں۔ پاکستان کے علاوہ شاید ہی دنیا کے کسی ملک میں اس طرح کے مباحثے ہوتے ہوں، اس کی وجہ ان مملکتوں کا مستحکم نظام ہے جبکہ ہمارے ہاں بدقسمتی سے اب تک جمہوریت اپنی روح کے مطابق پاکستانی عوام تک اپنے وہ ثمرات جن سے دیگر ممالک کے عوام مستفید ہیں، نہیں پہنچا سکی ہے۔ ہمارے ہاں جمہوریت پر بالادست طبقات و اشرافیہ کا قبضہ ہونے کے باوصف زندگی کا کوئی بھی شعبہ عوام کو ترقی کی دوڑ میں شامل نہیں کر سکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب سیاست جیسے بنیادی شعبے میں تاحال ہم یہ جان ہی نہیں سکے ہیں کہ اس کے رموز و اسلوب کیا ہیں تو ظاہر ہے کہ اس کا معیشت، صحت و تعلیم جیسے اہم شعبوں پر اثر پڑنا ہی تھا۔

گزشتہ روز ایکسپو سینٹر کراچی میں ڈائو یونیورسٹی کے تحت ہیلتھ ایگزی بیشن جس میں پاکستانی اور غیر ملکی مندوبین شریک تھے، نے کہا کہ سائنس و ٹیکنالوجی کے بغیر پاکستانی ترقی کرتی دنیا میں بہت پیچھے رہ جائیں گے، ڈاکٹر خورشید قریشی نے کہا کہ آئی ایم ایف سے قرض کی 6بلین ڈالرز کی ڈیل کرنے کے لیے ہم اپنی خودی کو بھی گروی رکھنے پر تیار تھے جبکہ دنیا کی بیشتر کمپنیاں اپنی ایک سہ ماہی میں 6بلین ڈالر آسانی سے کما لیتی ہیں، انہو ں نے کہا کہ بنگلہ دیش کی صرف گارمنٹس کی برآمدات 35بلین ڈالرز ہیں جبکہ ہماری کل برآمدات 22بلین ڈالرز ہیں۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کی حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بنگلہ دیش کی ترقی کی شرح سات اعشاریہ نو فیصد سے رواں سال آٹھ ہو جائے گی۔ دوسری طرف اسی رپورٹ کے مطابق 2019میں پاکستان کی معاشی شرح نمو3اعشاریہ9فیصد جبکہ 2020میں کم ہو کر3اعشاریہ 6فیصد رہے گی۔ اقوام متحدہ کے معاشی و سماجی کمیشن برائے ایشیا و پیسفک نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ رواں سال پاکستان کی شرح نمو خطے میں سب سے کم ترین سطح پر رہے گی۔ خلاصہ یہ ہے کہ ہمارے بعد دنیا کے نقشے پر نمودار ہونے والے ممالک ترقی و خوشحالی کے اوجِ ثریا پر پہنچ رہے ہیں جبکہ پاکستان میں غربت، استحصال اور حکومتوں کی ناقص کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ عوام ہر مارچ کو سفرِ منزل سمجھ لیتے ہیں۔

تازہ ترین