جب سے تحریک انصاف برسر اقتدار آئی ہے، حزب اختلاف اور میڈیا کے حلقوں میں تحریک انصاف کے روزگار کی فراہمی کے اعلان کو نہ صرف تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا بلکہ اس اعلان کو مضحکہ خیز زاویے سے پیش کیا جاتا رہا ۔
پھر نوکریوں کے حوالے سے میرے ایک بیان کو سیاق و سباق کے بغیر پیش کر کے ذرائع ابلاغ میں سرخیاں بنائی گئیں جس سے تحریک انصاف کی ساکھ کو نقصان پہنچانے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ تحریک انصاف نے اپنے ایک کروڑ نوکریاں فراہم کرنے کے اعلان سے ’’یوٹرن‘‘ لے لیا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ تحریک انصاف نے ایک کروڑ نوکریاں فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا اور اس اعلان کو اپنے منشور کا حصہ بھی بنایا تھا۔
تحریک انصاف آج بھی اپنے اس اعلان پر قائم ہے مگر جس طرح میرے نوکریوں والے بیان کو غلط طریقے سے پیش کیا گیا اسی طرح تحریک انصاف کے بھی اس اعلان کی روح کو سمجھے بغیر اسے تحریک انصاف کی حکومت کی ناکامی بناکر پیش کیا گیا حالانکہ یہ تاثر حقائق کے برعکس ہے۔
تحریک انصاف آج بھی تنقید کے باوجود اپنے اس انتخابی وعدہ کو پورا کرنے میں کوشاں ہے۔ تحریک انصاف کا روزگار فراہم کرنے کا بیان اپنی ہیئت میں تو (ن)لیگ اور پیپلز پارٹی کے اعلانات جیسا ہے مگر اس اعلان کی روح اور اسے عملی جامہ پہنانے کا طریقہ کار پچھلی حکومتوں کے فرسودہ طریقہ کار سے سو فیصد مختلف ہے بلکہ جدید جمہوری دور جہاں معیشت کا استحکام مقصود ہو اس ضابطہ سے ہم آہنگ ہے۔
سب سے پہلے تو یہ بات واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ تحریک انصاف نے ایک کروڑ نوکریاں فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا، ایک کروڑ ’’سرکاری‘‘ نوکریاں فراہم کرنے کا نہیں۔
تحریک انصاف کے اعلان کا حقیقی مطلب یہ تھا کہ حکومت ایک ایسا سازگار ماحول بنانے کی حکمت عملی وضع کریگی جس میں صنعت و تجارت کے فروغ کو یقینی بنایا جاسکے گا، جس میں پاکستان میں صنعت و تجارت پروان چڑھے گی اور جس کے نتیجے میں روزگار کے لاتعداد مواقع پیدا ہونگے۔ اس طرح کی معاشی اور معاشرتی حکمت عملی کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ معیشت مضبوط اور مستحکم ہوتی ہے، ملک سے بیروزگاری کا خاتمہ ہوتا ہے، غربت کا سدباب ہوتا اور ملک مضبوط ہوتا ہے۔
کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں ’’سرکاری‘‘ نوکریاں فراہم کرنے کی حکمت عملی اختیار نہیں کی جاتی بلکہ روزگار کی فراہمی کو ہدف بنایا جاتا ہے۔ دراصل سرکاری نوکری اور روزگار دونوں مختلف چیزیں ہیں جسے ان کی اصل روح کے مطابق سمجھنے کی ضرورت ہے۔
حکومتیں سرکاری نوکریاں فراہم کرکے نہیں بلکہ ایک سازگار معاشی اور معاشرتی ماحول بنا کر روزگار کے مواقع پیدا کرتیں اور ملک سے بیروزگاری اور غربت کا خاتمہ کرتی ہیں۔ اور یہ بات صرف معیشت کے اوامر و نواہی سے نابلد شخص ہی نہیں سمجھ سکتا مگر جو شخص معیشت سے ذرا بھی آشنا ہے وہ ضرور اتفاق کریگا۔ اب اگر پاکستان کی بات کرلیں تو اس ملک کی کل ورک فورس کا صرف چھ فیصد حکومتی ورک فورس ہے، باقی چورانوے فیصد پرائیویٹ سیکٹر کا ہے۔ اب اگر حکومت اس چھ فیصد کو دوگنا بھی کردے تب بھی پاکستان کا ایک بڑا حصہ بیروزگار ہی رہیگا اور معیشت پر بوجھ الگ بڑھے گا مگر تحریک انصاف معیشت کو مستحکم اور ملک سے غربت کے مکمل خاتمے کے عزم کے ساتھ حکومت میں آئی ہے۔ تحریک انصاف بیروزگاری اور غربت کا مستقل حل چاہتی ہے۔
(ن)لیگ اور پیپلزپارٹی کی حکومتوں نے اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کے لئے سرکاری اداروں میں میرٹ کے تقاضوں کو نظرانداز کرتے ہوئے سرکاری اداروں میں بھرتیاں کیں جس کے سبب آج وہ سب ادارے دیوالیہ ہوگئے اور معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا مگر تحریک انصاف اس طرح کی فرسودہ اور بدنیتی پر مبنی حکمت عملی کو رد کرتی ہے اور پاکستان سے بیروزگاری اور غربت کے خاتمے کے لئے مختلف پالیسی اختیار کیے ہوئے ہے ۔
ملکی سالمیت اور ترقی تحریک انصاف کے سیاسی مقاصد پر مقدم ہے اور جتنی بھی تنقید کا نشانہ بنایا جائے مگر تحریک انصاف اپنے تمام معاشی اہداف کی تکمیل کے لئے ہروہ اقدام کریگی جن کا مقصد ووٹ بینک کو مضبوط کرنا نہیں ہوگا اور جن کے نتائج عارضی نہیں بلکہ دیرپا ہونگے۔
اگر امریکہ، یورپ اور چین کا معاشی تجزیہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان تمام ترقی یافتہ ممالک نے اپنی حکومتی ورک فورس کو اپنی ضرورت کے مطابق محدود کر رکھا ہے تاکہ معیشت پر کم سے کم بوجھ ڈالا جائے اور معاشی ترقی و استحکام کے لئے ایسی حکمت عملیاں وضع کی گئیں جن کی مدد سے وہ سازگار ماحول بنا جس میں صنعت و تجارت ترقی کی بلندیوں تک پہنچ گئی اور روزگار کے بے پناہ مواقع پیدا ہوئے۔
نتیجتاً آج یہ ممالک دنیا کے طاقتور ترین اور خوشحال ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔ المختصر جدید جمہوری دور میں معاشی استحکام اور غربت کے خاتمے کے لئے یہی حکمت عملی اختیار کی جارہی ہے اور اس کے نتائج ہم سب کے سامنے ہیں۔ جب تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی تو معیشت تاریخ کے بدترین بحران سے دوچار تھی۔
حکومت کو سب سے پہلے اربوں ڈالر کے قرضوں کا سامنا تھا مگر عمران خان کی قیادت میں اس معاشی بحران پر کافی حد تک قابو پالیا گیا ہے اور اس معاشی بحران کے باوجود بھی تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے منشور سے انحراف نہیں کیا اور نہ ہی نوکریاں فراہم کرنے کے اعلان کو فراموش کیا ہے بلکہ اس حکومت نے ایسے پروگرامز متعارف کروائے جن سےروزگار کے بے پناہ مواقع پیدا ہونگے۔
ایک کروڑ نوکریوں کی فراہمی کا اعلان ایسا نہیں ہے جو پورا نہ کیا جا سکے بلکہ متعدد لوگوں کو نوکریاں مل بھی چکی ہیں مگر تحریک انصاف کے ہر اقدام کو تنقید کا نشانہ اس لئے بنایا جاتا ہے کیونکہ ہم سب پچھلے فرسودہ نظام کے عادی ہو چکے ہیں۔ شاید کچھ لوگ تحریک انصاف کی حکومت سے بھی پرانے نظام کے تحت مسائل کے حل کی توقع کیے ہوئے ہیں۔
اگر یہ حکومت بھی پرانے نظام کے مطابق مسائل حل کرنے نکلے تو پھر نتائج بھی وہی ہونگے مگر تحریک انصاف کی حکومت وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں ایک نئے نظام کے قیام کے لئے سرتوڑ کوشش کر رہی ہے اور اس حکومت پر صرف نئے نظام کے قیام کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ پرانے نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی بھی ذمہ داری ہے۔
عوام نے پچھلی حکومتوں پر بھروسہ کرکے انہیں وقت دیا مگر انہیں مایوسی ہوئی۔ عوام ایک بار تحریک انصاف کی حکومت پر بھی اعتماد کریں اور وقت دیں۔ میں یقین دلاتا ہوں کہ اس بار نہ عوام کا اعتماد مجروح کیا جائیگا اور نہ پچھلے ادوار کی طرح انہیں مایوسی ہوگی۔