• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انڈونیشیا میں پاکستان کے سفیر ثناء اللہ متنوع صفات کے مالک ہیں۔ ان کی اہلیہ بھی ان کی طرح سفیر ہیں لیکن اس کے باوجود ثناء اللہ صاحب خشک مزاج نہیں، ادب سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں اور مصور بھی ہیں۔ گزشتہ ہفتے بھی انہوں نے جکارتہ میں ایک نمائش کا اہتمام کیا تھا جس میں ان کی اپنی اور ان کے ساتھ سفارتخانے میں کام کرنے والی میڈم عائشہ کی پینٹنگز کے ساتھ ساتھ دیگر پاکستانی مصوروں کی پینٹنگز رکھی گئی تھیں۔ وہ بیوروکریٹ کم اور انسان زیادہ ہیں اور سفیر ہوکر بھی پاکستانیوں سے محبت کرتے ہیں۔ پلڈاٹ کے زیراہتمام انڈونیشیا کا دورہ کرنے والے نو رکنی وفد کے اعزاز میں انہوں نے جکارتہ میں ایک عشائیے کا اہتمام کیا جس میں انہوں نے پورے ملک سے نمایاں پاکستانیوں کو جمع کیا۔ شرکاء نے سوالات اور اعتراضات کے ذریعے ہمارے وفد میں شامل میرحاصل بزنجو ‘ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین ندیم افضل گوندل اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ اور خود میری (میڈیاکی) خوب خبر لی۔ سوالات میں تلخی بھی تھی‘ طنز بھی تھا لیکن ان میں ایک خاص قسم کا درد بھی دکھائی دے رہا تھا (جو پاکستان کے اندر بیشتر رہنے والوں کی گفتگو میں نظر نہیں آتا)۔ واضح نظر آتا تھا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی ‘ ملک کے اندر رہنے والوں کے مقابلے میں یہاں کے حالات کے بارے میں زیادہ تشویش میں مبتلا ہیں۔ وہ یہاں رہنے والوں کے مقابلے میں زیادہ دکھی ہیں بلکہ وہ شاید یہاں رہنے والوں سے زیادہ باخبر بھی ہیں۔ وجہ شاید اس کی یہ ہے کہ وہ پاکستانی چینل تواتر کے ساتھ دیکھتے ہیں جو انہیں باخبر بنانے کے ساتھ ساتھ بے چین بھی کردیتے ہیں ۔ یہ صرف انڈونیشیا میں مقیم پاکستانیوں کی حالت نہیں بلکہ میں نے امریکہ‘ یورپ‘ برطانیہ اور عرب دنیا میں بھی مقیم پاکستانیوں کو ایسا ہی پایا ہے ۔ پاکستان کے ساتھ ہم سے زیادہ محبت کرنے والے، پاکستان کیلئے ہم سے زیادہ پریشان اور پاکستان کے لئے ہم سے زیادہ دعائیں مانگنے والے۔ یوں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی حب الوطنی پر سوال اٹھانا ظلم عظیم ہے لیکن جس طرح پاکستان کے اندر سب رہنے والے ایک جیسے نہیں‘ اسی طرح بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی بھی کئی اقسام ہیں۔ اس تناظر میں ہمیں بیرون ملک تمام پاکستانیوں کو ایک ہی پیمانے سے نہیں ماپنا چاہئے کیونکہ کم وبیش ہر بندے کے کیس کی نوعیت مختلف ہے۔ بیرون ملک پاکستانیوں کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں ایک وہ جو عارضی طور پر ویزے کے تحت وہاں مقیم ہیں اور دوسرے وہ جو کسی اور ملک کی شہریت حاصل کرچکے ہیں ۔ عارضی قیام کیلئے جانے والوں میں ایک کیٹیگری طالب علموں کی یا پھر ان لوگوں کی ہے جو کسی مضمون یا فن میں تخصیص کیلئے وہاں جاتے ہیں ۔ ظاہر ہے یہ عظیم لوگ اور پاکستان کا سرمایہ ہیں جو سنت نبوی پر عمل کررہے ہیں۔ عارضی قیام والی دوسری کیٹیگری میں وہ لوگ آتے ہیں جو تلاش رزق میں وہاں گئے ہوئے ہیں ۔ ان لوگوں کو یہاں روزی کمانے کے مناسب مواقع میسر نہیں تھے چنانچہ انہوں نے وہاں کا رخ کرلیا۔ ان کے بال بچے یا بہن بھائی پاکستان میں مقیم ہیں جو وہاں کما کر ان کو بھجواتے ہیں، یہ بھی عظیم لوگ اور پاکستان کے محسن ہیں ۔
پاکستان کے حکمران یہاں کما کر باہر بھیجتے ہیں جبکہ یہ بیرون ملک پاکستانی وہاں کما کر یہاں بھیجتے ہیں ۔ یوں ان کا مقام اور مرتبہ بہت بلند ہے ۔ اب ان دو کیٹیگریز کے لوگوں کو تو نہ صرف پاکستان کے سیاسی اور اجتماعی معاملات میں دخیل ہونے کا حق ہونا چاہئے بلکہ شاید وہ پاکستان میں رہنے والوں سے زیادہ محترم اور مکرّم ہیں ۔ بیرون ملک پاکستانیوں کی دوسری قسم وہ ہے جو وہاں کے ممالک کی شہریت حاصل اور وہاں کی وفاداری کا حلف اٹھاچکے ہیں۔ ان کی حیثیت اور مقام عارضی قیام کے پاکستانیوں سے بالکل مختلف ہے لیکن پھر ان کے ہاں بھی مختلف کیٹیگریز ہیں ۔ ایک کیٹیگری ان لوگوں کی ہے جو پاکستان کے وسائل سے تعلیم حاصل کرچکے۔ ان کو یہاں بھی روزگار مل سکتا ہے لیکن امریکہ اور یورپ جیسی تعیشات نہیں مل سکتی تھیں چنانچہ وہ پاکستان کے وسائل سے حاصل کردہ مہارت کو اب دوسروں کیلئے استعمال کررہے ہیں ۔ دوسری کیٹیگری ان لوگوں کی ہے جو پاکستان میں کمایا ہوا مال بیرون ملک منتقل کرچکے اور اس کی بنیاد پر وہاں ان کو شہریت مل گئی ۔ اس کیٹیگری میں بعض وہ ریٹائرڈ جرنیل اور بیورکریٹ بھی شامل ہیں جو یہاں مزے لوٹنے کے بعد اب مغرب کے شہری بن کر وہاں کے مزے لوٹ رہے ہیں ۔ان دو کیٹیگریز کے لوگ کسی ہمدردی کے مستحق ہیں اور نہ پاکستانی کہلوانے کے حقدار ہیں ۔ وہ اگر پاکستان سے متعلق اپنے مشورے اور اپنی تجاویز اپنے ساتھ رکھیں تو ان کی بڑی مہربانی ہوگی۔ میں نے دیکھا ہے کہ اسی طرح کے لوگ عموماً رات کو عالم مدہوشی میں انٹرنیٹ پر بیٹھ کر ہمیں کبھی پاکستان سے متعلق مشورے دے رہے ہوتے ہیں اور کبھی طالبان سے متعلق،کبھی ہمیں بزدلی کے طعنے دیتے ہیں اور کبھی مصلحت پسندی کے۔ حالانکہ سب سے بڑے بزدل یہ خود ہیں جو یہاں آکر جینے کا رسک بھی نہیں لے سکتے لیکن سمندر پار بیٹھ کر اسٹیبلشمنٹ اور طالبان کے خلاف اپنی بہادری دکھا رہے ہوتے ہیں۔ ایک اور کیٹیگری ان لوگوں کی ہے جو یہاں علم ‘ سیاست یا دعوت کے میدان میں کچھ کرنا چاہتے تھے لیکن یہاں ان کا اور ان کے متعلقین کا جینا حرام کردیا گیا یا پھر ان کی زبان بندی کی جارہی تھی۔ اب اگر یہ لوگ اس نیت کے ساتھ باہر گئے ہیں کہ وہاں جاکر اپنے عقیدے اور سوچ کے مطابق اپنے مشن کو جاری رکھ سکیں اور پاکستان کو بحرانوں سے نکالنے کے اپنے مشن کو بطریق احسن جاری رکھ سکیں تو یہ لوگ نہ صرف معافی کے مستحق ہیں بلکہ ایک خاص تناظر میں ان کا یہ کام ہجرت کے زمرے میں آتا ہے ۔ ابتدا میں میرا خیال تھا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری بھی اس کیٹیگری میں آتے ہیں اور اسی لئے پچھلے سات سال کے دوران کبھی بھی ان کی کینیڈا منتقلی اور وہاں کی شہریت پر اعتراض نہیں کیا لیکن جب انہوں نے خود یہ اعلان فرمایا کہ وہ زندگی کو لاحق خطرے کی وجہ سے نہیں بلکہ ایک اور وجہ سے کینیڈا کی شہریت کی دستار اپنے مبارک سر پر سجا چکے ہیں تو اس بنیاد پر ان کی پکڑ بھی شروع کی۔ تبھی تو ہم جیسے لوگ سپریم کورٹ کو شاباش دیتے ہیں کہ اس نے ایک ایسے شخص کو پاکستانی سیاست کی کایا تلپٹ کرنے کی اجازت نہیں دی جو بغیر کسی مجبوری کے کینیڈا کی وفاداری کا حلف اٹھاچکے ہیں اور اب اچانک پاکستانیوں کی قیادت کرنے کے لئے آدھمکے ہیں۔ لیکن بیرون ملک پاکستانیوں کی ایک کیٹیگری اور بھی ہے اس میں وہ لوگ شامل ہیں جو رہتے تو پاکستان میں ہیں لیکن اصلاً وہ غیر ملکی بن گئے ہیں ۔ وہ یہاں حکومت کررہے ہیں یا پھر اعلیٰ سرکاری اور فوجی عہدوں پر فائز ہیں۔ یہ لوگ یہاں سے پیسہ بیرون ملک منتقل کررہے ہیں ۔ ان کے بچے وہاں پڑھتے ہیں اور ان کے اہل خانہ وہاں کے اسپتالوں سے علاج کراتے ہیں۔ انہوں نے امریکہ‘ برطانیہ‘ دبئی ‘ یورپ اور ملائیشیا وغیرہ میں جائیدادیں خرید رکھی ہیں اور یہاں سے مزید دولت وہاں منتقل کررہے ہیں ۔ میرے نزدیک یہ سب سے زیادہ قابل نفرت کیٹیگری ہے تبھی تو اپنی گزارش ہے کہ جو شخص بیرون ملک جائیداد خرید چکا ہو‘ اپنے بچوں کو وہاں منتقل کر چکا ہو یا کسی اور ملک کی شہریت حاصل کرچکا ہو‘ پاکستانی سیاست میں اس کے کردار پر پابندی عائد ہونی چاہئے ۔ جس جج‘ جرنیل یا بیوروکریٹ نے غیرملکی شہریت خود لی ہو یا پھر بچوں کو دلوائی ہو‘ اس کو یہاں نوکری کا حق نہیں ملنا چاہئے ۔ بیرون ملک ہو یا اندرون ملک‘ عام پاکستانی اور قائدین کے ساتھ سلوک میں فرق ہونا چاہئے ۔ اگر ایک بندہ قوم کی قیادت یا رہنمائی کا دعویدار ہی نہیں ہے تو وہ جیسا بھی ہے جہاں بھی ہے ‘ اس سے کسی کو کیا سروکار لیکن جو بندہ اپنی مرضی سے اپنے آپ کو قیادت کیلئے پیش کرتا ہے پھر اسے اپنے آپ کو بعض معیارات پر بھی پورا اتارنا ہوگا۔ جو بندہ اپنے آپ کو لیڈر اور رہنما کہلواتا ہے وہ اگر اپنی جائیداد اور بچوں کو پاکستان منتقل کرنے کا رسک نہیں لے سکتا یا پھر کسی غیرملک کی شہریت ترک نہیں کرسکتا تو اسے لیڈری کرنے کا کوئی حق نہیں دیا جاسکتا۔لیڈری اور دانشوری چھوڑ دے پھر اس کی مرضی جہاں رہنا چاہتا ہے‘ ہم اس سے کوئی غرض نہیں رکھیں گے۔
تازہ ترین