• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی قوم اس وقت جن چیلنجوں کا سامنا کررہی ہے ان کی توضیح و تشریح میں حکومتی اور اپوزیشن حلقوں کا اختلافِ رائے قابلِ فہم ہے مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ وطنِ عزیز داخلی اور خارجی دونوں اعتبار سے اپنی تاریخ کے جس مرحلے سے گزر رہا ہے اس میں بحران سے نکلنے کی کاوشوں میں تاخیر سب کے لئے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن مختلف امور پر اپنی اپنی رائے رکھتے ہیں۔ تاہم جمہوریت کا حسن اور قیادت کا تدبر ایسی ہی کرشمہ سازیوں سے عبارت ہے جن میں اختلافات کی ناقابلِ عبور نظر آنے والی خلیج پر بھی آن میں پل تعمیر ہو جاتا اور آگے بڑھنے کا راستہ نکل آتا ہے۔ منگل کا دن آزادی مارچ/ دھرنے کے معاملے پر حکومتی مذاکراتی کمیٹی اور اپوزیشن رہبر کمیٹی کے درمیان بات چیت کا تیسرا دن تھا مگر اس روز بھی تعطل کی کیفیت کا برقرار رہنا اس اعتبار سے خلافِ امید کہا جا سکتا ہے کہ پاکستانی عوام مذکورہ مارچ میں حصہ لینے والوں سے جس نظم و ضبط کی اور اس کے جواب میں حکومتی مشینری سے جس تحمل و برداشت کی امید رکھتے تھے وہ بڑی حد تک پوری ہوتی نظر آئی۔ ’’آزادی مارچ‘‘ کے دوران کوئی گملا ٹوٹا نہ شرکاء نے بدنظمی کا مظاہرہ کیا۔ اسی طرح طویل عرصے سے بعض خاص طور طریقے اختیار کرنے کی عادی حکومتی مشینری کے رویے میں بڑی حد تک تبدیلی محسوس کی گئی۔ ان مظاہر سے جہاں دونوں فریقوں کے طرزِعمل میں خال خال نظر آنے والے جھول دور کئے جانے کی امید پیدا ہوئی وہاں یہ توقع بھی بےمحل نہیں کہ فریقین ملک کو درپیش داخلی و خارجی چیلنجوں کی کیفیت ملحوظ رکھتے ہوئے افہام و تفہیم سے جلد کسی معاہدے پر پہنچنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ جلسوں، جلوسوں کے مواقع پر ایک طرف سے جوشِ خطابت کا اظہار ہو یا دوسری جانب سے آنے والے بیانات میں تندی نظر آئے، انہیں معمول کا حصہ اور ایک دوسرے کے اعصاب آزمانے کا ذریعہ کہا جاتا ہے مگر جب گزرے مہینوں اور دنوں میں کئی اہم حوالوں سے رونما ہو چکے اور تاحال جاری واقعات و معاملات انتہائی سنجیدگی کی ضرورت اجاگر کر رہے ہوں تو سب ہی پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اختلافی امور پر اتفاق رائے پیدا کرنے میں تاخیر نہ کریں تاکہ معیشت، بیروزگاری، مہنگائی، غربت سمیت تمام مسائل سے تعلق رکھنے والے امور میں تسلی بخش نتائج کی طرف پیش قدمی ممکن ہو۔ منگل کے روز اسلام آباد میں حکومت اور اپوزیشن کی مذاکراتی کمیٹیوں کی بیٹھک کے بعد جمعیت علمائے اسلام(ف) کے رہنما اور اپوزیشن رہبر کمیٹی کے سربراہ اکرم درانی کے بیان کا خلاصہ یہ تھا کہ اپوزیشن الیکشن میں ریاستی ادارے کا عمل دخل ختم کرنے سمیت اپنے چاروں مطالبات پر ڈٹی ہوئی ہے اور بات کسی پہلو سے آگے نہیں بڑھی ہے۔ حکومتی کمیٹی کے سربراہ پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ کچھ چیزوں پر اتفاق ہوا ہے جبکہ کچھ پر ڈیڈلاک برقرار ہے، ان کا کہنا تھا کہ جب معاہدہ ہوگا تو سب کچھ واضح ہو جائے گا۔ تاہم دیگر ذرائع سے آنے والی اطلاعات انتخابی دھاندلی سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کو فعال و بااختیار کرنے پر حکومت کی رضامندی سمیت افہام و تفہیم کے امکانات کی طرف اشارہ کر رہی ہیں۔ ذرائع کا یہاں تک کہنا ہے کہ وزیراعظم نےاپنے استعفے کو خارج از امکان قرار دیتے ہوئے تمام جائز اور آئینی مطالبات ماننے کا اختیار حکومتی مذاکراتی کمیٹی کو دیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ڈیڈلاک کو ختم کیا جائے تاکہ عملاً مفلوج محسوس ہونے والی معاشی و معاشرتی سرگرمیاں بحال ہوں۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ لچک کا مظاہرہ کریں اور موجودہ بحران کا آبرومندانہ حل نکالیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ان سطور کی اشاعت تک پاکستانی عوام حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اتفاق رائے کے ذریعے بحران حل ہونے کی خوشخبری سن لیں۔

تازہ ترین