• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاک فوج کے ترجمان جب یہ کہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمٰن کا مارچ سیاسی سرگرمی ہے اور اس سے پاکستانی فوج کا کوئی لینا دینا نہیں تو وہ درست طور پر اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پاکستانی مسلح افواج ملکی دفاع و سلامتی کی اہم اور حساس ذمہ داریوں کے باعث سیاسی معاملات میں بالکل غیر جانبدار ہیں۔ حکومت کے ماتحت ادارے کی حیثیت سے برسر اقتدار حکومت کا ساتھ دینا اور احکامات کی پاسداری کرنا مسلح افواج کی ذمہ داری ہے اس لئے سیاسی معاملات میں اس کا نام لیا جانا مناسب نہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ پاک فوج اپنی پیشہ ورانہ سرگرمیوں سے سروکار رکھتی ہے۔ قومی ادارے کے طور پر اپنی کارکردگی سے اس نے عوام کا جو اعتماد جیتا، اس کی بدولت فوجی وردی کو ہر طبقہ فکر کے لوگوں کی خاص محبت حاصل ہے۔ ماضی میں کسی کے انفرادی فعل سے اگر یہ تاثر ابھرا کہ ریاستی ادارے سیاست میں ملوث ہو جاتے ہیں تو یہ بات بھی ملحوظ رکھنے کی ہے کہ حالیہ برسوں میں فوج کی کوشش رہی ہے کہ نہ تو سیاست میں اس کا نام آئے، نہ یہ ادارہ کسی بحث کا موضوع بنے۔ فوج اگر یہ چاہ رہی ہے کہ اس کا نام زیرِ بحث نہ لایا جائے تو یہ اچھی اور قومی مفادات سے ہم آہنگ حکمت ِعملی ہے۔ فوج کو نہ خود متنازع بننا چاہئے نہ حکومت اور اپوزیشن سمیت کسی کو اپنے طرزِ عمل یا الفاظ سے ایسا تاثر دینا چاہئے کہ یہ قومی ادارہ کسی طور بھی سیاست میں ملوث ہے۔ جہاں تک الفاظ کے استعمال کا تعلق ہے، ماضی بعید سے ہماری حکومتیں اور اپوزیشن پارٹیاں اتنی محتاط نہیں رہیں جتنی ضرورت تھی جبکہ آج بھی صورتحال کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ آج کی دنیا مواصلاتی سہولتوں اور ذرائع ابلاغ کے پھیلائو کے باعث اس قدر سکڑ چکی ہے کہ ہر عمل کی تصویر پوری دنیا تک پہنچ جاتی اور زبان سے ادا کردہ ہر لفظ نشر ہو جاتا ہے۔ یہ بات کسی طور نظر انداز نہیں کی جانی چاہئے کہ غیر محتاط الفاظ کو دشمن قوتیں اپنے مفادات کے لئے استعمال کرتی ہیں۔ ایسے عالم میں کہ بعض مفروضوں کو استعمال کرتے ہوئے وطنِ عزیز پر جنگ تک مسلط کرنے کی کوششیں کی جا چکی ہیں، ہمارے تمام لوگوں کو اپنے بیانات میں قیاس آرائیوں پر مبنی ایسے غیر محتاط الفاظ کے استعمال سے گریز کرنا چاہئے جنہیں دشمن عناصر بطور ہتھیار مختلف فورموں اور دارالحکومتوں میں وطن عزیز کے خلاف استعمال کر سکیں۔ پچھلے برسوں کے دوران عالمی سطح پر سامنے آنے والی بعض انکشافی دستاویزات اور اندرونِ ملک رونما ہونے والے سنسنی خیز واقعات کے تناظر میں بعض ایسی تاویلات اور قیاس آرائیاں سامنے آئیں جن کی بروقت وضاحت کرنا سیاسی حلقوں کے لئے بھی ممکن نہیں جبکہ فوجی ترجمان کا کہنا ہےکہ دو عشروں سے ملکی سیکورٹی اور دفاع کے کاموں میں جاری شدید مصروفیت فوج کو اجازت نہیں دیتی کہ وہ اس طرح کی چیزوں میں خود کو ملوث یا ان کی وضاحت کرے۔ بدھ کے روز دیے گئے ایک انٹریو میں پاک فوج کے ترجمان نے جو باتیں کہیں ان سے کئی معاملات میں حقائق کی درست نشاندہی ہوتی ہے۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ سال 2014میں دیے گئے پچھلے دور کے دھرنے میں بھی فوج نے آئین کے مطابق جمہوری حکومت کا ساتھ دیا تھا، 70برس سے جاری مسئلہ کشمیر پر پاکستان کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا، اس ایشو کا کرتار پور سے کوئی تعلق نہیں۔ انتخابات کے حوالے سے ترجمان کا کہنا تھا کہ فوج نے الیکشن کمیشن کی درخواست پر سیکورٹی ڈیوٹی دی، آرمی چیف ایسے انتخابی طریق کار کے خواہاں ہیں جس میں فوج کا عمل دخل کم ہو۔ پاک فوج کی اس وضاحت کے بعد کیا ہی اچھا ہو کہ فوج کا نام اپنے مفادات کے لئے استعمال کرنے کی روش سے اجتناب برتا جائے۔ سیاسی گتھیاں سیاستداں جمہوری طریقوں سے خود ہی سلجھائیں۔

تازہ ترین