• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جمعرات کے روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں حکومت نے اپوزیشن کے شدید ترین احتجاج اور ہنگامہ آرائی کے باوجود ریکارڈ قانون سازی کرتے ہوئے 9صدارتی آرڈیننس سمیت 11بل منظور جبکہ 3آرڈیننسوں میں توسیع کروا لی۔ اپوزیشن کو بحث کا موقع نہ دیا گیا بلکہ اس کے اعتراضات کو بھی اسپیکر اسمبلی نے یکسر مسترد کر دیا۔ اجلاس کے آغاز میں حکومت کی جانب سے وقفہ سوالات معطل کرنے کی استدعا کثرت رائے منظور ہو گئی اور اس موقع پر بھی ڈپٹی اسپیکر نے اپوزیشن کے احتجاج کو نظر انداز کئے رکھا۔ اپوزیشن رہنمائوں نے میڈیا سے کہا کہ حکومتی رویہ غیرجمہوری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تمام قانون سازی چیلنج ہو گی، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کو بھی چیلنج کریں گے، ایوان بےتوقیر ہوں گے تو اپوزیشن سڑکوں پر نظر آئے گی۔ کوئی شک نہیں کہ پارلیمنٹ ملک کا معتبر ترین ادارہ ہے اور اس لئے ہے کہ یہ آئین کی روشنی میں ملک و قوم کیلئے قانون سازی کا اہم ترین فریضہ سر انجام دیتا ہے، کوئی بھی قانون سازی ہو اس کے طریق کار کی آئین میں صراحت موجود ہے۔ حالات کے تناظر میں آرڈیننس جاری کرنا بسا اوقات ناگزیر ہوتا ہے اور یہ کوئی غیرآئینی اقدام نہیں، تاہم ان کی حتمی منظوری جو انہیں باقاعدہ قانون کی شکل دینے کے لئے لازم ہے، پارلیمنٹ میں بحث و مباحثے کے بعد ہی دی جاتی ہے، اس عمل سے انحراف نگاہِ ستائش سے نہیں دیکھا جاتا۔ جہاں تک اسمبلی اجلاس میں حکومت کی طرف سے وقفہ سوالات معطل کرنے اور اپوزیشن کے احتجاج و ہنگامہ آرائی سے صرف نظر کرنے کا تعلق ہے، فہم سے بالا ہے۔ آخر حرج ہی کیا تھا کہ اپوزیشن کی بات سن لی جاتی، کم از کم یہ اضطرابی کیفیت تو پیدا نہ ہوتی۔ یوں بھی ایوان میں اکثریت کے بل پر حکومت نے آرڈیننسوں کے حوالے سے مطلوبہ نتائج حاصل کر ہی لینا تھے۔ اس قدر جلدی میں ان آرڈیننسوں کی منظوری اور اپوزیشن کو موقع نہ دینے سے بدمزگی کے فضا پیدا ہوئی اور غیر ضروری طور پر شکوک کو ابھرنےکا موقع دیا گیا۔ جو آرڈیننس منظور کرائے گئے ہیں ان کا جائزہ لیا جائے تو ان میں کوئی بھی ایسا نہیں، جس کی بنیادی انسانی حقوق، نظریات، قانون یا اخلاقیات کی بنیادوں پر کوئی مخالفت کر سکے۔ جائیداد میں خواتین کے حق، انصرامِ تولیدِ وراثت، لیگل اینڈ جسٹس ایڈ، پسماندہ طبقات کیلئے قانونی معاونت، اعلیٰ عدلیہ میں ڈریس کوڈ، نیا پاکستان ہائوسنگ اتھارٹی، مجموعہ ضابطہ دیوانی میں ترمیم، انسداد بےنامی ٹرانزیکشن ترمیمی بل اور قومی احتساب بیورو ترمیمی بل میں سے کون سا ایسا معاملہ تھا جس کی کوئی مخالفت کرتا۔ بحث و مباحثے یا سوالات سے ان بلوں کی اہمیت ہی اجاگر ہونا تھی جو حکومت کی نیک نیتی کا ثبوت اور نیک نامی کا باعث بنتی۔ خدا جانے ایسا کیوں نہ کیا گیا؟ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمٰن کی زیر قیادت دھرنے کا باوجود متعدد مذاکراتی ادوار کے کوئی حل نہیں نکل پایا اور تند و تیز بیانات کے تبادلے سے حکومت کیلئے مسائل پیدا ہوتے دکھائی دے رہے ہیں، دوسری جانب اپوزیشن نہ صرف اسمبلی میں منظور شدہ بلوں بلکہ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کو بھی چیلنج کرنے کا اعلان کر رہی ہے۔ وطن عزیز جن حالات سے دوچار ہے اس میں سیاسی سطح پر مفاہمانہ رویوں کی ضرورت ہے، حکومت کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنے کی روش اپنائے اور اپوزیشن بھی ملکی فلاح و بہبود اور پارلیمان کی تقویت کی خاطر مخالفانہ طرز عمل سے گریز کرے۔ پارلیمان کی قانون سازی احسن عمل ہے اور اس کا طریقہ کار بھی وہی ہونا چاہئے جو آئین نے وضع کر رکھا ہے۔ دوسرا کوئی بھی طرزِ عمل حالات کو پیچیدہ اور مشکل بنانے کا باعث بن سکتا ہے۔

تازہ ترین