• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ ہفتے میر خلیل الرحمٰن میموریل سوسائٹی (جنگ گروپ) کے زیر اہتمام ذیابیطس (شوگر) کی بیماری پر مختلف سیمینارز منعقد کرائے گئے۔ ان سیمیناروں میں ماہرین نے بتایا کہ ساڑھے تین کروڑ پاکستانی ذیابیطس کا شکار ہیں اور آنے والے چند برسوں میں ان کی تعداد دگنی ہو جائے گی، دنیا بھر میں 80لاکھ افراد ہر سال اس موذی مرض کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ذیابیطس کی بیماری انسان کے جسم کے ہر عضو کو تو متاثر کرتی ہی ہے مگر اس کے ساتھ انسانی زندگی کے معمولات اور عادات تک کو متاثر کرتی ہے۔ آنکھیں، گردے، جلد غرض ہر جسمانی اعضاء پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ پائوں اور ٹانگیں تک کاٹنا پڑ جاتی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس مرض میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ لوگوں نے ورزش چھوڑ دی ہے۔ اب اسکولوں اور کالجوں میں بھی کھیلوں کے پیریڈ نہیں ہوتے نہ پی ٹی کرائی جاتی ہے۔ آج کی نئی نسل کو خود ان کے والدین فاسٹ فوڈ کھلا رہے ہیں۔ ہم نے خود دیکھا کہ ادھر مائیں اسکولوں سے بچوں کو دوپہر کو لیتی ہیں اور ادھر کسی فاسٹ فوڈ ریستوران میں گھس جاتی ہیں۔ اگلے دن ہمیں دل کے امراض کے معروف ماہر پروفیسر ڈاکٹر ندیم حیات ملک بتا رہے تھے کہ اب تو ہمارے پاس دل کی تکلیف میں مبتلا پندرہ پندرہ سال کے بچے بھی آ رہے ہیں۔

اگلے روز ہماری سروسز اسپتال اور لاہور جنرل اسپتال میں شوگر کے دو معروف ماہرین پروفیسر ڈاکٹر خدیجہ عرفان اور پروفیسر ڈاکٹر عمران حسن خاں سے بات ہو رہی تھی تو انہوں نے انکشاف کیا کہ اب بچوں میں ٹائپ ٹو کی شوگر بہت زیادہ ہوتی جا رہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ فاسٹ فوڈز، کولڈ ڈرنکس اور آئس کریم کا استعمال ہے۔ کسی زمانے میں بچوں میں ٹاپ ون شوگر زیادہ تھی۔ جو مائیں بچوں کو اپنا دودھ نہیں پلاتیں ان کے بچوں میں وائرل انفیکشن کے نتیجے میں شوگر کا مرض ہو جاتا اور لبلبہ خراب ہو جاتا ہے۔ آج ہمارے تعلیمی اداروں میں بریک ٹائم میں بچوں کو جو چیزیں کھانے کو دی جا رہی ہیں وہ مکمل غیر صحتمند ہیں۔ برگرز، تلے ہوئے آلو، کیک، پیسٹری وغیرہ۔ یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینمل سائنسز کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر طلعت نصیر (موجودہ وی سی ایجوکیشن یونیورسٹی) نے اپنے دور میں یونیورسٹی کے اندر کولڈ ڈرنکس بند کرا دی تھیں اور اسٹوڈنٹس کو یونیورسٹی کی کینٹین سے دودھ ملتا تھا جو آج بھی ملتا ہے۔ آپ امریکہ جاکر دیکھیں، کسی اسکول کے پاس فاسٹ فوڈ ریستوران نہیں ہوگا۔ ہمارے ہاں تمام فاسٹ فوڈ ریستوران تعلیمی اداروں کے سامنے ہیں۔ اسی حوالے سے ہم بے شمار مثالیں پیش کر سکتے ہیں۔ اگر ہم نے اپنی آنے والی نسلوں کو ذیابیطس کے مرض سے بچانا ہے تو اپنے بچوں سے فاسٹ فوڈز اور کولڈ ڈرنکس کو دور کرنا ہوگا ورنہ یہ بچے اگر چھوٹی عمر میں شوگر کے مرض میں مبتلا ہوتے رہے تو مستقبل میں پوری قوم بیمار ہو جائے گی۔ اس حوالے سے حکومت کو سخت ایکشن لینا ہو گا۔

لیں جی! بڑے میاں صاحب 16روز سروسز اسپتال میں زیرعلاج رہنے کے بعد اب اپنے گھر میں منتقل ہو گئے ہیں۔ گھر پر ڈاکٹروں نے اگرچہ آئی سی یو روم بنا دیا ہے لیکن ہمارے نزدیک جس طرح کسی بڑے اور معیاری اسپتال میں آئی سی یو ہوتا ہے، جو کچھ اس آئی سی یو میں ہوتا ہے، شاید گھر میں ایسا ممکن نہ ہو۔ میاں صاحب کی شوگر اور پلیٹلٹس پھر اوپر نیچے ہو رہے ہیں اور سروسز اسپتال کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر محمود ایاز کا کہنا ہے کہ نواز شریف کا علاج پاکستان میں ممکن نہیں۔ ان کے بعض جنیٹک ٹیسٹ پاکستان میں نہیں ہو سکتے۔ آج پورے ملک میں ایک بھی ایسا سرکاری یا پرائیویٹ اسپتال نہیں جہاں نواز شریف کے ٹیسٹ ہو سکیں۔ دوسری طرف ہر سرکار نے اربوں روپے صحت کے شعبے پر خرچ کئے مگر ایک بھی معیاری اسپتال نہیں بنا سکی۔ نواز شریف تو صاحب حیثیت ہیں، وہ دنیا کے کسی بھی ملک میں جاکر بہترین انداز میں علاج کرا سکتے ہیں، ذرا دیر کو سوچیں یہی بیماریاں اگر کسی غریب کو لگ جائیں، وہ کہاں جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو بیماریوں سے محفوظ رکھے۔ آمین!

پچھلے چند دنوں سے لاہور میں ماحولیاتی آلودگی اور اسموگ میں بڑی تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ ویسے بھی لاہور کو فضائی آلودگی کے حوالے سے دنیا کا سب سے خطرناک اور پہلے نمبر کا شہر قرار دیا جا رہا ہے۔ لاہور ہائیکورٹ نے بھی اس پر نوٹس لیا ہے، دوسری جانب چیئرمین ماحولیاتی کمیشن جسٹس (ر) علی اکبر قریشی کو آلودگی کے خاتمے سے متعلق تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کو کہا ہے، ڈی جی ماحولیات، چیئرمین ماحولیاتی کمیشن کی معاونت کریں گے۔ پچھلے چار پانچ برس سے لاہور میں اور ملک کے دیگر شہروں میں اسموگ میں عجیب طرح کا اضافہ ہو رہا ہے۔ لاہور میں شہریوں کی اکثریت آنکھوں، گلے کی جلن اور سینے کی تکلیف میں مبتلا ہو چکی ہے۔ اس وقت لاہور میں اسموگ فصلوں کو جلانے، بھٹوں، گاڑیوں اور بسوں کے دھویں کی وجہ سے بڑھ رہی ہے۔ لاہور میں اسکولوں میں اسموگ کی وجہ سے تعطیل دینا پڑی۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ فضائی آلودگی سے لاہور چڑیا گھر کے چرند پرند بھی بیمار پڑ گئے ہیں۔ لاہور چڑیا گھر کی انتظامیہ نے جانوروں کی خوراک میں منرل، وٹامنز اور ایسی ادویات شامل کی ہیں جن سے قوت مدافعت بڑھائی جائے گی۔ پاکستان میں 9کروڑ لوگ غربت کی سطح سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان کو دو وقت کی روٹی نصیب نہیں ہوتی وہ منرل، وٹامنز اور قوت مدافعت بڑھانے والی ادویات کہاں سے خریدیں؟

تازہ ترین