• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

والد کا شکریہ مجھے دُکان دار نہیں بنایا، امجد اسلام امجد

عکاسی: عرفان نجمی

امجد اسلام امجد معروف شاعر، ڈراما نگار، مترجّم، کالم نویس اور گیت نگار ہیں۔ اُن کا تخلیقی سفر نصف صدی سے زاید عرصے پر محیط ہے۔ اُنہوں نے اُردو ادب کو 70سے زاید کُتب اور ٹیلی ویژن کو ’’وارث‘‘ (1979ء) ’’فشار‘‘، ’’انکار‘‘، ’’دہلیز‘‘ اور’’ سمندر‘‘ (1983ء) جیسے درجنوں یادگار ڈرامے دیئے۔ 75سالہ امجد اسلام امجد کو اُن کی ادبی خدمات پر ستارۂ امتیاز (1981ء) اور پرائیڈ آف پرفارمنس (1987ء) مل چُکے ہیں، جب کہ مختلف اداروں کی طرف سے ملنے والے ایوارڈز کی تعداد 37ہے۔ 

اُنہوں نے اپنے کیریئر کی ابتدا 1968ء میں گورنمنٹ ایم اے او کالج، لاہور سے بطور لیکچرار کی، جس کے بعد ڈیپوٹیشن پر مختلف سرکاری عُہدوں پر فائز رہے، جن میں ڈپٹی ڈائریکٹر، پنجاب کاؤنسل آف آرٹس (1975ء سے 1979ء)، ڈائریکٹر جنرل اُردو سائنس بورڈ (1997ء تا 1999ء ) اور پراجیکٹ ڈائریکٹر، چلڈرن لائبریری (2000تا 2004ء) جیسے مناصب شامل ہیں۔ 

2008ء میں ڈائریکٹر پنجاب ٹیکسٹ بُک بورڈ کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ اُن کی تخلیقات کا سفر 1974ء میں شاعری کے پہلے مجموعے ’’برزخ‘‘ سے شروع ہوا اور آج بھی جاری ہے۔ 

گزشتہ دنوں امجد اسلام امجد سے ایک خصوصی تفصیلی نشست ہوئی، جس میں اُن کے فن اور شخصیت کے بہت سے دِل چسپ، خُوب صورت گوشے آشکار ہوئے، جو یقیناً جنگ، سنڈے میگزین کے قارئین کے لیے بھی دِل چسپی کا باعث ہوں گے۔

والد کا شکریہ مجھے دُکان دار نہیں بنایا
نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے

س: اپنے خاندانی پس منظر کے بارے میں کچھ بتائیے۔

ج:میرے آباؤ اجداد کا تعلق سیال کوٹ سے تھا۔ وہ دست کاری کے پیشے سے وابستہ تھے اور یہ سلسلہ نسل درنسل چلا آ رہا تھا۔ ہمارے یہاں تعلیم سے زیادہ ہنرمندی پر توجّہ دی جاتی تھی۔ 1930ء کے آس پاس میرے دادا، قطب الدّین لاہور منتقل ہو گئے اور یہاں لکڑی، لوہے کا کارخانہ لگالیا۔ 

اُن کے 6بچّے تھے اور سب ہی کاروبار سے وابستہ تھے۔1960 ء میں میرے والد، محمّد اسلام بھی لاہور شفٹ ہو گئے اور برانڈرتھ روڈ پر، جو اُس وقت’’ کیلے والی سڑک‘‘ کہلاتی تھی، ہارڈویئر ٹُولز کا کاروبار شروع کر دیا۔ یہاں یہ بتا دوں کہ بزنس کے حوالے سے میرے والد کوئی اتنے زیادہ خوش حال نہیں تھے، جتنے میرے چچا تھے۔

س:آپ لاہور میں پیدا ہوئے؟

ج:جی ہاں، مَیں لاہور میں 4اگست 1944 ء کو پیدا ہوا۔ میری چار بہنیں، تین بھائی ہیں اور مَیں سب سے بڑا ہوں۔ ایک بھائی اور ایک بہن اب دنیا میں نہیں رہے۔ خاندانی پیشے کے اعتبار سے تو مجھے بھی بزنس میں آنا چاہیے تھا، لیکن قدرت نے میرے لیے کچھ اور راستے متعیّن کر رکھے تھے۔ 

خاندان میں پڑھائی لکھائی ایک اعتبار سے ممنوع تھی، ایک چچا کے سِوا کسی نے اسکول، کالج کا منہ نہیں دیکھا تھا، لیکن مجھے تعلیم حاصل کرنے کا شوق تھا اور مَیں والد صاحب کا شُکر گزار ہوں کہ اُنہوں نے بھی میرے فیصلے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی۔ خاص طور پر اس صُورتِ حال میں کہ اُن کے سات بچّے تھے اور مالی طور پر بھی کوئی زیادہ آسودگی نہیں تھی، لیکن پھر بھی اُنہوں نے مجھے دُکان دار نہیں بننے دیا۔

س :کس اسکول میں داخلہ لیا ؟

ج:ہمارے گھر کے نزدیک ہی مسلم ماڈل ہائی اسکول تھا، جو اُس وقت لوئر مڈل کلاس کے طلبہ کی ایک بڑی درس گاہ تھی۔ فیس بھی زیادہ نہ تھی اور اساتذہ بھی طلبہ کو اپنے بچّے سمجھ کر پڑھاتے تھے۔ لالچ کا نام ونشان تک نہ تھا۔ میٹرک تک یہی اسکول میرا اوڑھنا بچھونا رہا، جس کے در و دیوار آج بھی میرے ذہن پر نقش ہیں ۔

والد کا شکریہ مجھے دُکان دار نہیں بنایا
اہلیہ، بیٹے، بیٹیوں اور دیگر کے ساتھ گروپ فوٹو

س:بچپن کی کچھ خاص یادیں…؟؟

ج:یہی درس گاہ تھی، جس نے بعدازاں میری زندگی کے راستے متعیّن کیے۔یوں تو یادوں کا ہر جھروکہ ایک نئے منظر کی نقاب کشائی کرتا ہے، لیکن دو یادیں ایسی ہیں، جنھوں نے میری زندگی کا رُخ طے کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ایک تو میری خالہ ہیں، جو بے چاری دو سال کی عُمر میں کسی بیماری کے سبب نابینا ہو گئی تھیں۔ اُنہوں نے زندگی کے مہ وسال تاریکیوں میں گزار دیئے، لیکن اکیلا انسان آخر کب تک تنہائیوں سے لڑے۔ 

اُنہوں نے وقت گزارنے کے لیے بچّوں کو اپنے ارد گرد جمع کرنے کا فن سیکھ لیا تھا اور وہ فن تھا، کہانیاں سُنانے کا۔ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں داستان گوئی کا ملکہ عطا کیا تھا۔ مَیں بھی گھر اور محلّے کے اُن بچّوں میں شامل تھا، جو رات کو اُن سے کہانیاں سُنتے تھے۔ مَیں اُن دنوں چَھٹی، ساتویں میں پڑھتا تھا اور میرے اندر، لاشعور کے اَن دیکھے گوشوں میں چُھپا لکھاری، لکھنے لکھانے کے لیے مچل رہا تھا۔ 

مَیں اسکول کی بزمِ ادب کا سرگرم رُکن تھا۔ تو مَیں کرتا یہ کہ رات کو خالہ سے جو کہانی سُنتا، صبح بزمِ ادب میں سُنا دیتا اور کلاس فیلوز ہی نہیں، استاد بھی داد دیتے کہ’’ واہ! کیا ذہن پایا ہے۔‘‘ حتیٰ کہ ایک استاد نے تو میرا نام ہی ’’کہانیوں کی مشین‘‘ رکھ دیا تھا۔ 

یہ سلسلہ کئی سال چلتا رہا۔ بعدازاں مجھے اس کا فائدہ اُس وقت پہنچا، جب ہمارے ہیڈماسٹر، ایم اے عزیز صاحب نے(ڈاکٹر محبوب الحق، ماہرِ معاشیات کے والد) مجھے اسکول کے رسالے’’نشانِ منزل‘‘کا ایڈیٹر بنا دیا۔ شاید اُنہوں نے بھانپ لیا تھا کہ میرے اندر ایک لکھاری چُھپا ہوا ہے اور پھر اسکول کا وہ رسالہ ہی میری زندگی کی منزل کا نشان بن گیا۔ مجھے احساس ہوگیا کہ شعروادب ہی میرے لیے راحتِ جاں ہے۔

س:والد صاحب کا ردّ ِعمل کیا تھا؟ خوش تو ہوتے ہوں گے؟

ج:وہ زیادہ پڑھےلکھے نہیں تھے، بس اخبار وغیرہ پڑھ لیتے تھے، لہٰذا اُن کا ردّ عمل واجبی سا ہوتا، لیکن بالواسطہ طور پر میرے ادبی ذوق کا پودا انھوں نے ہی لگایا، جس کا احساس شاید اُنہیں خود بھی نہ ہو۔ وہ وقت گزاری کے لیے اکثر جاسوسی ناول پڑھا کرتے تھے، کبھی کبھی آنہ لائبریری سے مزاح نگار، کرنل شفیق الرحمن کی کتابیں اور ابنِ صفی کے ناول منگواتے۔ 

کتابیں لانا اور واپس کرنا میری ذمّے داری تھی، یہیں سے مجھے بھی کتابیں پڑھنے کا چسکا پڑ گیا اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ جب ابنِ صفی کا جاسوسی ناول لاتا، تو گھر تک کے دس پندرہ منٹ کے راستے میں 112صفحے کا ناول سڑک پر چلتے چلتے ہی پڑھ لیتا۔ 

اس طرح میں جاسوس تو نہ بن سکا، مگر اس کا فائدہ یہ ہوا کہ میری مطالعے کی عادت پختہ ہو گئی اور میرے اندر کے قلم کار کو بھی حوصلہ ملا۔ والد صاحب دو سال پہلے 95برس کی عُمر میں انتقال کر گئے۔ مجھے اطمینان ہے کہ اُنہوں نے میری کام یابیوں کو بچشم خود دیکھا۔ والدہ 2000ء میں فوت ہوئیں۔

والد کا شکریہ مجھے دُکان دار نہیں بنایا
پوتوں ،موسیٰ ذی شان اور ابراہیم ذی شان کے ساتھ

س:آپ اکثر اسکول کے زمانے کے آقا بیدار بخت کا بھی ذکر کرتے ہیں؟

ج:جی، جی۔ خالہ کی کہانیوں اور والد صاحب کے منگوائے گئے جاسوسی ناولز نے میرے ادبی ذوق کے لیے مہمیز کا کام کیا، لیکن وہیں ایک تیسرے فرد کا بھی بڑا عمل دخل ہے اور وہ ہیں ،آقا بیدار بخت صاحب۔ اُن دنوں ہم فلیمنگ روڈ پر رہتے تھے اور بیدار صاحب بھی وہیں مقیم تھے۔ وہ ایک اچھے وکیل تھے۔ 

اُنہوں نے محلّے میں طلبہ کے لیے ایک اکیڈمی کھول رکھی تھی، جس کی لائبریری میں سیکڑوں کُتب تھیں۔ مَیں اُن سے اکثر ملتا، کتابوں میں میری دِل چسپی دیکھ کر وہ اتنے متاثر تھے کہ اُنہوں نے اپنی بیگم سے کہہ رکھا تھا کہ مَیں جو بھی کتاب مانگوں، مجھے انکار نہ کیا جائے۔ 

یوں دسویں جماعت تک مَیں نے اُس دَور کے تمام نام وَر شعرائے کرام، بالخصوص اُردو ادب کے کلاسک شعراء میر تقی میر، مومن، غالب وغیرہ کو پڑھ لیا تھا۔ یوں ادبی ذوق کا جو پودا میرے اندر جڑ پکڑ چُکا تھا، وہ اُن کتب کے ذریعے ہونے والی آب یاری سے مزید پروان چڑھنے لگا۔

س : کیا آپ واقعی شاعر یا ادیب ہی بننا چاہتے تھے؟

ج:شعرو شاعری اور کتب سے تو لگاؤ تھا ہی اور یہ بیش تر طلبہ کو ہوتا ہے، بالخصوص جہاں ہمارے زمانے میں ہر کلاس میں بزمِ ادب ہوا کرتی تھی(جو اب ماضی کا حصّہ بن چُکی ہیں)، لیکن سچ پوچھیں، تو میں اندر سے کرکٹر بننا چاہتا تھا۔ مَیں اپنے اسکول کی کرکٹ ٹیم کا کپتان تھا اور آگے چل کر بھی کرکٹ کو بطورِ کیریئر اپنانا چاہتا تھا۔

میٹرک کے بعد اسلامیہ کالج، ریلوے روڈ میں داخلہ لیا اور بعدازاں اسلامیہ کالج، سِول لائنز سے بی اے کیا۔ اس دوران کرکٹ، شعروشاعری اور ادب ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ اس اعتبار سے آپ مجھے دو کشتیوں کا سوار کہہ سکتے ہیں۔ 

میں یہ فیصلہ کرنے سے قاصر تھا کہ ادب اور شاعری کی صحرا نوردی کروں یا کرکٹ کے میدان کا انتخاب۔ کیوں کہ کرکٹ کے میدان میں بھی میرا کیریئر شان دار تھا۔ جب اسلامیہ کالج میں داخل ہوا، تو مَیں اُس ٹیم میں شامل تھا، جس نے 12سال بعد گورنمنٹ کالج کی ٹیم کو ہرایا تھا، حالاں کہ گورنمنٹ کالج کی ٹیم میں سلیم الطاف اور شفقت رانا جیسے ٹیسٹ کرکٹر شامل تھے۔ کرکٹ میں میری کارکردگی ہر لحاظ سے اچھی تھی اور مَیں کپتان بننے کے خواب دیکھ رہا تھا۔

والد کا شکریہ مجھے دُکان دار نہیں بنایا
والد محمّد اسلام کے ساتھ ایک یادگار تصویر

س:لیکن دو کشتیوں کا سوار تو ہمیشہ نقصان میں رہتا ہے۔ آپ کے ساتھ کیا ہوا؟

ج:وہ جو کہتے ہیں کہ’’ آرزوئیں، خواہشات انسان کے دِل میں پَلتی رہتی ہیں، لیکن آخری فیصلہ وقت ہی صادر کرتا ہے‘‘، میرے ساتھ بھی یہی ہوا۔ دو واقعات ایسے ہوئے کہ مجھے ایک کشتی کا انتخاب کرنا پڑا۔ ہوا یہ کہ یونی ورسٹی کرکٹ ٹیم کے لیے کھلاڑیوں کا انتخاب ہو رہا تھا اور مجھے اُس وقت شدید دھچکا لگا، جب معلوم ہوا کہ میری جگہ سی ایس پی افسر کے ایک سفارشی بیٹے کو رکھ لیا گیا ہے، حالاں کہ وہ کارکردگی میں مجھ سے کہیں کم تر تھا۔ 

مَیں سخت مایوسی کا شکار تھا کہ اسی دوران بی اے کا رزلٹ آ گیا۔ مَیں اُردو میں فرسٹ آیا تھا، جس کی بنیاد پر مجھے اسکالر شپ بھی مل گئی اور یہ اسکالر شپ اچھی خاصی تھی۔ یونی ورسٹی کی فیس تو 12روپے تھی، جب کہ وظیفہ 50روپے تھا۔ اس وظیفے نے کرکٹ سے علیٰحدگی پر مُہر ثبت کر دی، کیوں کہ اگر مَیں اورنٹیل کالج میں ایم اے اُردو کے لیے داخلہ لیتا، تو یونی ورسٹی کی کرکٹ ٹیم میں نہیں کھیل سکتا تھا۔ 

اِسی دوران آقا بیدار بخت نے بھی مجھے ایم اے اُردو کرنے کا مشورہ دیا، اُن کا مشورہ بھی ٹال نہیں سکتا تھا، سو ایم اے اُردو میں داخلہ لے لیا۔ یہی میری زندگی کا فیصلہ کُن موڑ تھا اور مَیں سمجھتا ہوں کہ یہی میری زندگی کا بہترین فیصلہ بھی تھا۔ اگر کرکٹ جوائن کر بھی لیتا، تو ٹاپ لیول کھلاڑی نہیں بن سکتا تھا۔ عینک اُس زمانے میں بھی لگایا کرتا تھا اور جسمانی ساخت بھی کھیل کے لیے واجبی تھی۔

س: اُس وقت آپ کا تخلیقی سفر کس مرحلے میں تھا؟

ج: میری نظمیں، غزلیں اور تحریریں شمع، قندیل، چٹان، ماہ نامہ چاند میں چَھپتی تھیں اور خوشی اِس بات کی تھی کہ اُنہیں پذیرائی بھی مل رہی تھی۔ غزل اور نظم (مَیں نے افسانہ نہیں لکھا) میری نیٹ پریکٹس تھی، جو آگے چل کر ادبی میدان میں کام آئی۔ 

اُس وقت تک مَیں ادبی دنیا میں قدم جما چُکا تھا۔ اسلامیہ کالج میں بی اے کے دَوران بزمِ فروغِ اُردو کا سیکرٹری جنرل تھا۔ اس حوالے سے کالج میں کئی مشاعرے منعقد کروائے۔ اُس زمانے میں مجھے احسان دانش، احمد ندیم قاسمی، حفیظ جالندھری، ظہیر کاشمیری، منیر نیازی جیسے بڑے شعراء سے ملاقاتوں کے مواقع ملے۔ اپنی تخلیقات بھی اُنھیں سُنائیں۔

س: شادی کب ہوئی اور کیا اپنی پسند سے کی؟

ج: شادی 23مارچ 1975ء کو ہوئی، جو میری پسند سے ہوئی، تاہم والدین کی مرضی شامل تھی۔ فردوس میری فرسٹ کزن ہیں۔ ہم ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے۔ مَیں نے ہی اُنہیں پروپوز کیا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ اُن کے سامنے اعتراف نہیں کرتا۔ میری دو بیٹیاں روشین عاقب، تحسین ناصر جب کہ ایک بیٹا علی ذیشان ہے، تینوں ماشاء اللہ شادی شدہ ہیں۔ 

علی کے دو بیٹے 9سالہ ابراہیم اور 6سالہ موسیٰ ہیں۔ویسے میرے کُل 9پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں ہیں۔ میری ایک بیٹی معروف مزاحیہ شاعر، انور مسعود کی بہو ہیں۔ اُنہوں نے چار بچّوں کے بعد ایم فِل کیا ہے۔ دوسری بیٹی نے ایم اے سائیکالوجی کیا ہے۔

شادی کا دن تو ویسے بھی کوئی نہیں بھولتا، لیکن مَیں تو اِس لیے بھی نہیں بھول سکتا کہ اسی دن یومِ پاکستان کے حوالے سے میرا ڈراما’’خواب جاگتے ہیں‘‘ پی ٹی وی سے ٹیلی کاسٹ ہوا اور اُسے ایوارڈ بھی ملا۔ بعد ازاں، آنے والے 25برسوں میں مجھے 16مرتبہ یہ ایوارڈ ملا، جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔

س:غالباً ایم اے اُردو کے بعد آپ کی ادبی زندگی کا ایک نیا دَور شروع ہوا؟

ج:بالکل بجا۔ مَیں نے ایم اے اُردو میں اوّل پوزیشن حاصل کی اور پندرہ بیس دنوں میں بطور لیکچرار ملازمت بھی مل گئی۔ میری پہلی تقرّری اسلامیہ کالج، ریلوے روڈ میں ہوئی، لیکن بعد ازاں مَیں نے ریگولر سرکاری ملازمت کے طور پر ایم اے او کالج کو ترجیح دی۔ یہ 1975ء کا زمانہ تھا، مَیں لیکچرار تھا، لیکن پنجاب آرٹس کاؤنسل میں، جو اُن دنوں نئی نئی بنی تھی، مجھے ڈپٹی ڈائریکٹر کے طور پر اگلے اسکیل(18ویں) میں ڈیپوٹیشن پر تعیّنات کردیا گیا۔ 

مَیں نے معذرت بھی کی تھی، جس پر سلیکشن بورڈ والوں کو حیرت ہوئی۔ مجھے تو اُس وقت 17ویں اور 18ویں گریڈ کا فرق بھی معلوم نہ تھا۔ یہ ایک دفتری کام تھا اور ریڈیو والے، سجّاد اظہر صاحب میرے باس تھے۔ کئی ماہ بعد جب مجھے پتا چلا کہ میری کئی دفتری غلطیوں کو وہ خود ٹھیک کر دیتے ہیں، تو مَیں نے اُن سے اِس کی وجہ پوچھی، کہنے لگے’’ بیٹا! مجھے پتا تھا کہ تمہاری نیّت ٹھیک ہے، دفتری غلطیاں تو ہوتی رہتی ہیں۔‘‘ سوچتا ہوں کہ ایسے لوگ آج کل کہاں ملتے ہیں۔

س:سرکاری ملازمت نے تخلیقی سرگرمیوں پر منفی اثرات تو مرتّب نہیں کیے؟ 

ج:ادیب اور قلم کار کا قلم کبھی نہیں رُکتا، رُک جائے تو زنگ آلود ہو جاتا ہے۔ اس دوران میری تخلیقات شائع ہوتی رہیں اور مجموعے بھی منظرِ عام پر آتے رہے، لیکن ٹی وی کے دروازے 1973ء میں وا ہوئے، جب میرا پہلا ڈراما آن ائیر ہوا۔ دِل چسپ بات یہ ہے کہ مَیں نے ٹی وی کے لیے 1968ء میں مزاح نگار، اطہر شاہ خان (جیدی) کے کہنے پر ڈراما لکھا، اُن کا کہنا تھا کہ جیسے مَیں باتیں کرتا ہوں، لکھتا ہوں، اس سے پتا چلتا ہے کہ میرے اندر ڈراما لکھنے کی Senseموجود ہے۔ 

اصل میں ڈراما نگاری کے میدان میں مجھے دھکا دینے والے بھی وہی تھے، لیکن بوجوہ یہ ڈراما پی ٹی وی سے ٹیلی کاسٹ نہ ہو سکا اور آپ کو یہ سُن کر حیرت ہو گی کہ اگلے 5سال کے دوران مَیں نے پی ٹی وی پر ڈراما لکھنے کی بھرپور کوشش کی، لیکن میری کوئی تحریر قبول نہیں کی گئی۔ 

البتہ 1965ء میں تھوڑی سی حوصلہ افزائی ضرور ہوئی، جب جنگِ ستمبر کے دوران میرا ایک ترانہ ٹیلی کاسٹ ہوا اور مجھے اُس کا معاوضہ مبلغ 12روپے چیک کی صُورت ملا۔ اِسے آپ میری پہلی ادبی کمائی بھی کہہ سکتے ہیں،جب کہ پہلی پروفیشنل کمائی، بطور لیکچرار ملنے والا معاوضہ تھا۔

س:ٹی وی پر تحریر قبول نہ ہونے کا دُکھ تو ہوا ہوگا؟

ج:اصل میں اُس وقت پورے مُلک میں ایک ہی ٹی وی چینل اور لکھنے والے بہت تھے، جن میں بڑے بڑے نام شامل تھے۔ اشفاق احمد، بانو قدسیہ، احمد ندیم قاسمی، حمید کاشمیری، مُنّو بھائی، اطہر شاہ خان اور کمال احمد رضوی جیسے ڈراما نگاروں کی ایک پوری کہکشاں تھی۔ ایسے میں کسی نو وارد کے لیے جگہ بنانا مشکل ہی نہیں، ناممکن تھا۔ اسی تگ و دو میں 5سال لگ گئے۔ پھر 1973ء میں پی ٹی وی نے نئے ڈراما نگاروں کے لیے’’ پہلا کھیل‘‘ کے نام سے ایک سیریز شروع کرنے کا اشتہار دیا۔ 

مَیں تو مایوس تھا کہ مجھے تو کوئی رائٹر ہی نہیں مان رہا، مگر ایک ڈراما لکھ کر بھیج دیا، جو نہ صرف قبول ہوا، بلکہ اُس نے اوّل پوزیشن حاصل کی۔ ’’آخری خواب‘‘ نام کے اس ڈرامے میں نیّر کمال، خالد سعید بٹ نے اداکاری کی، جب کہ ڈائریکٹر صلاح الدّین تھے، جو بعد میں مشرقی پاکستان چلے گئے۔ پھر 1974ء میں پی ٹی وی سے خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے ایک سیریز’’ حوّا کے نام‘‘ شروع ہوئی۔ 

اُس کے لیے مَیں نے’’ برزخ‘‘ اور’’ موم کی گڑیا‘‘ کے نام سے دو ڈرامے لکھے، جن کے ڈائریکٹر غفران امتیازی اور یونس منصور تھے۔ معاونت ساحرہ کاظمی نے کی، جو نئی نئی اس فیلڈ میں داخل ہوئی تھیں۔ ان ڈراموں کے ٹیلی کاسٹ ہونے کے بعد میرا خیال تھا کہ پی ٹی وی، لاہور کے دروازے مجھ پر کُھل جائیں گے، لیکن کسی نے لفٹ نہیں کروائی۔ 

اس دوران کنور آفتاب لاہور آگئے، وہ 23مارچ کے حوالے سے کسی ڈراما نگار کی تلاش میں تھے۔ غالباً جی ایم صلاح الدّین کے مشورے پر اُنہوں نے مجھ سے رابطہ کیا۔ کنور آفتاب بطورِ شاعر مجھے پسند کرتے تھے، مگر وہ ذرا اکھڑ مزاج تھے، صاف کہہ دیا’’بھائی یہ دیکھ لو۔ ڈراما ٹھیک نہ ہوا، تو مَیں نے ردّی کی ٹوکری میں پھینک دینا ہے۔‘‘ 

مجھے اُس وقت تو بُرا لگا، لیکن پھر چیلنج کے طور پر قبول کرلیا اور پھر اُنہوں نے نہ صرف میرا ڈراما پاس کیا، بلکہ ڈراما نگاری کے بعض ایسے اسرار ورموز بھی بتائے، جو میرے لیے بہت مفید ثابت ہوئے۔ یہ سلسلہ چلتا رہا، لیکن میرے لیے ٹرننگ پوائنٹ ریاض بٹالوی کے فیچرز پر مبنی ڈراما سیریز’’ ایک حقیقت، ایک فسانہ‘‘ ثابت ہوئی۔ 

اس سیریز کے لیے موصول ہونے والے درجنوں ڈراموں میں سے جو منتخب ہوئے، اُن میں سے 4میرے تھے۔ 50منٹ دورانیے کی یہ ٹی وی سیریز ناظرین میں بے حد مقبول ہوئی اور مجھے یوں لگا کہ آخر برسوں کی جدوجہد کے بعد بالآخر بعد میرے پیر بھی جم ہی گئے۔

س: ’’وارث‘‘ بھی تو آپ کے ڈراما نگاری کے کیریئر میں سنگِ میل ثابت ہوا، جسے پُرانی نسل کے لوگ اب تک نہیں بھولے۔

ج:جی، جی۔ اس کی کہانی بھی خود ڈراما وارث کی طرح ڈرامائی ہے۔ یہ 1979ء کی بات ہے۔ اُس وقت مُلک بھر میں پی ٹی وی کا طوطی بول رہا تھا۔ پروڈیوسرز ڈراموں کے آئیڈیاز لے کر جنرل منیجر کانفرنس اسلام آباد جاتے اور منظوری کے بعد اس پر عمل کرتے۔ اُن دنوں 25منٹ دورانیے کا ایک ڈراما سیریل منظور ہوا۔مگر ہوا یہ کہ جس ڈراما نگار کا نام تجویز ہوا تھا، اُس نے کسی وجہ سے انکار کر دیا۔ 

اب پی ٹی وی پر ہلچل مچی ہوئی تھی کہ جی ایم کانفرنس سر پر ہے۔ اُن کی نگاہ مجھ پر پڑی۔ اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں، مَیں تو موقعے کی تلاش میں تھا، سو ہاں کر دی۔ یوں ابتداً 25منٹ دورانیے کا ڈراما سیریل’’ وارث‘‘ شروع ہوا، مگر ابتدائی سات اقساط ہی میں یہ عوام میں اتنا مقبول ہوا کہ دورانیہ 50منٹ کرنا پڑگیا۔

س:اس کا آئیڈیا کیسے ذہن میں آیا؟

ج:’’وارث‘‘ شروع تو جلدی میں کیا، لیکن اس کا آئیڈیا بہت پہلے سے میرے ذہن میں موجود تھا۔ بنیادی طور پر یہ ڈراما جاگیرداری نظام کے گرد گھومتا ہے اور پنجاب ہو یا سندھ، سب جانتے تھے کہ یہ نظام کیا ہوتا ہے۔ یاور حیات اس کے پروڈیوسر تھے۔ وہ خان پور کے رہنے والے تھےاور اکثر مجھے وہاں کی جاگیردارانہ ذہنیت کی کہانیاں سُناتے رہتے تھے۔ 

اُن سے بھی ڈرامے کے کرداروں کی تشکیل میں مدد ملی، لیکن جہاں تک مرکزی خیال کا تعلق ہے ،یہ کوئی ایک دن کا کام نہیں تھا، کہانی کا تانا بانا برسوں کے مطالعے، مشاہدے اور تجربے کے بعد بُنا گیا۔ مثلاً کالج کے زمانے میں چینی اور روسی رسائل پڑھنے کا موقع ملا۔ 

ان رسائل میں کمیونزم اور سوشلزم کا پرچار بھی شامل ہوتا تھا اور تھرڈ ورلڈ اس سے متاثر ہو رہی تھی۔ دوسرے لوگوں نے نہ جانے اس لٹریچر کو کس انداز سے دیکھا، لیکن میری سوچ بدل گئی۔ یہ بات نہیں کہ مَیں کمیونسٹ ہوگیا، بس میری سوچ میں وسعت پیدا ہو گئی، جو برٹش انڈیا نے ایک مخصوص زاویئے سے ہم پر مسلّط کی تھی۔ برٹش انڈیا کے لوگ صرف اُس کھڑکی سے دیکھتے تھے، جو اُن کے سامنے کُھلی تھی۔ 

جب کہ چین اور روس کا لٹریچر ہمیں کوئی اور ہی دنیا دِکھاتا تھا اور پتا چلتا تھا کہ برطانیہ کے علاوہ ایک اور دنیا بھی ہے۔ پھر جب یونی ورسٹی میں زیرِ تعلیم تھا، تو وہاں جاگیرداروں، وڈیروں اور بڑے زمین دار گھرانوں کے مغرور، اکّھڑ صاحب زادوں سے ملنے کا بھی موقع ملا۔ 

اس طرح وڈیروں، جاگیرداروں کی ذہنیت کے کئی پہلو سامنے آئے، جس کا نمائندہ، ڈرامے کا مرکزی کردار حشمت خان تھا۔ بہرحال، ڈراما جو اس قدر مقبول ہوا، تو یہ اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی تھی۔ پھر’’ وارث‘‘ کی چینی زبان میں ڈبنگ ہوئی اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ ڈرامے کے وقت گلیاں سُنسان ہو جاتی تھیں، تو اس میں ہرگز مبالغہ آرائی نہیں۔

س: ’’وارث‘‘ کے بعد تو آپ کی مانگ بہت بڑھ گئی ہوگی؟

ج : ’’وارث‘‘ 1980 ء میں ہِٹ ہوا اور واقعی اس کے بعد ڈراما لکھوانے والوں کی لائن لگ گئی، لیکن مَیں نے معذرت کی، کیوں کہ مَیں کوالٹی کا قائل ہوں۔ اگر مشین بن جاتا، تو بہت جلد زوال کا شکار ہو جاتا۔ مَیں ہمیشہ اپنے ڈراموں کے درمیان گیپ دیتا ہوں۔ 

پہلے 6ماہ تو مکمل ریسٹ کرکے انجوائے کرتا ہوں۔ پھر 6ماہ بعد کوئی نیا آئیڈیا سوچتا ہوں، جسے مکمل ہوتے اور پھر لکھتے لگ بھگ سال لگ جاتا ہے۔ اس لیے میرے ڈراموں میں کم از کم دو سال کا وقفہ ضرور ہوتا ہے۔ ویسے ڈراما نگاری کے حوالے سے وہ میرا دورِ عروج تھا۔مجھے 1980ء 1984ء ، 1998ء، 1999ء اور 2001ء میں پی ٹی وی کے بہترین ڈراما نگار کے ایوارڈ ملے۔

س : پھر آپ نے ٹی وی کے لیے لکھنا کیوں چھوڑ دیا؟

ج: مَیں نے 1980ء سے2000 ء تک 9سیریل لکھے اور ہر سیریل میں دو سال کا وقفہ ہے۔ 2000ء میں ٹی وی کے لیے آخری ڈراما لکھا اور 2019ء تک تقریباً خاموش رہا۔مگر اس دوران دوسرا تخلیقی سفر جاری رہا۔ میرے شعری مجموعوں، کالمز، سفرناموں، تراجم اور ڈراموں پر مبنی کتب کی تعداد70 تک پہنچ گئی ہے۔ بیرونِ مُلک مشاعروں، اندرونِ مُلک تقریبات میں شرکت کرتا ہوں، بیوی بچّوں، نواسے نواسیوں اور پوتے پوتیوں کو پورا وقت دیتا ہوں۔ بس زندگی بہت مزے میں گزر رہی ہے۔

س : کہیں ایسا تو نہیں کہ آج کل کے ٹی وی ڈراموں سے آپ مایوس ہیں؟

ج : بلاشبہ، آج کل ٹی وی ڈراموں کا جو جمعہ بازار لگا ہوا ہے، جس میں ہر قسم کا مال دست یاب ہے، تو مَیں ان سے بہت مایوس ہوں۔ اس میں شک نہیں کہ ڈراما انڈسٹری نے فنی طور پر خاصی ترقّی کرلی ہے۔ جدید ترین آلات ہیں، پریزنٹیشن اچھی ہے۔ فنی لحاظ سے بھی ڈراما بہت بہتر ہوا ہے، لیکن مَیں ان ڈراموں کے مواد (CONTENT) سے مطمئن نہیں۔ 

بیش تر ڈرامے طلاق، ازدواجی جھگڑوں، ناجائز تعلقات، کُھلے بندوں فرینڈشپ، ضرورت سے زیادہ آزاد، فیشن ایبل ماحول، اعلیٰ اخلاقی اقدار کی پامالی، خاندانی نظام کی زبوں حالی، اولاد کی سرکشی، انسانی رشتوں کی بدحالی جیسے موضوعات ہی پر مبنی ہوتے ہیں۔ اہلِ خانہ، بہن بھائیوں کے ساتھ تو دُور، بعض ڈرامے تو میاں ،بیوی بھی اکٹھے بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتے۔ مانا کہ چند ڈرامے اصلاحی بھی ہوتے ہیں، لیکن مَیں اکثریت کی بات کررہا ہوں، جن میں صرف اور صرف گلیمر ہی ملے گا۔

س : ڈراموں میں تو آپ نے معاشرتی مسائل کی بھرپور عکّاسی کی۔ شاعری میں بارش، محبّت اور عشق…تو یہ کیا چکّر ہے؟

ج: ایک قلم کار حسّاس دِل کا مالک ہوتا ہے اور ایک شاعر تو اپنے اطراف کے ماحول سے متاثر ہوئے بغیر رہ ہی نہیں سکتا۔ موسم کی رنگینیاں خاص طور پر اُسے اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہیں۔ اور جہاں تک عشق، محبّت کا تعلق ہے، تو میرا خیال ہے، ان سے بھی کوئی مبرّا نہیں۔

ہاں البتہ محبّت کے رنگ ڈھنگ بدلتے رہتے ہیں۔ جیسا کہ یوسفی صاحب نے کہا تھا’’ایک عُمر ایسی ہوتی ہے کہ ہمیں درختوں میں بھی لڑکیاں نظر آتی ہیں، پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ لڑکیوں میں بھی درخت نظر آتے ہیں۔‘‘ تو محبّت گزرتے وقت پر محیط ہے۔ یہ محبوبہ، بیوی، پھر بیوی بچّوں اور بالآخر پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں میں تقسیم ہو جاتی ہے۔

س : کہتے ہیں کہ اپنے بچّوں سے زیادہ بچّوں کے بچّے اچھے لگتے ہیں، کیا واقعی ایسا ہے؟

ج: بالکل ایسا ہی ہے اور اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت کا وقت تو ایک جہدِ مسلسل کا ہوتا ہے،لاکھوں چیلنجز درپیش ہوتے ہیں۔ نہ دن کا ہوش ہوتا ہے، نہ رات کا، قدرتی طور پر ہم بیوی، بچّوں کو کم توجّہ دے پاتے ہیں۔ پھر جب ریٹائرمنٹ یا نسبتاً فرصت کے لمحات میّسر آتے ہیں اور سامنے پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں ہوتے ہیں، تو پھر ہم اُنھیں وہ محبّت اور پیار دیتے ہیں(بلکہ امانت لوٹاتے ہیں) جو ہم اپنے بچّوں کو نہیں دے پائے ہوتے۔

س: آپ کو ان کے ساتھ وقت گزارنے میں مزہ آتا ہے؟

ج: کچھ نہ پوچھیں۔ دراصل آج کل کے بچّے ایک بدلے ہوئے زمانے کے’’لوگ‘‘ ہیں۔ ان کی یہ دنیا ہی نئی ہے۔ مَیں اپنے دادا کے کمرے میں جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا، حالاں کہ وہ بہت پیار کرتے تھے، مگر آج میرا پوتا دھڑلّے سے کمرے میں داخل ہو کر کہتا ہے’’ یار دادا! انگلینڈ کب جا رہے ہیں۔ 

میرے لیے چاکلیٹس اور ٹافیاں ضرور لانا۔‘‘ ابھی دو ہفتے پہلے انگلینڈ میں تھا، تو میرے بیٹے علی نے موسیٰ کی مجھ سے بات کروائی۔ اُس نے پوچھا’’ دادا! چاکلیٹس اور بنٹیز کا انتظام ہو گیا ہے ناں۔‘‘ اُس سے بڑے نے کہا ’’دادا آپ نے چاکلیٹ کی سب سے بڑی دُکان پر جانا ہے اور اُسے لُوٹ لینا ہے۔‘‘ مَیں نے بھی کہا’’ بالکل، بالکل۔ تم فکر نہ کرو۔ یہی کروں گا۔‘‘اب آپ بتائیں، اس سے زیادہ خوشی کے اور لمحات کیا ہو سکتے ہیں۔ لیکن جس واقعے کو مَیں نے سب سے زیادہ انجوائے کیا، وہ بتاتا ہوں۔ 

جب میرے ملاقاتی آتے ہیں، تو 9سالہ ابراہیم یہاں تک نوٹ کرتا ہے کہ مَیں نے کس مہمان کی کتنی مدارت کی، چائے کس کے ساتھ پیتا ہوں، کس کو کتنا وقت دیتا ہوں۔ ایک بار چند مہمان آئے، تو مَیں نے اُسے موبائل دے دیا اور کہا’’بیٹا! اس سے تھوڑی دیر کھیلو۔ مَیں ذرا بات کر لوں۔‘‘ مہمانوں سے گپ شپ ذرا لمبی ہو گئی، تو وہ میرے پاس آیا اور چُپکے سے کان میں کہنے لگا’’دادا !لگتا ہے، یہ چائے پی کر ہی جائیں گے۔‘‘ تو ایسے معصومانہ جملے آپ کو دوبارہ کب سُننے کو ملیں گے۔

س: بیگم کے کس حد تک ممنون ہیں؟

ج:زندگی کی کام یابی میں رفیقۂ حیات، فردوس کا بھرپور کردار ہے۔ جن دنوں زندگی کی سخت ترین جدوجہد کر رہا تھا، اُس وقت بیوی نے میرا بھرپور ساتھ دیا اور ایسی آسانیاں اور ایسا ماحول پیدا کیا کہ مجھے کوئی دشواری پیش نہ آئی، ورنہ زندگی کے کٹھن مراحل آسانی سے طے نہ کر پاتا۔

س: تو اس سے یہ سمجھ لیا جائے کہ ہر کام یاب مَرد کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتا ہے؟

ج:جی یہ صحیح ہے، لیکن صرف ایک عورت کا ہونا چاہیے۔ البتہ ہر ناکام مَرد کے پیچھے کئی عورتوں کا ہاتھ ہوتا ہے۔

س: جدوجہد اپنی جگہ، کیا دُعا پر بھی یقین رکھتے ہیں؟

ج: دُعا پر سو فی صد یقین ہے، لیکن انسان بڑا بے صبرا واقع ہوا ہے۔ پہلے جدوجہد کرنی چاہیے اور پھر نتیجہ اللہ پر چھوڑ دینا چاہیے۔ انسان اللہ کی رحمت کو اپنے کیلینڈر کے حساب سے ناپتا ہے، جب کہ یہ کیلینڈر اُس کا اپنا ایجاد کردہ ہے اور اللہ زمان و مکاں سے ماورا ہے۔ ہماری دُعا قبول ہونے میں دیر ہو جائے، تو ہم شکوہ کرتے ہیں کہ’’یااللہ! ساڑھے چھے مہینے ہوگئے، دُعا قبول نہیں ہوئی۔‘‘ لیکن یہ تو اللہ ہی جانتا ہے کہ اس عدم قبولیت میں بندے کے لیے کیا مصلحت ہے۔ 

مَیں تو میاں محمّد بخش کے اس شعر کا قائل ہوں کہ؎ ’’مالی دا کم پانی دینا، بھر بھر مشقاں پاوے…مالک دا کم پھل پُھل لانا، لاوے یا نہ لاوے۔‘‘مَیں عالمِ غیب اور قدرت پر سو فی صد یقین رکھتا ہوں کہ ایک اور پُراسرار کائنات ہمارے اردگرد موجود ہے اور اگر ہم اس متوازی لائن میں آ جائیں، تو قدرت خودبخود ہمارے لیے راستے بناتی ہے۔ 

مَیں ذاتی طور پر ربّ ِ کریم کا شُکر گزار ہوں کہ اُس نے آج تک مجھے کسی بڑی آزمائش میں نہیں ڈالا۔ جتنی جدوجہد کی، اُس کا بھرپور صلہ ملا۔ اگرچہ ایک دَور ایسا آیا، جب زیادہ خوش حالی نہیں تھی، لیکن ’’وارث‘‘ کے بعد اس پوزیشن میں آگیا تھا کہ 50ہزار کی سوزوکی کار لے لوں، لیکن مَیں نے ہمیشہ چادر دیکھ کر پاؤں پھیلائے۔ ہم اپنے گڑھی شاہو کے گھر سے 2000ء میں ڈیفینس منتقل ہوئے ہیں۔

س: کیا اولاد میں بھی لکھنے لکھانے کے جراثیم منتقل ہوئے؟

ج: بیٹیاں بھی ماشاء اللہ پڑھاکو ہیں۔ مگر بڑا بیٹا علی ذیشان کسی حد تک اس فیلڈ میں آیا ہے۔ آج کل ڈاکومینٹریز بنارہا ہے۔

س:کوئی خواہش، جو پوری نہ ہوئی ہو؟

ج: اللہ تعالیٰ نے توقّعات سے بڑھ کر دیا ہے۔ میری تمام ذاتی خواہشات تو پوری ہوگئی ہیں، لیکن دِل میں ایک خلش ضرور ہے کہ ہمارے مُلک کو جتنی ترقّی کرنی چاہیے تھی، اتنی نہیں کی۔ غربت اور بنیادی انسانی ضرورتوں صحت، تعلیم وغیرہ سے محرومی کروڑوں پاکستانیوں کے لیے سوہانِ روح ہے۔

س:ماشاء اللہ آپ 70پلس ہوگئے ہیں۔ کیا بڑھاپے سے خوف آتا ہے؟

ج:مَیں اس معاملے میں حقیقت پسند ہوں۔ 30،35سال پہلے ایک چینی دانش وَر کی کتاب پڑھی تھی، جس کا ایک باب ’’خوش گوار بڑھاپا‘‘ تھا۔ جس کا بنیادی نقطہ یہ تھا کہ ہمیں بڑھاپے کو اُسی طرح قبول کرنا چاہیے، جس طرح ہمارے بڑوں نے کیا تھا۔ 

اگر مَیں اس دَور میں وصی شاہ یا رحمان فارس بننے کی کوشش کروں، تو یہ محض میری خوش گمانی ہوگی۔ اس عُمر تک اپنی محنت سے جو حاصل کیا، عزّت، تکریم، خوش حالی، باہمی روابط اور مقبولیت تو اُن کو انجوائے کرنے کا یہی بہترین وقت ہے۔

س: انسان قسمت کو بناتا ہے یا قسمت انسان کو؟

ج:دونوں۔ بندہ قسمت کو بناتا ہے اور قسمت بندے کو۔

س:موسیقی سے لگاؤ ہے؟

ج: جی بالکل۔ یہ شوق ہی تو تھا، جس نے مجھ سے کئی یادگار گیت اور نغمے تخلیق کروائے۔ مجھے فخر ہے کہ میڈم نورجہاں، نصرت فتح علی خان، راحت فتح علی خان، حامد علی خان، جگجیت، غلام علی اور دیگر نے میرے گیتوں کو نغمگی عطا کی۔ ابھی حال ہی میں آشا بھوسلے نے 80سال کی عُمر میں میرا گانا’’مَیں تِرے سنگ کیسے چلوں سجنا‘‘ گایا ہے۔

س: آپ کے دوست اچھے ہیں یا آپ اچھے دوست ہیں؟

ج: بچپن کے دوست زندگی کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ مجھے تو خیر اس کا شروع سے احساس تھا، لیکن جمیل الدّین عالی نے ایک تقریب میں اس پر مہر ثبت کردی۔ اُس فنکشن میں میرے کئی نوجوانی کے دوست بھی موجود تھے اور مجھ سے ہنسی مذاق کررہے تھے، بلکہ سب مل کر میرا’’ ریکارڈ‘‘ لگارہے تھے۔ جمیل الدّین عالی جو یہ سب دیکھ کر خود بھی انجوائے کررہے تھے، کہنے لگے’’ امجد! آج مجھے معلوم ہوا کہ شہرت نے تمہارا دماغ خراب کیوں نہیں کیا۔ 

مجھے پتا ہے کہ شہرت جلد ہضم ہونے والی چیز نہیں۔لیکن تمہارے یہ دیرینہ دوست تمہارا دماغ خراب نہیں ہونے دیتے۔‘‘ اُن کی بات سن کر مجھے حضرت علیؓ کا ایک قول یاد آگیا کہ’’ جب کسی کا کردار دیکھنا ہو، تو یہ دیکھو کہ جب وہ عروج پر ہو تو بچپن کے کتنے دوست اُس کے ساتھ ہیں۔‘‘

س: کبھی یہ احساس ہوا کہ موجودہ دَور نام وَر ادیبوں، شعراء سے خالی ہوگیا ہے؟

ج: جی ہاں، یہ بات اکثر کہی جاتی ہے، لیکن مَیں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔ ادب کی تاریخ دیکھیں، تو معلوم ہوگا کہ بعض نام وَر لوگ ایک ہی زمانے میں اکٹھے ہوجاتے ہیں۔ یورپ کا ایک دَور ایسا تھا، جب کیٹس،شیلے، شیکسپیئر سب کا سکّہ چل رہا تھا۔ اُس کے بعد ڈیڑھ سوسال تک خاموشی رہی۔ ہمارے یہاں1936ء میں ترقّی پسند مصنّفین کا ڈنکا بج رہا تھا، پھر 1960ء اور اُس کےبعد 1980ء میں ادیبوں کی لہر آئی اور اب پھر انتظار ہے۔پریشان کُن بات یہ ہے کہ ادبی ذوق رکھنے والے کم ہورہے ہیں۔ 

آج ادبی تقریبات میں جو لوگ آتے ہیں، آئندہ دس پندرہ برس میں اُن کی تعداد 10فی صد رہ جائے گی، لیکن ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ کوئی شخص ناگزیر نہیں ہوتا۔ غالب کے ساتھ دنیا ختم نہیں ہوگئی۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ پہلے زمانے کے ادیب سخت محنت، ریاضت اور جاں گسل مراحل کے بعد شاعر، ادیب بنتے تھے، اب شاعر بننے کے لیے سوشل میڈیا کی سند ہی کافی سمجھی جاتی ہے۔ 

مجھے یاد ہے، مَیں بی اے میں تھا، جب حلقۂ اربابِ ذوق کے جلسوں میں جانا شروع کیا تھا اور ڈیڑھ سال بعد مجھے وہاں اپنی بات کرنے کا حوصلہ ہوا۔ وہاں موجود تنقید نگار خُوب خبر لیتے تھے۔ قلم کاروں کو تنقید کی سخت کٹھالیوں سے گزرنے کے بعد قلم کار کی سند حاصل ہوتی۔ اب سوشل میڈیا پر وہ لوگ سند اور داد دیتے ہیں، جو خود اُن جیسے ہوتے ہیں۔ ایسے میں جینوئن قلم کاروں کا قحط تو پڑنا ہی ہے۔

س: آپ26 ممالک کا سفر کر چُکے ہیں، کہا جاتا ہے کہ غیر مُمالک میں اُردو کی نئی بستیاں آباد ہورہی ہیں؟

ج: مَیں تو کہوں گا کہ ختم ہورہی ہیں۔ مَیں نے شکاگو کی ایک محفل میں بھی یہ بات کہی تھی کہ’’ سینئر لوگ مصروف رہنے کے لیے ادبی محفلیں سجاتے ہیں۔ مجھے اصل خوشی اُس وقت ہوگی، جب آپ کے بچّے میرے سامنے بیٹھے ہوں گے۔‘‘ اِس وقت تقریباً 80لاکھ پاکستانی بیرونِ مُلک آباد ہیں، جو اُردو سمجھ اور بول لیتے ہیں۔ نئی بستیاں تو اُس وقت آباد ہوں گی، جب نئی نسل ان سرگرمیوں میں حصّہ لے گی۔

س: سائنس اور ٹیکنالوجی کے اس دَور میں آپ کو شاعری کا کوئی مستقبل نظر آتا ہے؟ کیا یہ’’ ویلے بندوں‘‘ کا شعبہ تو نہیں بن جائے گا؟

ج: جی نہیں۔ اگر ایسا ہوتا، تو دنیا بھر کے ادب سے شاعری غائب ہوجاتی، جب کہ دنیا کے ہر ادب میں اس کا جادو سَرچڑھ کر بول رہا ہے، اگرچہ اس کے اظہار کے رنگ ڈھنگ بدل چُکے ہیں۔ دراصل، انسان جتنا بھی فنی طور پر ترقّی کر جائے، وہ مشین بہرحال نہیں ہے۔ وہ گوشت پوست کا ایک انسان ہے، جس کے اپنے جذبات ہیں، دِل ہے، آنسو ہیں، خوشی، غم کے پیراہن ہیں، جنہیں سائنسی طور پر نہیں ناپا جاسکتا ہے۔ آپ خود کو ذرا ایک ایسے شخص کی جگہ رکھیں، جسے کسی محفل میں کوئی چہرہ پسند آجاتا ہے اور یہ فطری بات ہے۔ 

آپ اس کا اظہار کیسے کریں گے؟ کیا آپ کے جذبات ان لفظوں میں نہیں سِمٹ جائیں گے؟؎ ’’موسم موسم آنکھوں کو اِک سپنا یاد رہا…صدیاں جس میں سمٹ گئیں، وہ لمحہ یاد رہا…قوسِ قزح کے رنگ تھے ساتوں، اُس کے لہجے میں…ساری محفل بھول گئی، وہ چہرہ یاد رہا۔‘‘ موجودہ مادی دَور میں اگر آپ تنہائی اور اداسی کا شکار ہوجائیں، جیسا کہ اکثر لوگ ہیں، تو کیا ایک مادیت پسند سائنس دان کے جذبات بھی لفظوں کا یہ جامہ نہیں پہنیں گے؟؎ ’’دنیا کے اس شور نے امجد کیا کیا ہم سے چھین لیا ہے…خود سے بات کیے بھی اب تو کئی زمانے ہوجاتے ہیں۔‘‘لہٰذا شاعری کی شمع کبھی گُل نہیں ہوگی، اطمینان رکھیں۔ ہاں یہ اور بات کہ ہزارہا شاعری کرنے والوں میں سے صرف چند ایک ہی کو دوام ملتا ہے۔ 

یہ بھی ایک میراتھن ریس ہے۔ شاعری کی دوڑ میں ہزاروں شاعر شامل ہوتے ہیں، آخر میں صرف چند ایک رہ جاتے ہیں۔ یہ بھی نہیں پتا چلتا کہ ان کے ساتھ کون کون دوڑا تھا، لیکن آخری چار پانچ بندوں کے ساتھ ہی اس نسل کا پتا چلتا ہے۔ غالب کے زمانے میں لگ بھگ دو ڈھائی ہزار شاعر تھے، جو صاحبِ دیوان بھی تھے۔ اب اُن کا نام و نشان تک نہیں، صرف غالب زندہ ہے۔ اس موقعے پر اگر یہ نہ کہوں، تو زیادتی ہوگی کہ ہمارے شہروں سے دُور مقامات پر کمال کی شاعری ہو رہی ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک شاعر ہے، لیکن افسوس کہ اُنہیں سامعین اچھے نہیں ملتے۔

س: مُلکی سیاست کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

ج:مجھے سیاست سے کوئی زیادہ دِل چسپی نہیں رہی، لیکن اگر دریا کو کوزے میں بند کردوں، تو یہ کہوں گا کہ عمران خان سے مُلک سنبھالا نہیں جارہا اور عوام کی فلاح و بہبود، ماضی کے حکم رانوں کی بھی کبھی اوّلین ترجیح نہیں رہی۔

س: کوئی دُعا جو ہمیشہ لبوں پر رہتی ہو۔

ج: میرے ڈرامے’’رات‘‘ میں عابد کاشمیری کا ایک جملہ بہت مشہور ہوا تھا اور وہ تھا’’خیر ہو آپ کی‘‘ بس مُلک ہو یا قوم، دوست احباب اور اہلِ خانہ، ہر وقت اُن کی خیر کی دُعا مانگتا رہتا ہوں۔

احمد ندیم قاسمی کے ایک لفظ نے ادبی سفر کو پَر لگادئیے

یہ واقعہ اِس لحاظ سے بھی قابلِ ذکر ہے کہ اس نے مجھے دنیائے ادب میں ایک عجب سے اعتماد کا احساس دِلایا، جو بعد میں میری ادبی دنیا کا اَن مول اثاثہ بن گیا۔ مَیں نے اولڈ کیمپس میں منعقد ہونے والے ایک بین الکلیاتی مشاعرے میں کالج کے نمائندے کی حیثیت سے اپنی نظم سُنائی، جس میں احمد ندیم قاسمی بھی مدعو تھے۔ 

مشاعرے کے بعد ہم ایک ایسے کمرے میں تھے، جہاں صرف شعرائے کرام چائے کے لیے مدعو تھے۔ چائے کے دَوران دیکھا کہ احمد ندیم قاسمی ہماری طرف آ رہے ہیں۔ قریب پہنچے، تو مَیں اُنہیں راستہ دینے کے لیے ایک طرف ہونے لگا، لیکن وہ مجھ سے مخاطب ہو کر بولے’’میرا نام احمد ندیم قاسمی ہے۔‘‘ مَیں نے کہا ’’جناب! آپ سے کون واقف نہیں۔‘‘ تو کہنے لگے، ’’مَیں ایک رسالہ،’’ فنون‘‘ نکالتا ہوں۔ 

آپ نے مشاعرے میں ابھی جو نظم پڑھی ہے، کیا وہ مجھے عنایت کر دیں گے، مَیں اُسے چھاپنا چاہتا ہوں۔‘‘ مَیں نے کہا’’ جی حضور! یہ تو میری خوش قسمتی ہو گی۔‘‘ احمد ندیم قاسمی کے صرف ایک جملے’’عنایت کر دیں گے‘‘ نے مجھے پہلی بار احساس دِلایا کہ مَیں کچھ لکھ سکتا ہوں۔ اِتنے بڑے شاعر کی وسعتِ قلبی، حوصلہ افزائی اور پھر اُنہوں نے ’’عنایت‘‘ کا جو لفظ استعمال کیا، وہ اِتنا بڑا تھا کہ اس کا بوجھ اُٹھاتے اُٹھاتے مَیں یہاں تک پہنچ گیا ہوں۔ اسی طرح فیض صاحب بھی بہت شفیق تھے۔ 

مشہور تھا کہ کسی کتاب کا فلیپ لکھنے میں مہینے لگا دیتے ہیں، لیکن مَیں نے ایک شام اُنہیں اپنا مجموعۂ کلام دیا۔ اُس وقت تو اُنہوں نے’’ اچھا مَیں دیکھتا ہوں‘‘ کہہ کر اور مجھے چائے پلا کر فارغ کر دیا، لیکن اگلی صبح 10بجے خود فون کر کے کہا ’’فلیپ پر میری رائے دفتر سے لے لیجیے۔‘‘ ہمارے بڑوں میں اپنے چھوٹوں کی کام یابی کی جو خوشی پائی جاتی تھی، اب کم کم دیکھنے میں آتی ہے۔

صفحہ نمبر 92…!!!

اس بات پر کہ’’آپ کی شاعری بالعموم محبّت ہی کے اردگرد گھومتی ہے، جب کہ آپ کی تو واحد محبّت آپ کی بیگم ہیں، جن سے شادی ہوگئی، البتہ آپ کی شاعری کے رسیا نوجوانوں نے محبّت کے اس دریا سے خُوب خُوب فائدہ اٹھایا ہوگا؟‘‘امجد صاحب کا کہنا تھا’’یقیناً کافی نوجوانوں نے’’فیض‘‘ پایا ہوگا کہ محبّت ایک فطری جذبہ ہے، جس کی بے شمار جہتیں اور زاویے ہیں۔ مگر ایک’’واردات‘‘ کا تو مَیں عینی شاہد ہوں۔ 

ایک بار گھر کی بیل بجی، تو باہر ایک نوجوان جوڑا مٹھائی کا ڈبّا لیے کھڑا تھا، مَیں نے اُنھیں اندر بٹھایا۔ لڑکا کہنے لگا’’جناب! آج ہماری شادی کی پہلی سال گرہ ہے۔ ہم میڈیکل کالج میں اکٹھے پڑھتے تھے۔ اس دَوران ہماری انڈراسٹینڈنگ ہوگئی۔ فائنل ائیر کے بعد جب ہم جدا ہونے لگے، تو اس نے(اہلیہ کی طرف اشارہ کیا) مجھے آپ کا ایک شعری مجموعہ دیتے ہوئے کہا’’اگر میری یاد آئے، تو کتاب کا صفحہ 92پڑھ لینا۔‘‘ مَیں نے وہ صفحہ پڑھا اور بس اُس کے بعد ہماری شادی ہوگئی۔‘‘

والد کی کُتب پڑھیں، ڈرامے دیکھے، تو ان کے عشق میں مبتلا ہوگیا، بیٹا علی ذیشان

امجد اسلام امجد کے بیٹے، علی ذیشان کو اِس بات پر فخر ہے کہ وہ ایک شفیق اور محبّت کرنے والے باپ کے بیٹے ہیں، لیکن بقول ذیشان’’ یہ خصوصیات تو ہر باپ ہی میں پائی جاتی ہیں، مگر مَیں بطور بیٹا ، اُن کی شخصیت کے ایک ایسے چُھپے گوشے کا ذکر کرنا چاہتا ہوں، جو بہت کم لوگوں کے علم میں ہے اور وہ ہے، اُن کی سادگی، غریب اور ضرورت مند لوگوں کے لیے ہم دردی اور دردمندی۔ 

شاید وہ خود اِس کا ذکر بھی پسند نہ کریں ، لیکن یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ وہ دوسروں کو مشکل سے نکالنے ،ضرورت مندوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے اور گرتے ہوؤں کا ہاتھ پکڑنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔‘‘ علی ذیشان نے کہا ’’بچپن تو ظاہر ہے والدین کے سائے ہی میں گزرتا ہے، لیکن سچ پوچھیں، تو مَیں نے صحیح معنوں میں انھیں 1999ء میں’’دریافت‘‘ کیا، جب مَیں گورنمنٹ کالج، لاہور میں فرسٹ ائیر کا طالبِ علم تھا۔ مَیں نے چُھٹیوں میں اُن کی 40کُتب پڑھیں اور اُن کے 60ڈرامے دیکھ ڈالے، جس کے بعد مَیں اُن کے’’عشق‘‘ میں مبتلا ہوگیا۔ 

یوں مَیں نے اُنھیں بطور رائٹر پہلی مرتبہ جانا، جنہیں ایک دنیا جانتی تھی۔ وہ ایک شفیق والد ہی نہیں، باکمال انسان بھی ہیں۔‘‘ علی ذیشان گزشتہ سات سال سے ایک میڈیا کمپنی کے چیف ایگزیکٹیو ہیں، جو زیادہ تر سیّاحتی ڈاکیومنٹریز بناتی ہے۔ اِس سے قبل وہ آٹھ سال تک مختلف ٹی وی چینلز سے بطور پروڈیوسر اور ڈائریکٹر وابستہ رہے۔ علی ذیشان کے دو بیٹے، ابراہیم ذیشان(9سال) اور موسیٰ ذیشان(6سال) ہیں۔

حسابِ عُمر کا گوشوارہ…

٭ ایوارڈز… 50سے زائد٭ فن اور شخصیت پر لکھے گئے ایم اے، ایم فِل اور پی ایچ ڈی کے مقالات… 30سے زائد٭ تصنیفات(شعری مجموعے، نعتیہ کلام، ٹی وی سیریز پر مبنی کُتب، تراجم، سفر نامے، گیت، طویل ڈرامے، کالمز کے مجموعے) 70سے زائد٭ غیر مُلکی سفر… 26٭ فیچر فلمیں، جن کی کہانیاں، ڈائیلاگ اور اسکرین پلے لکھے… 12٭ پرائیویٹ سیریلز… 6٭ طویل دورانیے کے ڈرامے… 16٭ پی ٹی وی کے لیے عام ڈرامے… 46٭ اخذ شدہ کہانیوں پر مبنی ڈرامے… 19٭ شارٹ فلمز… 2٭ ٹیلی فلم… 1٭ ڈاکیومنٹریز…6٭ 25منٹ کے ڈرامے… 7٭ پنجابی ڈرامے… 3٭ بچّوں کے ڈرامے… 3٭ اسٹیج پلے… 3٭ آڈیو البم… 4٭ فلم، ریڈیو اور ٹی وی کی لیے گیت… 150

تازہ ترین