• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دوسری جنگ عظیم کے بعد، دنیا بھر کے مراکزِ اقتدار اور پورے عالمی معاشرے میں عالمی امن کی زبردست خواہش پیدا ہوئی۔ تباہ کن جنگ کے اختتام تک یہ بھی واضح ہو گیا تھا کہ انسانیت کی بقا اور اس کی مسلسل فلاح و جِلا کا خواب اس (امن عالم کا) کے بغیر کبھی شرمندۂ تعبیر نہ ہوگا۔ نیز یہ بھی کہ آئندہ چھوٹی بڑی جنگوں کے امکانات کو ختم کرنے کے لئے اقوام کے حقِ خود ارادیت، ان کی آزادی اور جغرافیائی سرحدوں کے احترام کو یکساں تسلیم کرتے ہوئے یقینی بنانا ہوگا۔ اس کے بغیر قیام عالمی امن ممکن ہی نہ ہوگا۔ دنیا بھر میں اسی عالمی اعتراف کی طاقت اور اسی سوچ اور اپروچ کے غلبے سے اقوام متحدہ کا قیام، اس کے منشور پر اتفاق اور سب سے بڑھ کر معدود چند سامراجی اقوام کی دنیا پر محیط نو آبادیات (کالونیز) کی بطور ’’نیشن اسٹیٹ‘‘ آزادی کا عمل شروع ہوا لیکن متنازع کشمیر و فلسطین کے تنازعات باقی رہنے سے مکمل نہ ہو سکا۔

آج اگر جزوی عالمی امن بھی بری طرح ڈسٹرب ہوگیا ہے اور سرد جنگ (جو کسی تیسری عالمی جنگ میں رکاوٹ بنی رہی) کے اختتام کے بعد بھی جنوبی ایشیا دنیا کے امن کے لئے سب سے بڑا فلیش پوائنٹ بن گیا (کشمیر و فلسطین کے تنازعات کے احوال سے اقوام متحدہ کا ادارہ اپنا اعتبار و مطلوب احترام کھو بیٹھا ہے اور جنوبی ایشیا و مشرق وسطیٰ میں وقفے وقفے سے جنگیں ہو رہی ہیں) تو یہ شاخسانہ ہے، دنیا کی طاقتور اور ترقی یافتہ اقوام کے اس اجتماعی رویے کا، جسے اختیار کرتے ہوئے وہ دنیا میں امن عالم اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کی بات تو کرتی رہیں، خود کو اس کا چیمپئن بنانے کی داعی بھی رہیں لیکن انہوں نے فلسطین کی آزاد ریاست کے قیام اور جموں و کشمیر کے محبوس و مقہور شہریوں کو حق خود ارادیت دلانے کے لئے اقوام متحدہ کے منشور اور اس کے مطابق، ہر دو تنازعات کے پائیدار حل کے لئے عالمی ادارے کی منظور قراردادوں پر عملدرآمد کے لئے اپنا رویہ محض فقط مشرقی تیمور اورجنوبی سوڈان تک محدود رکھا، جو کہ گھڑے گئے تنازعات تھے۔

گزشتہ 70سالوں میں کشمیر و فلسطین کے حوالے سے جو کچھ ہو رہا ہے اور ہو چکا، جو جنگیں ہوئیں اور جو ہونے کے امکانات ہیں، واضح ہے کہ یہ اب علاقائی نہیں ہوں گی اور اللہ نہ کرے کہ اگر ہوئیں تو یہ خوش فہمی بھی پوری نہیں ہوگی کہ اس بار میدانِ جنگ ایشیا بنے گا۔ تمام تجزیوں کا واضح رخ عالمی امن کی بربادی اور وسیع پیمانے پر انسانیت کی ہلاکت کی طرف جاتا ہے۔ایسا بھی نہیں ہے کہ حالات کو ان کے ہی رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ خیر و شر دنیا میں ہمیشہ سے رہے اور ہمیشہ رہیں گے۔ قیام عالمی امن کو یقینی بنانے کے لئے سرد جنگ کے خاتمے کے سنہری موقع کو گنوا کر جس طرح ’’تھیوری اف کلیش اف سولائزیشن‘‘ کی چھتری تلے امریکہ، اسرائیل، بھارت اور کچھ یورپی ممالک میں، نسل پرستی اور مذہبی تعصب کو ہوا دے کر اقوام متحدہ کے منشور اور عالمی امن کی کوششوں کی دھجیاں اڑائی گئیں، اس کا شاخسانہ ہے کہ ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کے قیام کا خواب ہی چکنا چور نہیں ہوا بلکہ مقابل ایسی قوتیں ظہور پذیر ہیں جو پھر سے اقوام کی آزادی و خود مختاری کے ادھورے ایجنڈے کو مکمل کرکے امن عالم کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے صف آراء ہیں۔

کیا عجب ہے کہ پاکستان ان ممالک میں سے ایک اہم ملک ہے جو قیام امن عالم کو یقینی بنانے کی نئی عالمگیر کاوشوں میں اپنی تمام تر مشکلات اور اقتصادی بحرانوں کی نزاکتوں کے باوجود اہم بنتا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے موجودہ نازک پوزیشن میں بھی ہمارا اعتماد اور حیثیت ملاحظہ ہو کہ آج پاکستان فقط عرب و عجم کی کشیدگی میں ہی اسے سلجھانے کے لئے آگے بڑھتا نظر نہیں آرہا، وزیراعظم عمران خان، عالمی قائدین میں اپنے اعتماد و اخلاص کا فائدہ اٹھاتے، ایک بار پھر امریکہ اور چین میں سائوتھ چائنا سی اور عالمی تجارت کے حوالے سے پیدا ہونے والی کشیدگی کو ختم کرنے کیلئے دونوں دوست ممالک میں کردار ادا کرنے کے قابل ہونے کے اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں انہوں نے ’’اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے زیر اہتمام ’’مارگلہ ڈائیلاگ‘‘ کے اختتامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے دنیا پر ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ عالمی و علاقائی امن کو یقینی بنانے کیلئے دنیا مداخلت کرے۔ موجودہ نسل پرست بھارتی حکومت سے بات چیت کا امکان بہت کم ہے، کشمیریوں کو کرفیو اور جبر سے فرمانبردار بنانا ممکن نہیں‘‘۔ انہوں نے امریکہ، چین کشیدگی کے تناظر میں یہ بھی کہا کہ ’’کوئی نہیں جانتا دو ایٹمی طاقتوں میں کشیدگی کہاں تک پہنچ سکتی ہے‘‘ اوپر سے بھارت لداخ کے حوالے سے چین کو بھی چھیڑ بیٹھا ہے۔

جناب عمران خان نے بطور وزیراعظم حلف اٹھانے سے قبل ہی اپنی بننے والی حکومت کی اس پالیسی کو واضح کر دیا تھا کہ ’’پاکستان اب جنگوں میں نہیں، امن مشنزمیں ہی شراکت کرے گا‘‘ ان کی داخلی پالیسیوں اور اقدامات پر تو تنقید کی گنجائش بنتی ہے لیکن کرتارپور راہداری جیسے امن کے فوری اور مکمل عملی اقدامات سے لے کر سعودی، ایران کشیدگی ختم کرانے کی ابتدائی کوشش کے بعد ایک بار پھر امریکہ چین کشیدگی ختم کرانے کی پیشکش نئی خارجہ پالیسی کی اختراعی سوچ کو عمل میں ڈھالنا بہت واضح ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ پاکستان کی سول سوسائٹی کا پوٹینشل بھی حکومت سے تعاون میں آگے بڑھا ہے۔

خبر ہے کہ حکومتی سرگرمی کی معاونت اور فالو اَپ میں پاکستانی سول سوسائٹی کے تھنک ٹینکس مسئلہ کشمیر پر عالمی سطح پر پیپلز ٹو پیپلز رابطوں کو بڑھانے اور ان پر مسئلہ کشمیر کی حقیقت اور اس کے امکانی نتائج سے آگاہی کے لئے اپنی سرگرمیوں کا دائرہ بڑھا رہے ہیں، جس سے دھرنے اور مارچ کے دوران کشمیر پر توجہ میں ہونے والی کمی کا ہی ازالہ نہیں ہوگا بلکہ عوامی نمائندوں کی، پارلیمانی کشمیر کمیٹی نے کشمیریوں کی پُرامن جدوجہد کو معاونت دینے میں جوغفلت برتی، اب خود پاکستانی سول سوسائٹی کے پوٹینشل سے اس کا کفارہ ادا کیا جائے گا کہ برصغیر اور جنوبی ایشیا میں تو امن کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس کے لئے بھارتی سول سوسائٹی کے متعلقہ پوٹینشل سٹیزن سے بھی (مشکل ہی سہی) رابطوں کو بنانا اور بڑھانا لازم ہے۔

تازہ ترین