• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ تلخ حقیقت اب تاریخ پاکستان کا اَن مٹ باب بن گیا ہے کہ قوم نے بقائے جمہوریت کے لئے 5 سال تک بدترین جمہوریت کو جو برداشت کیا، اس سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ ایوان صدر روایتی سیاست کے گٹھ جوڑ کے لئے ملکی سطح کا ڈیرہ بن گیا۔ وزارت عظمیٰ کا سب سے اعلیٰ انتظامی منصب ”ممکنہ حد تک لوٹ مار اور جی بھر کے خوش پوشی“ تک محدود ہو گیا۔ اس عرصے میں کرپشن کا بازار گرم رہا، نتیجتاً بجلی پیدا کرنے کا نظام، ریلوے، پی آئی اے، اسٹیل مل اور درجنوں دوسرے ادارے مکمل تباہی کے دہانے پر آ گئے۔ انتہائی ڈھٹائی سے مسلسل کرپشن کرتے ہوئے پورے ملک کو تاریکی میں ڈبو دیا گیا، گیس کی سپلائی کم ہوتے ہوتے ختم ہو گئی جس سے صنعتیں جام ہو گئیں۔ اس سے بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہوا انتہائی مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا، یہ سب جرائم اور دہشت گردی میں اضافے کا سبب بنا۔ اور تو اور فروغ تحقیق اور اعلیٰ تعلیم کے قومی ادارے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ارب ہا روپے کے فنڈز پر بھی ہاتھ ڈالا گیا اور اسے جیالوں کے تابع کرنے کے حربے تو اب تک جاری ہیں۔ تاریخ کے تباہ کن سیلاب میں وفاقی حکومت کی تشویشناک حد تک نااہلیت مکمل بے نقاب ہو گئی اور اس پر دوست ممالک کا عدم اعتماد بھی۔ پورا ملک خصوصاً بلوچستان، کراچی اور پشاور بے قابو دہشت گردی اور طرح طرح کے جرائم کی لپیٹ میں آ گئے۔ پاکستان میں اس سے کہیں کم درجے کی منفی صورتحال پر چار مارشل لاء نافذ ہوئے، لیکن آفریں ہے فوج پر کہ اس نے اس مرتبہ برسراقتدار آنے کا سنہری موقع بار بار ملنے کے باوجود، آئندہ جمہوریت سے تعاون کی جو کمٹمنٹ کی وہ پوری کر دکھائی۔ دوسرے، عوام کے بدترین جمہوریت کو کمال صبر سے برداشت کرنے کی برکت یہ ہوئی کہ الیکشن 2008 سے قبل پاکستان میں میڈیا کی آزادی اور اس کے نتیجے میں ذرائع ابلاغ عامہ کی جمہوریت نوازی کا جو تیز تر عمل شروع ہوا تھا، وہ آزاد اور غیر جانبدار عدلیہ کی بحالی کی جدوجہد کے ساتھ جاری و ساری رہا۔ پاکستان میں مطلوب صحت مند جمہوری عمل شروع کرنے کے لئے یہ ایک آئیڈیل صورتحال تھی، لیکن ٹیکس چوروں، قرض خوروں، جعلی ڈگریاں بنانے والے جعلسازوں کی اکثریت پر مشتمل برائلر پارلیمنٹ اور اس سے نکلی ہوئی کرپٹ ”جمہوری“ حکومت ہی اس میں پہاڑ کی سی رکاوٹ بن گئی۔ دوسری جانب حکمرانوں کی شرمناک کرپشن، مسلسل غیر قانونی اقدامات کی دیدہ دلیری اور دھما چوکڑی طرز کے حکومتی رویے سے ہوتی ملک کی بربادی کا خطرہ مول لے کر اس بدترین صورتحال کو برداشت کیا گیا۔ بدترین جمہوریت کے ان پانچ سالوں میں جو صورتحال پیدا کی گئی، اس میں تو آزادی اظہار رائے سے محروم گھٹے ہوئے معاشروں میں بھی تحریکیں چل پڑتی ہیں اور انقلاب برپا ہو جاتے ہیں، جیسا کہ گزشتہ روز مشرقی یورپ میں جمہوری اقدار سے نئے نئے آشنا ہونے والے عوام نے کرپشن اور مہنگائی کے خلاف مظاہرے کر کے وزیراعظم کو استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا۔ اس سے قبل وزیر خزانہ کی برطرفی اور بجلی کے نرخ میں کمی جیسے حکومت اقدامات بھی بلغارین عوام کے احتجاجی مظاہرے ختم نہ کر سکے۔ پاکستانی وزیراعظم جب عوام کے لوٹے مال کو واپس لانے کے لئے عوام کے مقابلے میں اپنی لیڈر کی قبر اور زندہ لیڈر کی وفا داری پر تل گیا تو عوام نے اس کا علاج خود کرنے کی بجائے آزاد عدلیہ اور میڈیا پر اکتفا کیا اور ہمارے وزیراعظم کو مظاہروں کی بجائے عدالتی فیصلے کے نتیجے میں اعلیٰ منصب چھوڑنا پڑا اور وہ نااہلیت کے گڑھے میں بھی گرا۔ یہ بدترین جمہوریت کا کمال نہیں بلکہ اس کو آئینی مدت پوری کرانے کے لئے عوام کے کمال صبر و تحمل کا پھل ہے، جس میں فوج بھی قوم کے ساتھ رہی۔ یہ امر واقعہ ہے کہ میڈیا کے ذریعے یار دوستوں نے عوام کے اس رویئے کو بے حسی اور بے بسی سے تعبیر کیا، خود خاکسار تو اسے دولاشاہی قرار دیتا رہا۔ شاید ہم سب حالات کی بے صبری میں جذباتی ہو گئے تھے۔ بالآخر عوامی رویہ ہی بہتر نتائج دیتا معلوم دے رہا ہے۔ بڑے بڑے قومی خطرات مول لے کر ”بدترین جمہوریت“ کو جاری و ساری رکھنے کے نتیجے میں جہاں عوام اور فوج کی جمہوریت کے لئے کمال استقامت کی تصدیق ہوتی ہے اور میڈیا اور عدلیہ نے قابل قدر پوزیشن لے کر اپنا مقام بنایا، وہاں اب الیکشن کمیشن آف پاکستان بھی اپنے روایتی کردار سے جان چھڑاتا نظر آ رہا ہے۔ وہ کردار جس میں کمیشن، آئین پاکستان کے تقاضوں کے مطابق انتخابات کرانے کی سکت سے محروم ہوتا۔ یوں ہمارے الیکشن، جمہوریت کے لئے آئین کی سب سے عوام دوست آئینی شق 62-63 کے اطلاق سے یکسر محروم رہے۔ اس کا نتیجہ برائلر پارلیمنٹس کے قیام کی شکل میں نکلتا رہا اور یہ منتخب ایوان عوام کو کوڑے میں پھینک کر اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کی ہی ”فلاح و بہبود“ پر مامور رہے۔ خدا کا شکر ہے کہ الیکشن کمیشن ایک غیر متنازعہ، دیانت دار محترم بزرگ کی سربراہی میں اپنے آئینی کردار پر چوکس ہے اور اس نے امیدواری کے پراسس میں قوم کو آئین کی 62-63 آرٹیکلز کے اطلاق کا یقین دلایا ہے، جس میں ٹیکس چور، قرض خور اور جعلی ڈگریاں بنانے والے اور دوسرے ملکوں کی شہریت کا حلف اٹھانے والے، انتخاب میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔ جیسا کہ الیکشن کمیشن نے انتخابی امیدواروں کی سکروٹنی کے لئے نیب، نادرا، سٹیٹ بینک، ایف بی آر اور کمیشن کے حکام پر مشتمل کمیٹی بھی قائم کر دی ہے۔ اس تناظر میں میڈیا کا کردار اور ذمے داری بہت بڑھ گئی ہے کہ وہ حکومت کے زیر انتظام اداروں پر کڑی نظر رکھے کہ یہ سکروٹنی کا پراسس آئینی اور قانونی تقاضوں کے مطابق انجام دے رہے ہیں۔ کوئی بے ایمانی تو نہیں ہو رہی۔ حکومت مداخلت تو نہیں کر رہی۔ ذمے داران آفیسر اثر و رسوخ میں قانون سے تو تجاوز نہیں کر رہے۔ خود ان اداروں میں موجود دیانت دار اور محب وطن افسران و ملازمین پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں نہ خود کسی بددیانتی کے مرتکب ہوں اور اگر کوئی بددیانتی اور خلاف قانون کام ان کے نوٹس میں آئے تو وہ اسے اپنے تحفظات کے ساتھ میڈیا اور سوشل میڈیا کی مدد سے بے نقاب کریں۔ خبروں کے مطابق حکومت اور سیاسی جماعتوں میں جعلی ڈگریوں کے حامل جعلساز اراکین اسمبلی سرتوڑ کوششوں میں ہیں کہ سکروٹنی کے پراسس میں جعلی ڈگریوں والوں کو شامل نہ کیا جائے۔ یہ اب الیکشن کمیشن کا ٹیسٹ ہے کہ 223 اراکین اسمبلی (جن کی ڈگریوں کی تصدیق نہیں ہوئی) تصدیق کے بغیر انہیں ان کی جعلسازی کے باوجود الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دیتا ہے، کیونکہ ڈگریوں کی تصدیق نہ ہونے کا اور کوئی دوسرا مطلب نہیں کہ یہ جعلی ڈگریاں بنوانے کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اسی طرح جو باخبر پاکستانی ٹیکس چوروں اور قرض خوروں کے ٹیکس چوری اور قرض خوری کے حقائق سے آگاہ ہیں اور وہ اس کے ثبوت بھی فراہم کر سکتے ہیں یا ثبوتوں کی نشاندہی کر سکتے ہیں، ان کی حب الوطنی اور جمہوریت دوستی کا اولین تقاضا ہے کہ وہ اس سے الیکشن کمیشن کو آگاہ کریں اور اسے میڈیا سے عام کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اگر الیکشن کمیشن اپنے اعلانات اور بظاہر کمٹمنٹ کے مطابق (ایک بڑے فیصد تک) الیکشن کمیشن کا انعقاد کرانے میں کامیاب ہو گیا تو پاکستان ارتقائے جمہوریت کے اس درجے پر پہنچ جائے گا جو ہم جعلی اور جاگیردارانہ جمہوریت میں کھو بیٹھے۔
تازہ ترین