اسلام آباد میں برآمد کنندگان میں سیلز اور انکم ٹیکس کے ریفنڈ چیک تقسیم کرنے کیلئے منعقدہ تقریب سے خطاب میں وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ جب حکومت میں آئے ملک کا کرنٹ خسارہ 19ارب ڈالر تھا اور زرمبادلہ کے ذخائر نہیں تھے، لوگ ڈالر میں ٹرانزیکشن کر رہے تھے اور ملکی کرنسی کی قدر کم ہو رہی تھی، تاہم اس خسارے پر قابو پالیا گیا ہے اور حکومت کی معاشی ٹیم کی کوششوں سے روپے کی قدر مستحکم ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلی بار ملک کا کرنٹ خسارہ سرپلس میں آیا ہے۔ کرنٹ اکائونٹ خسارہ دراصل کسی ملک کی مجموعی آمدن اور تمام تر اخراجات کے مابین فرق کو کہتے ہیں، اگر اخراجات آمدن کے مقابل زیادہ ہوں تو اس کیفیت کو کرنٹ اکائونٹ خسارے سے تعبیر کیا جاتا ہے، صورتحال اس کے برعکس ہو تو وہ کرنٹ اکائونٹ سر پلس کہلاتی ہے۔ ملکی آمدن برآمدات، سرمایہ کاری، بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلاتِ زر اور ٹیکسوں کی مد میں حاصل ہونے والے پیسے پر منحصر ہوتی ہے جبکہ اخراجات میں درآمدات، قرضوں کی ادائیگی اور حکومتی اخراجات شامل ہوتے ہیں۔ ایک اور عنصر جو اس توازن کو بگاڑنے کا باعث بنتا ہے، پٹرولیم مصنوعات اور ڈالر کی قدر میں اضافے کے ساتھ ساتھ ملکی پیداوار میں کسی بھی قسم کی کمی ہے جس کے نتیجے میں درآمدات بڑھتی ہیں، سرمایہ باہر جاتا ہے اور روپے کی قدر گر جاتی ہے، یوں تجارتی خسارہ بڑھتا اور قرضوں کی ادائیگی مشکل ہو جاتی ہے، پاکستان کو پچھلے چند برسوں میں یہی مسئلہ درپیش رہا جس نے اس کی معیشت کو پٹری پر نہ چڑھنے دیا۔ معاشی استحکام کے ضمن میں حکومت کی یہ بہت بڑی کامیابی ہے کہ نہ صرف کرنٹ اکائونٹ خسارے پر قابو پایا گیا بلکہ اب یہ سرپلس ہے، جس سے روپے کی قدر مستحکم ہوئی ہے۔ امید ہے کہ حکومت اسی طرح ملک کے معاشی استحکام کے لئے سرگرداں رہے گی اور پاکستان جلد اقتصادی و معاشی استحکام کی منزل پا لے گا۔