• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مالی خسارے کو کم کرنا اور ٹیکس کی وصولی میں اضافہ یقیناً حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ لیکن ان دونوں اہداف کو حاصل کرنے کے لیے حکومت کہیں اصل راستہ سے ہی نہ ہٹ جائے اور وہ ہے شرح ترقی یا پیداواری رفتار۔ کسی ملک کی قومی آمدنی کا انحصار لوگوں کے اخراجات(تصرف) ، نجی سرمایہ کاری، درآمدات وبرآمدات میں توازن اورحکومتی اخراجات پہ ہوتا ہے۔

 ٹیکسوں کی وصولی کو یقینی بنانے کے لیے حکومت اگر سختی کرے تو صارف اور سرمایہ کاربھی اپنے رویے میں تبدیلی کرتے ہیں۔ صارف ان اشیاء کا استعمال ترک کردیتے ہیں یا کم کردیتے ہیں۔ جن سے حکومت کو ٹیکس کی مدمیں آمدنی ملنے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔ 

یا پھرغیرضروری اشیاء کا استعمال اسی طرح کرتے ہیں۔ لیکن اپنی خوراک جس میں صحت مند غذا سب سے اہم ہے۔ اس کے استعمال میں کمی کردیتے ہیں۔ کیونکہ ان کے دماغ میں یہ بات ہوتی ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے اب اپنا رہن سہن اس معیار کے مطابق برقرار رکھنا اتنا آسان نہیں رہا۔ 

لہذا کہیں نہ کہیں تو ہمیں کٹوتی تو کرنی ہی ہوگی۔ لہذا " کھایا کس نے دیکھا پہنا ،سب نے دیکھا" کی مصداق اچھی غذا پر سمجھوتا کرلیا جائے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ خوراک پر سمجھوتاکرنے سے ہوتا یہ ہے کہ انسانی جسم کمزور ہوجاتا ہے، قوت مدافعیت کم ہوتی ہے، جسم تھکان محسوس کرتا ہے۔ یوں وہ طبقہ جو کہ بطور محنت کش ملکی معیشت میں اپنا کردار ادا کرتا تھا غذائی کمی کے بعد کیا وہ اپنا کردار پہلے کی طرح ادا کرسکے گا؟ کیاوہ اتنا ہی Productive رہے گا؟یقیناًنہیں۔ 

لہذا پالیسی بنانے والے یہ دیکھیں گے کہ ٹیکس کی وصولی میںاضافہ کی مہم سے الٹے ہی نتائج نہ آئیںکہ ٹیکس میں بھی خاطرخواہ اضافہ نہ ہو اور دوسری طرف صارف اورسرمایہ کار کی بددلی کی وجہ سے " قومی پیداوار ہی کم ہوجائے" کوئی بھی اہم قدم اٹھاتے ہوئے عوامی ردعمل کو سامنے رکھنا بہت ضروری ہے۔ 

دوسری طرف حکومت باربار یہ دعویٰ کررہی ہے کہ یقیناً ابھی کچھ مشکل ہے۔ ابتدائی سالوں میں تنگی ہوگی لیکن پھر حالات بہتر ی کی طرف رواں دواں ہوجائیں گے(امید کی جاسکتی ہے ایسا ہی ہوگا)۔ لیکن عوام کو اعتماد میں لینے کے لیے حکومت کو کچھ تو کرکے دیکھانا ہوگا۔ 

مثلاً پانی، نکاسی آب، بجلی کی فراہمی، گیس کی مسلسل آمد، آمدورفت کے ذرائع۔ پچھلی دو دہائیوں کی مختلف حکومتوں نے پبلک ٹرانسپورٹ کو جان بوجھ کہ ختم کیا ۔ کئی منصوبے کاغذ پر موجود ہیں لیکن زمین پر نظر نہیں آرہےپنجاب میں پھر بھی کہیں پبلک ٹرانسپورٹ نظر آرہی ہے لیکن سندھ ، خیبرپختونخواہ اور بلوچستان میں ایسا کچھ بھی نہیں۔ 

حدتو یہ ہے کہ کراچی کے چھ منصوبے ہیں لیکن ایک پر بھی کام مکمل نہ ہوسکا۔ یہ شہر اپنی مدد آپ کے تحت گزارہ کررہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سڑکیں کم پڑگئی ہیں اور امپورٹیڈ گاڑیاں زیادہ ہوگئی ہیں۔ کیا تجارتی خسارہ کم ہوجائے گا؟ اس کے بعد پانی کی کمی ایک معمول کا مسئلہ ہے۔ بین الاقوامی کمپنیوں سے پانی خرید خرید کر استعمال کیا جارہا ہے یا غیرقانونی ہائیڈرنٹ یہ سہولت فراہم کررہے ہیں۔

جگہ جگہ پہ کنویں اور بورنگ کے ذریعہ پانی کا بندوبست کیاجارہا ہے۔ ایسے میں کیا لوگ ٹیکس کے بارے میں سوچھیں گے؟ سوسال پرانا سیوریج کا نظام بوسیدہ ہوکر آئے دن ابلنے اور اگلنے لگا ہے۔ کبھی کہیں گندہ پانی کھڑا ہے تو کبھی کہیں اپنی مدد آپ کے تحت گٹر صاف کراؤ ورنہ بدبو اور جراثیم سے بھرپور آب وہوا میں سانس لو ۔ 

ٹیکس کی طرف کس کا دھیان جائے گا؟ بارشوں کے بعد سڑکوں کا جو برا حال ہے ہر طرف گڑھے ہی گڑھے ہیں۔ ایسے میں اپنے پیسے سے آمدورفت کی حاصل کی گئی سہولت کے ساتھ جو زیادتی ہورہی ہے اچھل اچھل کر کبھی گاڑی میں کچھ ٹوٹ جاتا ہےتوکبھی کوئی خرابی آجاتی ہے، کیا کوئی ایسے میں گاڑی کی مرمت پر دھیان دے گایا ٹیکس پہ؟بجلی تو ویسے بھی پچھلی دودہائیوں سے 24 میں سے12 گھنٹے بڑے شہروں میں آتی تھی(صرف کراچی میں کچھ بہتری تھی) چھوٹے شہروں کا حال کیا ہوتاہوگا ؟چلیں یہ سب تو پرانی حکومتوں میں بھی ہوتا تھا۔ 

اب " تبدیلی" نے اس میں ایک اوراضافہ کردیا ہے۔ گیس کی لوڈشیڈنگ !آپ صبح سوکر اٹھیں نماز پڑھ کر فارغ ہوں اور باورچی خانہ میں داخل ہوں تو اسکول جانے والے بچوں کے لیے ناشتے اور ساتھ لے جانے کے لیے کچھ پکاسکیں ۔چولہے میں ماچس لگاتے ہی پتاچلتا ہے کہ گیس غائب ہے یا بالکل ٹمٹماتی آرہی ہے کہ دو منٹ کا کام آدھے گھنٹے میں ہوگا۔ 

ایسے میں گھر کی خواتین اس قدر بے زار ہوتی ہیں کہ " ایک طرف یہ ڈر کہ کہیں کوئی بچہ بھوکا نہ چلاجائے اور بروقت کام نہ ہوسکے"یہ سردرد الگ۔ یہ کبھی کبھی نہیں روز کا معمول ہے۔ اس کےبعد دوپہرکے کھاناپکانے کے وقت پھر گیس چلی جاتی ہے اورچارپانچ بجے کے بعد بحال ہوتی ہے۔ 

بعض اوقات رات میں بھی یہی حالات ہوتے ہیں۔ اب ایسے میں جب انسان انتہائی جھنجلاہٹ کا شکار ہو، اس کے روزانہ کے معمولات نہ ہورہے ہوں، گھرمیں لڑائیاں ہورہی ہوں کہ بروقت کھانا میسر نہ ہوتو کیا لوگ ٹیکس کے بارے میں بھی سوچھیں گے؟ اب تنگ آکر لوگوں نے سولر پینل استعمال کرنے شروع کردیئے ہیں۔ گیس کے لیے سلنڈرکے استعمال کی طرف جانےکا سوچ رہے ہیں۔

جب سارا بندوبست ہر کسی کوخود کرنا ہے تو حکومت کوٹیکس کی مدمیں کیوں پیسہ دیں۔اب حکومت کو چاہیئے کہ اپنے ٹیکس کی وصولی میں اضافہ کی خواہش کے بجائے اپنے اخراجات میں کمی کاسوچے اور اس کمی کی رقم سے قرضے اتارے، کیونکہ، بجلی ، گیس ، سڑک، نکاسی آب، پانی کی ترسیل،آمدورفت کی ضرورت، جان ومال کی حفاظت کی ذمہ داری ہر شہری کوخود پوری کرنی ہے تو پھر امید کیسی؟ ابھی بھی وقت ہے عوام کو اعتماد میں لیں۔ 

انہیں احساس دلائیں کہ ان کی یہ ضروریات پوری کرنے کے لیے حکومت اہم اقدامات کررہی ہے۔ حکومتی اراکین اپنے غیرضروری اخراجات اور بیانات کم کریں۔ وزیراعظم حزب مخالف کو للکارنے اور نقل کرنے کے بجائے عملاً کفایت شعاری کریں اور اپنا ٹیکس ادائیگی بڑھاکر دیکھائیں۔ اگرعوام سے ٹیکس چاہتے ہیں تو!

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین