• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئندہ چند برسوں میں پاکستان پانی کی شدید قلت کا شکار ہو سکتا ہے، یہ انتباہ مختلف متعلقہ ادارے مسلسل دیتے چلے آ رہے ہیں لیکن پانی کے غیر ضروری استعمال کے حوالے سے ہماری روش میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔ بدقسمتی سے پاکستان پانی کے حوالے سے دہرے مسائل کا شکار ہے، ایک جانب موسمی تبدیلیوں اور بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے پانی کی قلت مسلسل بڑھ رہی ہے تو دوسری جانب پانی کے ضیاع کو روکنے کی خاطر عوامی آگہی کی کوئی کوشش نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ لاہور میں زیرِ زمین پانی کی سطح کم ہوتی جا رہی ہے۔ آبی ماہرین کے مطابق اگر ابھی سے ہی ہنگامی بنیادوں پر اقدامات نہ کئے گئے تو 2025میں پانی کی فراہمی لاہور کا سب سے بڑا مسئلہ ہو گا۔35برس قبل شہر لاہور میں کھارا پانی 40فٹ پر دستیاب تھا جو کہ اب 150فٹ تک جا پہنچا ہے، اسی طرح پینے کے پانی کو زمین سے نکالنے کیلئے جو بور 30برس قبل 200فٹ تک کرنا پڑتا تھا، اب میٹھا پانی 800فٹ پر میسر آتا ہے اور ہر سال اوسطاً ایک میٹر زیر زمین پانی کم ہورہا ہے۔ جوڈیشل واٹر کمیشن کے چیئرمین جسٹس (ر) علی اکبر قریشی کے مطابق پانی ضائع کرنیوالوں کو جرمانے، پرائیویٹ اسکیموں سے وصولیاں اور وضو کیلئے استعمال ہونیوالے پانی کو دوبارہ قابلِ استعمال بنانے کیلئے ٹینک بنائے جا رہے ہیں اور روزانہ دس لاکھ گیلن سے زائد پانی کا ضیاع روکا گیا ہے۔ اُس کے باوجود ہم اپنے گھروں میں روزانہ کئی لیٹر صاف پانی بیدردی سے ضائع کر دیتے ہیں۔ صاف پانی کے ضیاع کا مسئلہ کسی ایک مخصوص شہر تک محدود نہیں بلکہ ملک بھر میں لوگ قدرت کے اِس انمول تحفے کو بیدردی سے ضائع کرتے ہیں۔ اس بنا پر ضروری ہے کہ حکومت ملک گیر پانی بچائو مہم چلائے جس میں لوگوں کو اس بارے میں موثر آگہی فراہم کی جائے۔

تازہ ترین