• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یوسف راشد، کراچی

نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا)کی جانب سے حالیہ دنوں ایسے خاموش قاتل پر روشنی ڈالی گئی ہے، جس کے بار ے میں اس سے قبل سوچا بھی نہ گیا تھا اورنہ ہی اِس کے تدارک کے لیے کوئی کوشش کی گئی ۔ یہ قاتل تقریباً تمام عمارتوں اور گھروںمیں موجود ہے۔ ہم بات کر رہے ہیں کرنٹ ، غیرمعیاری وائرنگ کی۔ محض تین ماہ کے دوران کراچی میںگھروں میں کرنٹ لگنے سے 16سے زائد خواتین اور بچّے جان کی بازی ہار گئے۔ویسے تو اِن تمام حادثات کاسبب ناقص وائرنگ اور پانی کی خراب موٹریں ہیں۔ تاہم، ایک بڑی ذمّے داری ان میں رہنے والے افراد پر بھی عائد ہوتی ہے، جو بجلی کے آلات کی تنصیب ، مینٹینینس اور استعمال میں احتیاط نہیں برتتے۔

کتنے افسوس کی بات ہے کہ گھروں کی تزئین و آرائش پر ہزاروں روپے خرچ کرنے والے افراد ، بجلی کے کام یا وائرنگ میں معیاری میٹریل استعمال نہیں کرتے۔ جس کا خمیازہ خود انہیں اپنے پیاروں کو کھو کر یا انہیں تکلیف میں دیکھ کر بھگتنا پڑتا ہے۔ گزشتہ دنوں ایسا ہی ایک حادثہ کراچی کے علاقے لیاری میں پیش آیا،جہاں 35 سالہ اسلم کام کے دوران کرنٹ لگنے سے جاں بحق ہوگیا۔اسی طرح تین ہٹّی میں،ایک گھر میں کُنڈے کا تار گرِل سے لپٹاہوا تھا ،جسے اَن جانے میں ہاتھ لگانے سے سلیمان نامی نوجوان کی زندگی کا چراغ بُجھ گیا ۔ ہجرت کالونی میں پیش آنے والے واقعے میں 8سالہ ارمان رابن، ریفریجریٹر میں آنے والے کرنٹ کے جھٹکے سے ہلاک ہو گیا۔ اگست کے مہینے میں اورنگی ٹاؤن کے علاقے پیرآباد میں ایک خاتون اُس وقت کرنٹ لگنے سے جاں بحق ہو گئیں، جب وہ ٹیلی ویژن کا تار درست کر رہی تھیں۔ 

جولائی میں منگھوپیر کے رہائشی بہروز خان کی بیوی ،گھر میں پانی کی موٹر چلانے کے دوران بجلی کا جھٹکا لگنے سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ اسی طرح سولجر بازار میں ایک 17 سالہ نوجوان بھی کرنٹ لگنے سے جاں بحق ہو گیا۔یہاںاس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ پانی کی ایسی موٹریں، جن کی وائنڈنگ درست انداز میں نہیں کی گئی ہو تی ،اکثر گھروں کے باہر نصب ہوتی ہیں ، جو کرنٹ لگنے کی ایک بڑی وجہ ہیں۔ رواں سال جولائی میں جونا مسجد، لیاری کے نزدیک ایک گھر میں عدنان عثمان نامی 36 سالہ نوجوان ، ایسی ہی ایک موٹر چلانے کی کوشش میں ہلاک ہو گیا ۔ 

منگھوپیر کا رہائشی 25سالہ سعید خان اُس وقت کرنٹ لگنے سے جاں بحق ہو ا،جب وہ موٹر پمپ چلانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اِسی طرح سائٹ ایریاکے نزدیک میٹروِل میں عبداللہ نامی 40 سالہ شخص بجلی کی موٹر چلانے کی کوشش کے دوران ہلاک ہو گیا۔رواں سال مارچ میں جمشید روڈ پرایک عورت اور اس کے دو بچّے گھر میں آگ لگنے کی وجہ سے ہلاک ہو گئے۔ پولیس کے مطابق یہ آگ شارٹ سرکٹ کی وجہ سے لگی تھی۔اس سے قبل، مارچ ہی کے مہینے میں مزید دو افراد اُس وقت جان کی بازی ہار گئے، جب انہوں نے یونی وَرسٹی روڈ پر واقع ایک آگ میں گِھری عمارت سے چھلانگ لگادی۔گوکہ آگ چوتھی منزل پر نصب ایئر کنڈیشنر کے شارٹ سرکٹ کی وجہ سے لگی تھی، لیکن دیکھتے ہی دیکھتےپانچویں اور چھٹی منزل تک جا پہنچی اور دو قیمتی جانیں ضایع ہو گئیں۔

افسوس ناک امر یہ ہے کہ مذکورہ بالا رپورٹ ہونے والے تمام واقعات کے باوجود تاحال معیاری وائرنگ، بجلی کے آلات کی تنصیبات کے حوالے سے کوئی ٹھوس اقدامات نظر نہیں آرہے، حالاں کہ حکومت کی جا نب سے قواعد و ضوابط کے مطابق ان مسائل کے تدارک کی کوششیں ضرورکی جانی چاہئیں تاکہ مستقبل میں ایسے حادثات کو روکا جا سکے۔اس حوالے سے لوگوں کو آگہی فراہم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔مختلف سرویز کے ذریعے حکومتِ سندھ کے ماتحت الیکٹریکل انسپکٹوریٹ کے آپریشنز میں لازماً تیزی آنی چاہیے ، جب کہ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹیز کو بھی ایسے پراجیکٹس میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔

دوسری جانب بجلی کے آلات بنانے والی انڈسٹریزاور سرٹیفکیشن پر بھی سخت نگرانی اور کوتاہی برتنے والوں کے خلاف سخت تادیبی کارروائی ہونی چاہیے۔اس ضمن میں تمام پالیسی ساز اداروں کو موثر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ ایک سنجیدہ نوعیت کا مسئلہ ہے اور محض ایک شخص یا ایک ادارے کی غفلت ولاپروائی کسی معصوم کی موت کا سبب بن سکتی ہے۔

تازہ ترین