• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطن عزیز میں اس وقت قدرتی گیس کی روزانہ کھپت اوسطاً4.216 مکعب فٹ ہے جو 50برس قبل0.143 تھی۔ جس طرح آبادی اور اس کی طلب میں اضافہ ہو رہا ہے اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ مستقبل میں گیس کی کھپت کہاں تک پہنچے گی۔ یہ ایسی حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق روسی کمپنی اگلے سال کی پہلی سہ ماہی میں خلیج فارس سے چین تک براستہ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، میانمار، تھائی لینڈ گیس پائپ لائن بچھانے کی فزیبلٹی رپورٹ تیار کرنا شروع کر دے گی جس سے پاکستان کو یومیہ ایک BCFDگیس اور اربوں ڈالر ٹرانزٹ فیس کی صورت میں حاصل ہوں گے۔ گیس پائپ لائن زیر سمندر، ساحلی علاقوں اور زیر زمین گزرے گی۔ منصوبے کی اہم ترین بات یہ ہے کہ ہر ملک پاکستان کو ٹرانزٹ فیس ادا کرے گا جو اربوں ڈالر میں ہو گی۔ پاکستان کی سرزمین تیل و گیس کی دولت سے مالامال ہے لیکن بدقسمتی سے ابھی تک ان ذخائر کی تلاش میں کامیابی نہیں مل سکی۔ اس صورتحال میں خلیج سے چین تک متذکرہ بالا منصوبہ ہمارے لئے نہایت اہمیت اور دوررس نتائج کا حامل ثابت ہو گا۔ ایسا ہی ترکمانستان، افغانستان، پاکستان اور بھارت پر مشتمل ’’تاپی‘‘ گیس منصوبہ ہے جو 2015 سے زیر تعمیر ہے اور اس کی تکمیل کا ہدف دسمبر2020 ہے۔ اس کی افادیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ چین بھی اس کا حصہ بننے کی خواہش رکھتا ہے۔ قدرتی گیس کی فراہمی کا تیسرا بڑا منصوبہ ایران تا بھارت براستہ پاکستان تھا، جو گزشتہ گیارہ برس سے سردخانے میں پڑا ہے۔ ضروری ہے کہ متذکرہ منصوبوں کے ساتھ ساتھ موجودہ اور آنے والے وقت میں زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے ملک میں تیل و گیس کی تلاش میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی جائے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین