• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایسا ہولناک، ایسا افسوسناک منظر ان آنکھوں  نے کبھی دیکھا نہ کانوں نے سنا۔ کبھی بار ایسوسی ایشنز آمریتوں کے اندھیروں میں جمہوریت اور آئین کی بحالی کا عَلم لے کر میدان میں اُترتی تھیں اور ہم جیسے جمہوریت کے متلاشی بار رومز میں گوشۂ عافیت تلاش کرتے تھے۔ 

کبھی بار بنچ اور میڈیا نے مل کر آمر کو شکست دی تھی اور جب منظر بدلا تو یہی قوتیں سویلین حکمرانی کی بیخ کنی میں جُت گئیں۔ اب منظر اور بھی دلخراش ہو چلا ہے۔ جی! کبھی گماں میں بھی نہ تھا کہ قانون کی حکمرانی کے مبلغ اور انسانی حقوق کے داعی پوسٹ گریجویٹ وکلا دل کے اسپتال، دل کے عارضوں میں مبتلا مریضوں اور دل کے ڈاکٹروں اور نرسوں پہ یوں وحشت بن کر ٹوٹ پڑیں گے۔ مریض بچے نہ اُن کے دل گرفتہ لواحقین، ایمرجنسی رہی نہ آپریشن تھیٹر اور زندگیوں کو بچانے والے مسیحا جان بچانے بھاگ نکلے۔ 

لیکن یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ بربریت اور لاقانونیت سے لڑنے والے ساری حدیں پھلانگ جائیں گے۔ صرف عدلیہ بحالی تحریک کے ہیرو اعتزاز احسن کا سر شرم سے نہیں جھکا، پوری قوم ندامت سے منہ چھپائے بیٹھی ہے کہ جس قوم کے پڑھے لکھے اور وہ بھی قانون کے نقیبوں کا جب یہ حال ہے تو باقی سماجی پرتوں کا کیا حال ہوگا۔ عزت و غیرت کے نام پر قبائلی سماج میں قتل مقاتلے تو ہوتے رہتے ہیں، لیکن شہری معاشرے کی مہذب پرتوں کی ایسی اخلاقی و تہذیبی تنزلی ایک قومی تازیانے سے کم نہیں۔ 

اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہوا کہ آئینی حکمرانی کی داعی بار ایسوسی ایشنز بجائے اس کے کہ اپنی ہی برادری کے قانون شکنوں کی سرزنش کرتیں اور کلنک کا داغ دھوتیں وہ اپنے ہی پیشے کی ہزیمت کے دفاع میں کھڑی ہو گئیں۔ اب جوازِ گناہ کی بدتر گردان پہ اصرار ہے اور میڈیا کو کہا جا رہا ہے کہ اس کا ناطقہ بھی بند کر دیا جائے گا اگر متاثرہ لوگوں کو حملہ آوروں کے ہم رکاب نہ کیا گیا۔ تو کیا وکلا کے ساتھ ساتھ مقتولین و متاثرین کو بھی دہشت گردی کی عدالتوں میں پیش کیا جائے۔ 

وکلا برادری کی دھڑبندیوں کے انتخابی مفادات ایسے حاوی ہوئے کہ کالی بھیڑوں کا دفاع طرئہ امتیاز ٹھہرا۔ اس سے زیادہ قحط الرجال کیا ہوگا۔ ایسے میں محمد علی جناح، حسین شہید سہروردی، میاں محمود علی قصوری، عابد حسن منٹو اور عاصمہ جہانگیر جیسے لوگ یاد آئے جنہوں نے اپنے پیشے کی حرمت پہ کبھی آنچ نہ آنے دی اور حق پر کھڑے رہے۔ غالباً اب یہ جید بزرگ رول ماڈل نہیں رہے۔ اب رول ماڈل وہ فتنہ گر ہیں جن کے نام دُنیا بھر کی بدنامِ زمانہ اشتہاری (Most Wanted) فہرست میں ہیں۔ فکری انتہاپسندی اور تہذیبی زوال کے اس دور میں جس طرف دیکھو ہاہاکار مچی ہے۔ کسی نے کیا خوب ٹویٹ کیا ہے۔ 

مارکیٹوں میں تاجرگردی، عدالتوں میں وکلا گردی، تھانوں میں پولیس گردی، اسپتالوں میں ڈاکٹر گردی، میڈیا میں اسکینڈل گردی، انصاف کے ایوانوں میں (بابے) رحمت گردی، سیاست میں دھوکا گردی، منبر پہ مُلّا گردی، درسگاہوں میں جہالت گردی، اور مملکت خداداد پہ نگہبانوں کی قبضہ گردی۔ آوے کا آوا ہے کہ بگڑتے بگڑتے کیا سے کیا ہو گیا ہے۔ 

بدقسمتی سے پاکستان مجموعۂ اضداد بن چلا ہے مختلف سرکش طاقتور گروہوں کے مفادات کی رسہ کشی کا اور آئین و قانون کہیں منہ چھپائے محوِ تماشا ہیں۔

سماجی نراج و انسانی تنزلی کے ان مظاہر کی دوسری انتہا پہ انسانی ترقی کی تنزلی ہے جس کا رونا یو این ڈی پی کی ہیومن ڈویلپمنٹ رپورٹ میں دیا گیا ہے۔ انسانی ترقی کے انڈیکس (HDI) یا پیمانوں پہ پاکستان کے عوام غریب اور غریب تر ہو چلے ہیں اور حکمرانوں میں کوئی دل گرفتہ بھی نہیں۔ غربت کی اس درجہ بندی میں 189ممالک میں پاکستان پہلے سے بھی نیچے 152ویں مقامِ عبرت پہ گر گیا ہے۔ 

ہمارے ہاں غریبوں کی حالت و عسرت جنوبی ایشیا میں سب سے نازک تر ہے جو خطے میں 13 فیصد بدتر ہے۔ 2000-2015 کے برسوں میں ذرا بہتری آئی، لیکن پھر تنزلی نے آن گھیرا اور اب ہم درمیانی انسانی ترقی کی سطح سے بھی 12 فیصد نیچے گر گئے ہیں۔ تعلیم و صحت پہلے سے گراوٹ کا شکار ہوئی۔ یہ نابرابری پسماندہ علاقوں میں زیادہ اور عورتوں کے حوالے سے بدتر حالت کی غماز ہے۔ پاکستان میں سات کروڑ پچاس لاکھ یعنی ایک تہائی آبادی بشمول چار کروڑ بچوں کے انتہائی مفلسی کا شکار ہیں۔ 

ہر تین میں سے ایک بچہ ہر طرح کی سہولت سے محروم ہے۔ بچوں میں بھی لڑکیاں زیادہ بدسلوکی کا شکار ہیں اور اس کی شرح جنوبی ایشیا میں پاکستان میں سب سے زیادہ یعنی 27 فیصد ہے۔ معیشت دان ڈاکٹر عائشہ غوث کا کہنا ہے کہ 75 ملین لوگوں کا مفلوک الحال ہونا بڑا المیہ ہے۔ اب غریبی و مفلسی کا مقابلہ خیراتی پروگراموں سے نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس کے لیے ہم ایک ہمہ گیر اشتمالی و شراکتی ترقی کے ماڈل کو اختیار کرنا ہوگا۔ 

لے دے کے فقط ایک بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام شروع کیا گیا تھا جس سے غربت و استحصال کی طبقاتی بنیادیں بدلنے والی نہیں تھیں۔ سماجی و معاشی ترقی جس میں سارے عوام کی شراکت داری کے بنا غربت، جہالت، بے روزگاری، انسانی بے حرمتی اور ماحولیاتی تباہی ختم ہونے والی نہیں۔ 

لگتا ہے کہ حکمران طبقات نے طے کر لیا ہے کہ بس اُن کی عالیشان بستیاں آباد رہیں اور غریبوں کی بستیاں  مفلسی کے جہنم میں سسکتی رہیں۔

انسانی ترقی کی تنزلی کے ہوتے ہوئے پاکستان کیسے آگے بڑھ سکتا ہے۔ اوپر سے سول سوسائٹی کے زوال کے باعث آگے بڑھنے کی راہ بھی سجھائی نہیں دیتی۔ اُمرا کے طبقات کو اگر دلچسپی ہے تو اپنے مفادات کی۔ 

زمیندار ہوں یا تاجر اور کارخانے دار کوئی بھی جائز ٹیکس دینے کو تیار ہے نہ مزدوروں کی قابلِ گزارہ اُجرتیں دینے کو راضی۔ دیہی و شہری غریبوں کا کوئی پُرسانِ حال نہیں۔ 

قومی اولیتوں  میں تعلیم ہے نہ تربیت، صحت ہے نہ انسانی سلامتی۔ عوامی بدحالی و بے کاری کوئی چیلنج نہیں۔ بس دست نگر معیشت کا ایک بحران لاینحل ہے جس میں مقتدر طبقوں کو بس اپنی فکر لاحق رہتی ہے کہ کیسے قرضوں پہ قرضے لیتے ہوئے مالی و مالیاتی خسارے پورے کیے جائیں۔ 

خطرہ نوجوانوں کے انبوہِ کثیر کے ترقی کی تنزلی کے ہاتھوں بحران سے بھی نظر نہیں آ رہا۔ میں اُس وقت سے پریشان ہوں جب وہ نسلیں، جن کی نہ کوئی تعلیم ہوئی نہ تربیت اور یا پھر جو پڑھ لکھ کر بھی جاہل کی جاہل ہیں۔ اپنے اپنے پھن پھیلائے ایک دوسرے کو کاٹ کھانے کو دوڑیں گی۔ وکلا اور ڈاکٹروں کے مابین جھگڑا تو ایک چھوٹا سا ٹریلر ہے۔ 

ابھی جب وہ نکلیں گے جن کے پاس سوائے محرومیوں کے کھونے کو کچھ نہیں تو دیکھیے کیا قیامت بپا ہوتی ہے۔ پہلے دہائیوں تک دہشت گردوں کو پالنے پوسنے کا کام ہوا، اب اُن سے مُکتی پانے کا چلن ہے۔ 

اسلحہ کی زبان کم ہوئی تو نفرت و غلاظت کی زبان کو فروغ ملا۔ جس کا جہاں زور پڑا وہ لے اُڑا۔ اب چارہ گر کو کہاں تلاش کریں جب کوئی چارہ گر نہیں۔ کیا آنے والی صبح بھی ایسے ہی بے نور رہے گی؟

تازہ ترین