• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ابو! پلیز یہ ٹاپک سمجھادیں‘‘

’’ بیٹا ، ابھی بہت تھکا ہوں، بعد میں پوچھ لینا‘‘

’’ بہت مشکل ہے سمجھ نہیں آرہا، کل ہوم ورک چیک کروانا ہے ‘‘

’’ ایسا کرواپنے کسی کلاس فیلو کو فون کرکے پوچھ لو،جس نے مکمل کرلیا ہو‘‘

پھر وہ بچہ اپنے ہوم ورک کی تکمیل کے سلسلے میں پریشان ہو کر ادھر ادھر فون گھماتا رہ جاتاہے، ہوم ورک مکمل نہیں کرپاتا یا وہ صحیح نہیں ہوتا تو اگلے دن ٹیچر اس کی سرزنش کرتاہے۔ نتیجتاً بچے کی ذہنی کارکردگی پر مایوسی کے سائے منڈلانے لگتے ہیں۔

ہم یہ نہیں کہتے کہ سبھی والدین ایسا کرتے ہیں، لیکن چند ایک بھی کرتے ہیں تو انہیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے بچوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنےکیلئے اتنی تگ و دو کرتے ہیں، بھاری فیس ادا کرتے ہیں، اور ہر قسم کی سہولتیں فراہم کرتے ہیں، تو انہیں چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو تھوڑا وقت بھی دیں۔ ہو سکتاہے بچے کا ہوم ورک آپ کو سمجھ نہ آرہاہو ،تاہم آپ کو اسے سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے، اس مقصد کے لیے آپ اپنے کسی دوست سے رہنمائی بھی لے سکتے ہیں یا پھر انٹرنیٹ کے ذریعے معلومات حاصل کرکے اپنے الفاظ میں اسے سمجھائیں اور ہوم ورک کرنے میں مدد کریں۔ یقین جانیں کہ آپ کے اس طرح مشغول ہونے سے آپ کے بچے کی ذہنی صلاحیتوں پر بہت اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اسے یہ اطمینان اور ذہنی آسودگی ہوتی ہےکہ وہ جہاں کہیں بھی مشکل کا شکار ہوگا ، اس کے والدین اسے کے ساتھ ہوں گے اور اسے اس مشکل سے نکال لیں گے۔

آپ اگر روزانہ بچے کی ڈائری چیک کرکے اس کا ہوم ورک، اسائنمنٹس اور دن بھر کی سرگرمیوں یا نوٹسز کو جان لیں تو بھی بچے کے کئی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ بچوں کو صرف اسکول کے ہوم ورک یا اسائنمنٹس کیلئے ٹیوٹر لگانے سے آپ کی ذمہ داریاں پوری نہیں ہوجاتیں، بلکہ آپ کو ذاتی طور مشغول ہو کر اپنے بچے کے اچھے مستقبل کی آبیار ی کرنی ہے اور اس پودے کو خود پانی دینا ہے۔ آپ اپنے قیمتی وقت کو بچے پر نچھاورکریں گے تو وہ انمول موتی بن کر چمکے گا۔

مشغو ل ہونے کے مشورے

٭بچے کے ساتھ دوست کی طرح پیش آئیں، اس طرح بچہ آپ کے بہت قریب آجاتا ہے ۔

■ ٭بچے کے ساتھ زیادہ وقت گزاریں تاکہ وہ آپ سے اپنےتعلیمی اور دیگر مسائل شیئر کرسکے۔آپ کتنے ہی مصروف کیوں نہ ہوں، اسے تھوڑا وقت ضرور دیں تاکہ اسے پتہ ہو کہ آپ اس کی مدد کےلیے موجود ہیں۔

٭بچے کی بات رد کرنے کے بجائے غور سے سنیں، اگر آپ اس سے متفق نہیں ہیں تواسے اپنے خیالات سے آگاہ کریں۔

٭اس میں اعتماد پیدا کریں۔ اگر اس کا اسکول میں پہلا دن ہے تو اس سے اسکول کے بارے میں پوچھیں کہ اس نے اسکول میں کیا پڑھا،اسے ٹیچر کیسی لگیں، اس نے کوئی دوست بنایا یا نہیں۔ اس کا اعتماد بڑھائیں تاکہ وہ دوست بنانے کے ساتھ اسکول کے ماحول میں بہتر طور پر ایڈجسٹ ہوسکے۔

٭اس کے پسندیدہ مضمون، کھیل اور ٹی وی پروگرام کے بارے میں بات کیجئے۔ اسے اس کی پسندیدہ فلم دکھائیے یا اس کے ساتھ اس کا پسندیدہ کھیل دیکھئے، اس طرح آپ کو اپنے بچے کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔

٭پیرنٹ ٹیچر میٹنگ میں ضرور شرکت کریں، چاہے آپ کتنے ہی مصروف کیوں نہ ہوں۔ اس سے آپ کواپنے بچے کی تعلیمی کارکردگی کے بارے میں ہر چیز پتہ چلتی ہےاور خامیوں کو دور کرنے کا موقع ملتاہے۔

٭پیرنٹ ٹیچر میٹنگ کے علاو ہ بھی دیگر طریقوں سے اسکول سےرابطے میں رہیں، جیسے کہ اسکول اسمبلی میں شرکت، لائبریری یا کینٹین میں ہفتے دو ہفتے میں چند گھنٹے کیلئے رضا کارانہ خدمات دینا یا رضاکارانہ طور پر اسکول کی کسی تقریب کی تیاری میں مدد کرنا وغیرہ۔ شروع میں آپ کو یہ مشکل لگے گا لیکن جب آ پ اپنے بچے کے چہرے پر فخریہ تاثرات دیکھیں گے توآپ کو بہت اچھا محسوس ہوگا۔

٭بچوں کے پروجیکٹس اور اسائنمنٹس کی تکمیل میں ان کی بھرپور مدد کریں۔ اس کیلئے انہیں جہاں جانا ہو، وہاں لے کر جائیں او ر تمام درکار اشیا کے حصول کو ممکن بنائیں۔

٭بچوں کو رٹا لگوانے یا ان کی یادداشت کا امتحان لینے سے بہتر ہے کہ ان کے کونسیپٹس کلیئر کریں۔ رٹا لگا کر پہلی پوزیشن لینے سے حقیقی قابلیت حاصل نہیں ہوتی۔ علم صرف یادداشت کیلئے نہیں بلکہ شخصیت سازی کا حصہ ہونا چاہئے۔

٭بچے اسکول لائبریری سے جو کتابیں لا تے ہیں ، ان کو خود بھی دیکھیں کہ وہ کس نوعیت کی ہیں۔ بچوں کو پڑھ کر سنائیں یا ان سے سنیں اور ان پر تبصرہ (Review) لکھنے کو کہیں ۔

٭بچوں کو کسی قریبی لائبریری لے کر جائیں اور انہیں وہاں مطالعہ کرنے یا کتابوں کے انتخاب کا طریقہ سکھائیں۔ اسی طرح شہر میں ہونے والے کتب میلوں (بُک فیسٹیولز) میں انہیں لے جائیں اور ان کے ذوق کےمطابق انہیں کتابیں دلوائیں۔

تازہ ترین