• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ارادہ تھا کہ آج ایک تاریخی کالم لکھوں گا لیکن اتنے میں لندن سے ایک مخلص دوست کا فون آ گیا جن کی آواز بھاری اور لب و لہجہ غمگین تھا۔ ڈاکٹر طاہر جاوید میرے دیرینہ دوست ہیں اور کئی دہائیوں سے بیرونِ ملک لوگوں کے علاج معالجے میں مصروف ہیں۔ نمک غیروں کا کھاتے ہیں اور فکر پاکستان کی کرتے ہیں۔

اگر متفکرینِ پاکستان کا الیکشن کروایا جائے تو وہ بھاری اکثریت سے انجمنِ متفکرین پاکستان کے صدر منتخب ہو جائیں گے۔ کچھ قدرت کا بھی فیصلہ ہے کہ پاکستان کی فکر کرنے والوں کے لئے ہر وقت کچھ نہ کچھ سامان تیار رہتا ہے۔ ابھی آرمی چیف کی سروس میں توسیع کا معاملہ ٹھنڈا ہوا ہی تھا کہ عدالت نے جنرل پرویز مشرف کو غدار قرار دے دیا۔

خدشات و خطرات کے بادل گرجنے لگے، سیاستدانوں نے ایک دوسرے سے بڑھ کر اس فیصلے کی تحسین کی اور اسے آئندہ فوجی مداخلت کے خاتمے کا پیش خیمہ قرار دیا۔ ابھی وہ خوشی کے شادیانے بجا ہی رہے تھے کہ فوج کے ترجمان کی جانب سے شدید ردِعمل کا بیان آ گیا۔

شادیانے خاموش ہو گئے اور حکمرانوں کے لٹکے ہوئے چہرے ٹی وی چینلوں پر نظر آنے لگے۔ لوگ بڑے ظالم ہیں کہ ہر صورتحال سے لطف اندوز ہونے کا راستہ نکال لیتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر کم سے کم نصف درجن وڈیوز وائرل کر دی گئیں جن میں عمران خان وزیراعظم بننے سے قبل جنرل پرویز مشرف کو غدار قرار دے کر سزائے موت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ پاکستانی سیاستدانوں کی ’’موجیں ہی موجیں‘‘ ہیں۔

آج پالیسی بیان دے کر چند دنوں بعد اس سے تائب ہو جانا یا اس کے برعکس بیان دینا ہماری سیاست میں بالکل جائز سمجھا جاتا ہے۔ میں نے ہر وزیراعظم کو اقتدار سے پہلے اور اقتدار کے بعد مختلف اور کبھی کبھی متضاد پایا۔ کچھ ہمارے ملک میں اقتدار کی مجبوریاں بھی ہوتی ہیں۔

ڈاکٹر خان صاحب کو ون یونٹ کے بعد وزیراعلیٰ بن کر اپنے پیارے بھائی خان غفار خان کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنا پڑے اور وزیراعظم بینظیر بھٹو کو اپنے سگے بھائی کے قتل کے بعد آنسو بہا کر خاموش ہونا پڑا۔ شاید اس لئے پاکستانی سیاست کو سیاست کے بجائے منافقت کہا جاتا ہے۔

ذکر ہو رہا تھا لندنی دوست کا جسے عدالت کے فیصلے نے نہایت متفکر کر دیا تھا۔ اُس کا یہ کہنا درست ہے کہ سابق آرمی چیف کو غدار قرار دینا ملکی مفاد میں نہیں ہے۔ اگر غیر سیاسی قوتیں آئین کو پامال کریں تو انہیں آئین شکن کہنا اور قرار دینا چاہئے۔

اسی طرح آئین کی شق 6کے الفاظ High Treasonکا ترجمہ غداری، یا سنگین غداری کے بجائے آئین شکنی کرنا چاہئے تاکہ کسی کی دل آزادی نہ ہو اور نہ ہی ملکی مفاد مجروح ہو۔ سچ یہ ہے کہ ہماری تاریخ کے مطابق فیلڈ مارشل ایوب خان بابائے قوم کی بہن اور قیامِ پاکستان کی تحریک میں برابر کی شریک کو تو غدار کہہ سکتے ہیں لیکن انہیں آئین شکنی پر غدار قرار نہیں دیا جا سکتا۔

دوسری بار مارشل لا لگانے والے اور اپنی غلطیوں سے ملک توڑنے کے جرم میں حصہ ڈالنے والے جنرل یحییٰ خان کو بھی عدالت نے ان کی وفات کے بعد غاصب قرار دیا۔ عاصمہ جیلانی کیس میں ہائیکورٹ نے جنرل یحییٰ خان کو اپنا ہی ملک فتح کرنے کا طعنہ دیا تھا جبکہ ان کے پیشرو ایوب خان اس اعزاز سے محروم رہے حالانکہ مارشل لا لگانے کی رسم کا آغاز انہی کے ہاتھوں ہوا تھا۔

قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ 1956کے آئین میں بھی آئین شکنی کی سنگین سزا موجود تھی جسے جنرل ایوب خان نے موت کی نیند سلا دیا تھا۔ میں نے ڈاکٹر جاوید کو جذباتی سہارا دینے کیلئے کہا کہ متفکر ہونے کے بجائے رجائیت پسند (Optimistic) بنو اور ہر پیش رفت میں بہتری ڈھونڈنے کی عادت ڈالو۔ مثلاً آپ غور کریں کہ پہلے قدم کے طور پر عدالت نے جنرل یحییٰ خان کو وفات کے بعد غاصب قرار دیا۔

یہ ایک مثبت پیش رفت تھی، جنرل ضیاء الحق ہوا میں تحلیل ہو کر آئین شکنی کے جرم کی سزا سے بچ گئے۔ ویسے ہمیں تو یہ بھی کہنے کی جرأت نہیں ہوتی کہ جنرل ضیاء الحق نے ہر فوجی کی مانند آئین سے وفاداری کا حلف اٹھایا لیکن اقتدار کی قوت کے نشے میں یہ تک فرما دیا کہ آئین کیا ہے؟ بیس صفوں کی کتاب جسے میں پھاڑ کر ردی کی ٹوکری میں پھینک سکتا ہوں۔ اس لئے تجزیہ کار اب حلف کو بھی نئے نئے نام دینے لگے ہیں۔ دوسری پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ عدالت نے جنرل پرویز مشرف کو ان کی زندگی ہی میں مجرم قرار دے دیا ہے۔

بے شک اس فیصلے میں بہت سی خامیاں ہیں اور اس پر عملدرآمد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن 72سال بعد فوجی مداخلت کو آئین کی شق 6کا مرتکب قرار دینا ایک اہم پیش رفت ہے۔ البتہ یہ بات اپنی جگہ قابلِ فہم ہے کہ اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ کر ملک کا دفاع کرنے والے کو غدار کہنا زیادتی اور جگ ہنسائی ہے۔

اسے آئین شکنی کہا جا سکتا ہے جو ایک حقیقت ہے، رہا غدار تو اس لفظ کو صرف سیاستدانوں کے لئے مخصوص کر دیں اور جس پر جی چاہے بےدریغ چپکا دیا کریں۔ صرف مادرِ ملت ہی کو یہ خطاب نہیں ملا بلکہ عبدالغفار خان اور ولی خان سے لیکر بھٹو تک یہ خطاب دریا دلی سے تقسیم کیا جاتا رہا ہے اور ان شاء اللّٰہ آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری و ساری رہے گا۔ اس لئے میری دردمندانہ گزارش ہے کہ غداری کے خطاب یا جرم کو صرف سیاستدانوں تک محدود رکھیں۔ سیاستدان وسیع القلب لوگ ہوتے ہیں۔

غدار کہلوا کر بھی مسکراتے رہتے ہیں اور کبھی کبھی شیخ مجیب الرحمٰن کی مانند غدار سے قومی ہیرو اور بابائے قوم بن جاتے ہیں۔ بھٹو کے دور میں سپریم کورٹ میں ولی خان پر غداری کا مقدمہ چلا لیکن جنرل ضیاالحق نے سی ایم ایل اے بن کر انہیں حب الوطنی کی سند عطا کر دی۔

ظاہر ہے کہ ایسا صرف وہ ہی کر سکتے تھے۔اس لئے میری دردمندانہ گزارش ہے کہ اچھے بچے بنو، فکر سے اپنی صحت خراب نہ کرو اور اپنے پائوں پر کلہاڑی مت مارو۔

تازہ ترین