گو یہ حتمی طور پر طے نہیں ہوا تھا کہ ملک کی دس سالہ مردم شماری مارچ کے مہینے میں ہوگی۔ قرآئن اس کا اشارہ کررہے تھے۔ لیجئے مارچ آیا اور گزر بھی گیا اور مشترکہ مفاد کونسل نے ایک مرتبہ پھر مردم شماری کے انعقاد کو متفقہ طور پر غیرمعینہ عرصے کیلئے موخر کردیا۔ آئندہ فوج اور صوبوں کے اشتراک سے چھٹی مردم شماری کی تاریخ متعین کی جائے گی۔ مردم شماری سول حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے اس میں فوج کو اس لئے شامل کیا جا رہا ہے کہ 1998ء کی پانچویں مردم شماری پر خصوصاً ایک صوبے اور بعض سیاسی جماعتوں کو شک تھا کہ مردم شماری شفاف طریقے سے نہیں ہوئی۔ بعض صوبوں کی آبادی کو بڑھایا اور بعض کی آبادی کو گھٹایا گیا ، حالانکہ وفاق کو کسی صوبے کی آبادی میں اضافے پر تشویش کی ضرورت نہیں اس کو ملک کی مجموعی آبادی کو دیکھنا ہوتا ہے۔
ملکوں کی آبادی اب صرف معاشی مسئلہ نہیں رہا بلکہ اس نے سیاسی ، سماجی ، ثقافتی ، تعلیمی، دفاعی مختلف صورتیں اختیار کرلی ہیں اور اس سے مختلف ملک ، طبقے اور افراد اپنے اپنے طور پر فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ عالمی آبادی کا مسئلہ بم کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ پانچ بڑے ممالک سلامتی کونسل کو اپنے اقتدار میں لے چکے ہیں دیگر کثیر آبادی والے ملک جیسے انڈیا ، انڈونیشیا ، برازیل ، پاکستان ، جاپان اور بنگلہ دیش اور نائیجیریا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اس کے بین الاقوامی اداروں اور دوسرے عالمی تنظیموں کے انتظامی بورڈوں میں داخل ہونے کی تگ و دو میں مصروف ہیں ۔ہمارے ہاں ہر بگڑا ہوا کام افواج پاکستان درست کرتی ہیں اس لئے یہاں بھی خصوصاً دو صوبوں کی طرف سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ مردم شماری فوج کی نگرانی میں کرائی جائے، وفاق نے یہ مطالبہ مان لیا اور افواج پاکستان سے درخواست کی وہ مردم شماری کے کام کیلئے مردم شماری کے بلاکوں کے مطابق 3لاکھ فوجی نوجوان 17=10+7 یوم کیلئے مردم شماری کے محکمے کو تفویض کرے۔ سب کو علم ہے کہ افواج پاکستان ایک جانب ضرب عضب کے آخری مراحل میں اپنی توانیاں صرف کررہی ہیں۔ دوسری طرف کراچی اور دوسرے علاقوں میں دہشت گردوں کی سرکوبی میں مصروف ہیں اسلئے اس کیلئے اپنے جوانوں کی اتنی بڑ ی تعداد سول حکومت کو تفویض کرنا ناممکن ہے۔برصغیر میں برطانوی حکومت نے 67سالہ مردم شماری کا آغاز 1881ء سے کیا۔ جب سے بھارت میں برابر مردم شماری ہورہی ہے اور پاکستان میں بھی کچھ وقفے سے پانچ مردم شماریاں ہو چکی ہیں۔ مردم شماری کے ابتدائی زمانوں میں نہ تو آمدورفت کی ایسی سہولتیں حاصل تھیں جو آج ہیں اور نہ راستے محفوظ مگر 1927ء تک کوئی گڑبڑ یا شکایت نہیں ہوئی۔
اگلی تین مردم شماریوں میں سیاست دانوں نے فرقہ وارانہ اور لسانی مسائل اٹھائے۔ 1941ء کی مردم شماری ہوئی مگر اس کی تفصیلی رپورٹ دوسری عالمگیر جنگ کی وجہ سے شائع نہیں ہوئی۔ ہمارے ہاں 1998ء کی مردم شماری کو ایک صوبے میں غیرشفاف اور قابل اعتراض بتایا گیا۔ حالانکہ احتسابی جائزوں میں کسی بڑی شکایت کا پتہ نہ چلا۔
چنانچہ اس مرتبہ دو صوبوں کی طرف سے یہ مطالبہ پیش ہوا کہ مردم شماری فوج کی نگرانی میں کرائی جائے اور وفاق نے یہ مطالبہ تسلیم کرلیا مگر فوج نے اپنی مصروفیت کی بنا پر انکار کردیا۔ سب سے بڑے پیمانے پراحتجاج سندھ میں ہوا اور اس کے سرگرم رکن وزیراعلیٰ سندھ تھے۔ انہوں نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ تنہا سندھ کی مردم شماری کرادی جائے۔ گو یہ تجویز منظور نہیں ہوئی مگر اس سے سندھ کے شہروں اور دیہات کی آبادی تو معلوم ہوجاتی مگر سندھ اسکے فوائد سے محروم رہتا۔ نہ تو اس کو سینیٹ میں تناسب سے نشستیں ملتیں، نہ مالیاتی ایوارڈ میں اس کا حصہ بڑھتا نہ وفاقی ملازمتوں میں اس کا کوٹا بڑھتا۔ اس کو ان فوائد کے حصول کیلئے دوسرے صوبوں کی مردم شماریوں اور ان کے نتائج کا انتظار کرنا پڑتا۔
24مارچ کے کونسل کے اجلاس میں وزیراعلیٰ سندھ نے سندھ میں فوری مردم شماری کا مطالبہ کیا کہ مردم شماری کی تاریخ کا اعلان کردیں۔ وزیراعظم نے انہیں یقین دلایا کہ مردم شماری 2016ء ہی میں ہوگی۔ اور شیڈول کا اعلان فوج اور صوبوں کی مشاورت سے ہوگا۔
وزیراعظم کے اس بیان سے اس پہلو کو تقویت ملتی ہے کہ حکومت مردم شماری کو شفاف اور قابل قبول بنانے کیلئے فوج ہی کے تعاون سے کرانا چاہتی اور فوج شاید کچھ عرصے اس کیلئے تیار نہ ہوسکے۔ کالم نگاروں کو یہ شبہ بھی ہے کہ بعض سرکاری حلقوں کا یہ خیال ہے کہ مردم شماری 2018ء میں کرائی جائے تاکہ بیس سالہ اعداد و شمار کا تقابل نسبتاً آسان ہوسکے۔ آدم شماری میں آدمیوں کو گنا جاتا ہے۔ سندھ کے آدمیوں (عوام) کو اس کی تاخیر منظور نہیں انہوں نے احتجاج پورے صوبے میں شٹرڈائون اور پہیہ جام کا پروگرام بنایا ہے۔ اللہ کرے یہ امن و امان سے گزر جائے۔