• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

20 جنوری کو ایک بار پھر یمن میں بڑا حملہ ہوا، اس کے نتیجے میں سیکڑوں افراد ہلاک و زخمی ہوئے۔ یہ حملہ ایک فوجی تربیتی مرکز پر میزائل سے کیا گیا اور اس کا ذمہ دار متنازع صدر منصور ہادی نے حوثی باغیوں کو قرار دیا ہے۔منصور ہادی متنازع اس لئے ہیں کہ ان کی عمل داری پورے یمن پر نہیں ہے اور نہ ہی یہ یمن کے منتخب صدر ہیں۔ پچھتر سالہ منصور ہادی اس سے قبل یمنی مسلح افواج کے فیلڈ مارشل رہ چکے ہیں۔ یہ وہ مسلح افواج تھیں جو 1990 میں شمالی اور جنوبی یمن میں اتحاد ہونے کے بعد وجود میں آئی تھیں۔ شمالی یمن ملک کے مغربی علاقے میں واقع تھا اور اس کا درالحکومت صنعا تھا۔ یہ ملک 1962 سے 1990 تک یعنی اٹھائیس سال وجود میں رہا۔

اس کا پس منظر یہ تھا کہ 1918 میں شمالی یمن مملکت متوکلیہ کے نام سے وجود میں آیا۔ یہ مملکت متوکلیہ 1918 سے 1962 یعنی چوالیس سال شمالی یمن میں قائم رہی ، اس کا دارالحکومت 1948 تک صنعا تھا اور پھر تعز کو دارالحکومت بنایا گیا۔ یاد رہے کہ جزیرہ نمائے عرب کے جنوب مغربی علاقے کو یمنی کبریٰ یا گریٹر یمن کہا جاتا تھا جس کی سرحدیں موجودہ سعودی عرب کے علاقوں عسیر، نجران اور جیزان تک پھیلی ہوئی تھیں۔اگر جزیرہ نمائے عرب پر نظر ڈالیں تو اس کا مغربی ساحل جو خلیج عقبہ سے باب المندب تک پھیلا ہوا ہے ،تیھامہ کہلاتا ہے۔ 

اس طرح یمن الکبریٰ مشرق میں موجودہ سلطنت عمان کے علاقے ظفار سے مغرب میں تہامہ کے جنوبی کنارے تک پھیلا ہوا تھا اور اسی جغرافیائی وحدت آج کل کی خانہ جنگی کی نشانیاں ملتی ہیں۔ تازہ ترین حملہ یمن کے مرکزی صوبے ماریب میں صنعا کے مشرق میں ہوا اور اس میں ایک مسجد بھی نشانہ بنی جہاں لوگ نماز کے لئے جمع ہو رہے تھے،گو کہ یمن کی متنازع حکومت نے حوثی باغیوں کو اس حملے کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ لیکن وہ اس کی ذمہ داری اب تک قبول نہیں کر رہے ہیں۔

اب تک یمن کے اس تنازع میں تقریباً بیس ہزار لوگ ہلاک ہوچکے ہیں، جن میں زیاد تر اموات سعودی عرب کی اتحادی افواج کے حملوں سے ہوئی ہیں۔ان کے علاوہ لاکھوں لوگ بے گھر ہوچکے ہیں جو غذائی قلت اور طبی سہولتوں کی کمی کا شکار ہیں۔ حالیہ تنازع کا آغاز دو ہزار چودہ میں اس وقت ہوا تھا جب حوثی قبائل نے اور سابق صدر علی عبداللہ صالح کی وفادار افواج نے صنعا پر قبضہ کر لیاتھا۔ اس کے بعد 2015 میں سعودی اتحادی افواج نے حوثی اور صالح کی افواج پر حملہ کیا اور صدر منصور ہادی کی مدد کی۔ امریکا نے بھی سعودی اتحادیوں کی مدد کی۔

حوثی قبائل نے دسمبر 2017 میں صالح کو قتل کر دیا اور پھر جنوری 2018 میں یمن کی سرکاری افواج اور متحدہ عرب امارات کی حمایت یافتہ عدن میں مقیم یمنی افواج میں لڑائی چھڑ گئی جس کے بعد پچھلے دو سال سے تقریباً ڈیڑھ کروڑ افراد فاقہ کشی کا شکار ہیں اور موت کے دھانے پر کھڑے ہیں جب کہ تین لاکھ سے زیادہ عورتیں اور بچے تشدد کا شکار ہیں۔ پچھلے پانچ سال میں اتحادی افواج کی طرف سے سیکڑوں فضائی حملے کئے جا چکے یں جن میں گھر، بازار، اسپتال اور اسکول وغیرہ سب نشانہ بن چکے یں۔ 2018 میں ایک اتحادی حملے نے شادی کی تقریب کو نشانہ بنایا جس میں درجنوں لوگ مارے گئے تھے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ان حملوں میں زیادہ تر امریکی اسلحہ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں حوثی افواج نے بھی بار بار ان یمنی شہروں اور علاقوں پر گولہ باری کی ہے جو ان کے قبضے میں نہیں ہیں اور پھر بیلاسٹک میزائل کے ذریعے سعودی عرب پر بھی حملے کئے ہیں جو سب جنگی جرائم میں شمار ہوسکتے ہیں۔ حوثی حملوں کا شکار ہونے والے شہروں میں یمن کا تیسرا بڑا شہر تعز بھی شامل ہے۔

2017ءمیں اگست کے مہینے میں حوثی اور صالح کی افواج نے تعز پر بار بار حملے کئے اس سے قبل مئی 2017 میں بھی ایسا ہی ہوا تھا اور درجنوں لوگ مارے گئے تھے جس کے جواب میں منصور ہادی کی افواج نے جوابی گولہ باری جاری رکھی۔ چوں کہ تعز کے شہر پر مارچ 2016 میں منصور ہادی کی افواج نے قبضہ کر لیا تھا اس لئے حوثی صالح افواج اس کو فتح کرنا چاہ رہی تھیں۔اس کےعلاوہ جگہ جگہ بارودی سرنگیں بچھا دی گئی ہیں جس سے سویلین لوگ مارے جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ متحارب فریق سویلین لوگوں کو بلاوجہ زبردستی گرفتار کر کے انہیں تشدد کا نشانہ بھی بناتے رہے ہیں۔ اگست 2019 میں حوثی افواج نے جنوبی شہر عدن میں منصور ہادی کی سرکاری فوجی پریڈ پر حملہ کر کے درجنوں افرادکو ہلاک کر دیا تھا۔

مارچ 2015میں جب حوثیوں نے ملک کے بیشتر مغربی علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا تو صدر منصور ہادی کو ملک چھوڑ کر فرار ہونا پڑا تھا پھر سعودی عرب اور آٹھ دیگر سنی اکثریتی عرب ممالک نے منصور ہادی کی حمایت میں حوثیوں پر حملے شروع کئے تھے۔

اس تنازع کا ایک پہلو یہ ہے کہ منصور ہادی کے حامی سمجھتے ہیں کہ حوثیوں کو ایران کی حمایت اور مدد حاصل ہے۔ امن کے لئے امریکا، برطانیہ اور فرانس وغیرہ نے سعودی اتحادی افواج کو اسلحہ اور فوجی معاونت فراہم کرنی شروع کی۔

دسمبر 2019 میں حوثی باغی اس بات پر راضی ہوگئے تھے کہ اقوام متحدہ کے تحت جنگ بندی کریں اور بحیرہ احمر کی تین بندرگاہوں سے اپنی افواج کو باہر نکال لیں تاکہ امدادی سامان کی ترسیل ہوسکے۔

اس سے قبل ستمبر 2019 میں بھی حوثیوں نے سعودی عرب پر حملے نہ کرنے کی پیشکش کی تھی۔ ایک طرح سے حوثیوں اور افغانستان کے طالبان میں کچھ باتیں مشترک ہیں۔ مثلاً دونوں ایک طرف تو مذاکرات چاہتے ہیں اور دوسری طرف اپنے مخالفین پر حملے بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ حوثی اور طالبان دونوں اپنے اپنے ممالک کے بڑے حصوں پر قابض ہیں اور دونوں کے خلاف امریکی اتحادی ا فواج لڑرہی ہیں،بس فرق یہ ہے کہ اشرف غنی افغانستان کے دارالحکومت پر قابض ہیں اور منصور ہادی کو صنعا سے بھاگ کر عدن کو اپنا دارالحکومت بنانا پڑا۔

اس وقت حوثی باغیوں کی سپریم کونسل کے سربراہ مہدی المشاہتہ ہیں جو کئی بار یہ وعدے کر چکے ہیں کہ وہ سعودی عرب پر حملے ختم کر دیں بشرطیکہ سعودی عرب اور اس کے اتحادی بھی ایسا ہی کریں۔ پھر یہ ہوا کہ ستمبر میں ہی سعودی اتحاد کی بمباری سے 100 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے اور امن کے امکانات پھر ناپید ہوگئے تھے۔2019 میں اس جنگ میں ایک موڑ اس وقت آیا تھا جب برطانیہ کی ایک عدالت نے قرار دیا تھا کہ سعودی عرب کو برطانوی اسلحہ کی فروخت غیر قانونی ہے، کیوں کہ سعودی عرب برطانوی اسلحہ یمن میں استعمال کر رہا ہے۔ 

اسلحہ کی تجارت کے خلاف تنظیم ’’کمپین اگینٹ آرمز ٹریڈ‘‘ نے عدالت میں درخواست دی تھی کہ سعودی عرب کو اسلحہ کی فراہمی بند کی جائے کیوں کہ اس سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے اور اس فیصلے کے بعد برطانیہ کے بین الاقوامی تجارت کے وزیر ولیم فوکس نے کہا تھا کہ اب سعودی عرب اور اس کے اتحایوں کو برطانوی اسلحہ فروخت کرنے کے لئے کوئی نیا لائسنس جاری نہیں کیا جائے گا۔

اس تنازع کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ بظاہر امن پسند متحدہ عرب امارات نے بھی یمن میں سات ہزار فوجی تعینات کئے تھے جو اب کم ہو کر چند سو رہ گئے ہیں اس لئے اب زیادہ سعودی اور یمنی افواج ہی وقتاً فوقتاً حوثیوں سے مقابلے کرتی ہیں۔ متحدہ عرب امارات کا خیال تھا کہ وہ اس جنگ میں حصہ لے کر کئی مقاصد کے حصول میں مدد کرے گا مثلاً حوثیوں کو یمن پر قبضے سے روکا گیا کیوں کہ ایسا ہوتا تو آبنائے باب المندب بھی ایرانی زیر اثر آ جاتی۔

مجموعی طور پر دیکھا جائے تو اس جنگ سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کوئی بڑے مقاصد حاصل نہیں کرسکے ہیں کیوں کہ حوثی اب بھی صنعا اور دیگر بڑے علاقوں پر قابض ہیں اور امریکا بھی بظاہر یہی چاہتا ہے کہ اس کا اسلحہ بکتا رہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ منصور ہادی جن کا پورا نام عبدالرب منصور ہادی ہے صرف تین سال یعنی 2012 سے 2015 تک یمن کے صدر رہے اس سے قبل وہ اٹھارہ سال یعنی 1994 سے 2012 نائب صدر کے عہدے پر فائز تھے۔ اس دوران علی عبداللہ صالح یمن کے صدر تھے۔ علی عبداللہ صالح جو 2017 میں ستر سال کی عمر میں حوثیوں کے ہاتھوں مارے گئے 1990 میں متحدہ یمن کے صدر بنے تھے اور بائیس سال اس عہدے پر فائز رہے۔

اس سے قبل صالح شمالی یمن کے صدر 1978 سے 1990 تک رہے تھے یعنی بارہ سال، مجموعی طور پر وہ تیس سال صدر کے عہدے پر براجمان رہے پھر بھی اقتدار چھوڑنا نہیں چاہتے تھے۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا شمالی یمن پہلے 1918 سے 1962 تک متوکلیہ سلطنت کے نام سے جانا جاتا تھا جسے مملکت متوکلیہ کہتے تھے۔ جب زیدی فرقے سے تعلق رکھنے والے مذہبی رہنمائوں نے عثمانی حکمرانوں کو یمن سے نکالا تو یہاں شمال اور جنوب کو متحد رکھنا مشکل ہوگیا تھا جس کی بڑی وجہ یمن کے پہاڑی علاقے تھے۔

گو کہ 1850 میں سلطنت عثمانیہ نے تیھامہ کے ساحلی علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا اور زیدی اماموں کو مجبور کیا تھا کہ وہ عثمانی بالادستی کو قبول کر لیں اور صنعا میں ایک چھوٹی عثمانی فوج رکھنے کی اجازت دیں۔ پھر پہلی جنگ عظیم کے دوران زیدیوں نے پہاڑی علاقوں پر قبضے کر لئے تھے۔ 1918 میں بننے والی شمالی مملکت 1990 تک رہی اور پھر اس کو متحد کیا گیا اور اب یہ اتحاد دوبارہ ٹوٹ گیا ہے جس کا فوری دوبارہ جڑنا نظر نہیں آتا۔

تازہ ترین