• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میر صاحب نے طوفانوں میں ’’جنگ‘‘ کا چراغ روشن رکھا

نصر اللہ خان

 میر صاحب کی پہلی برسی پر نصراللہ خان ،مر حوم نے’’ میر صاحب کی یاد‘‘ کے عنوان سے 1993ء میں زیر نظر کالم لکھا تھا ۔

میر صاحب نے طوفانوں میں ’’جنگ‘‘ کا چراغ روشن رکھا
فیلڈمارشل محمد ایوب خان سے ہاتھ ملاتے ہوئے

بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ میر صاحب ہم سے جدا ہو گئے حالانکہ وہ اب بھی ہم میں موجود ہیں۔ وہی ہر دکھ سکھ میں ان کا مسکراتا ہوا چہرہ ، ان کی ملائم نرم گفتگو ، حوصلہ افزا اور دوستانہ پیار بھری باتیں پھر ان کی میانہ روی، اعتدال پسندی، نظریہ پاکستان اور اسلام سے ان کی والہانہ وابستگی اور جنگ کے اداریوں میں اس کا اظہار، یہ سب باتیں ہمارے ذہنوں میں محفوظ ہیں۔ میر صاحب کا نام ان لوگوں میں شامل ہے جو مر کر امر ہو جاتے ہیں اور دلوں میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ ہم ان کی برسی نہیں مناتے بلکہ ان کے جدا ہونے پر اپنی برسی مناتے ہیں اور مجھ جیسے لوگ جن کی وابستگی میر صاحب سے برسوں رہی ہے تو اب بھی مجھے یہ یقین نہیں آتا کہ میر صاحب ہم سے جدا ہو گئے ہیں۔ 

میر صاحب نے طوفانوں میں ’’جنگ‘‘ کا چراغ روشن رکھا
میرصاحب، سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے ہمراہ ایک تقریب میں

میر صاحب اپنے پرانے ساتھیوں کا پاس، لحاظ اور ان کا احترام کرتے تھے اور انہیں اپنے برابر کا سمجھتے۔ اگر وہ میر صاحب سے روٹھ جاتے اور ملازمت چھوڑ دیتے تو میر صاحب انہیں منا کر لے آتے۔ ایک مرتبہ روزنامہ جنگ کے ایک ملازم کو جو اس اخبار کے اجراء کے وقت سے ادارے میں شامل تھا، اسے ریٹائر کر دیا گیا تو میر صاحب نے انتظامیہ سے کہا کہ تم نے اسے ریٹائر نہیں کیا بلکہ میر خلیل الرحمٰن کو جنگ سے ریٹائر کر دیا ہے، چنانچہ اسے واپس بلا لیا گیا۔ میر صاحب نےجنگ کا اجراء کیا تو اخبار ایسے لوگ نکالا کرتے تھے یا نکالا کرتے ہیں جن کا شمار یا تو چوٹی کے سیاسی لیڈروں میں ہوتا یا جن کے پاس دولت کی فراوانی ہوتی ہے۔ لیکن میر صاحب کے پاس ان میں سے کچھ بھی نہیں تھا۔ 

میر صاحب نے طوفانوں میں ’’جنگ‘‘ کا چراغ روشن رکھا
دورۂ ابوظہبی پر میرخلیل الرحمٰن، شیخ زید بن سلطان النہیان سے مصافحہ کررہے ہیں،سابق صدرپاکستان ضیاء الحق بھی موجود ہیں

ان کی حالت اس روایتی بڑھیا کی سی تھی جو سوت کی انی لے کر بازار مصر میں یوسفؑ کو خریدنے گئی تھی۔ اخبار نکالنا ہاتھی پالنے کے برابر ہے اور جو ملازمت کر کے بڑی مشکل سے گزر بسر کرتا ہو وہ ہاتھی پالنے یا اخبار نکالنے کی جرات کیسے کر سکتا ہے۔ میر صاحب نے شہرت حاصل کرنے یا کمانے کا ذریعہ بنانے کے لئے اخبار نہیں نکالا بلکہ یوں لگتا ہے کہ ان کے اندر اس زمانے میں جو ایک چھوٹا سا صحافی تھا وہ انہیں برابر اخبار نکالنے پر اکساتا رہا، پھر میر صاحب نے بڑی جرات اور حوصلے سے کام لے کر اپنی اس دیرینہ خواہش کو پورا کرنے کا آغاز کر دیا۔

میر صاحب نے طوفانوں میں ’’جنگ‘‘ کا چراغ روشن رکھا
دورۂ امریکا کے موقعے پرمیرخلیل الرحمٰن ، امریکا کے سابق صدرریگن اور پاکستان کے سابق وزیراعظم محمدخان جونیجو کے ہمراہ

ہم اس کٹھن سفر میں ان کے ہم سفر ہو گئے اور پھر دیکھتے دیکھتے روزنامہ جنگ بڑے آب و تاب سے شائع ہوا اس نے منزلوں پر منزلیں مارنا شروع کر دیں اور یہ دنوں میں ایک مقبول ترین اور کثیرالاشاعت اخبار بن گیا، ایسا کیوں ہوا اور ایسا کیسے ہوا ؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ جنگ کا چراغ اس کے مالک نے جس کی حیثیت ایک مزدور قلم کار کی تھی، اپنے خون سے روشن کیا تھا اور ایسے چراغ باد مخالف کے جھونکے بجھا نہیں سکتے، یہ ہمیشہ روشن رہتے ہیں۔ میر صاحب نے طوفانوں میں جنگ کا چراغ روشن رکھا اور جھکڑوں میں وہ اس کی شیرازہ بندی کرتے رہے۔ میر خلیل الرحمٰن کا ایک نام روزنامہ جنگ بھی ہے اور اس نام سے میر صاحب ہمیشہ زندہ رہیں گے۔

تازہ ترین