• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس قصے کاآغاز اپریل مئی 2004 میں ہوا!
ملک پر اصل حکمرانی تو جنرل مشرف ہی کی تھی مگر اپنی طاقت انہوں نے سول حکومتیںبناکر ان کے پردے کے پیچھے چھپا رکھی تھی۔ پنجاب پرحکومت چودھری پرویز الٰہی کی تھی۔ شریف برادران ”جدہ بدر“ ہوچکے تھے۔ اس لئے پنجاب میں کوئی بڑی شخصیت چودھری پرویز الٰہی کوچیلنج کرنے والی نہیںتھی۔ پھراوپر سے جنرل مشرف کی چھتر چھایہ، نتیجتاً پرویز الٰہی ظل الٰہی بن کر حکومت کر رہے تھے!
اپریل مئی 2004 میں وزیراعلیٰ پرویز الٰہی کے ذہن میں پنجاب کو ترقی دینے کا ایک نادر آئیڈیا آیا۔ انہوں نے اپنی تقریروں اور جلسوں میں ”پنجاب ڈویلپمنٹ فنڈ“ یا PDF کاآئیڈیا پیش کرنا شروع کیا۔ اس دور کے ان کے بیانات کے مطابق اس فنڈمیں ہر شخص 25,25 روپے دے کر شرکت کرسکے گا۔ اس طرح اتنے پیسے اکٹھا ہوجائیں گے کہ ترقیاتی منصوبوں کے لئے پنجاب کسی اور کا محتاج نہیں رہے گا۔ ان دنوں جو خبریں چھپیںان کے مطابق چودھری پرویز الٰہی نے PDF کے قیام کےلئے پے درپے میٹنگیںکیں جن میں اس وقت کے چیف سیکرٹری کامران رسول، سیکرٹری خزانہ سلمان صدیق، سیکرٹری اطلاعات تیمور عظمت عثمان، پنجاب کے ایک بنک کے چیئرمین شہزاد حسن پرویز اور بنک کے ایم ڈی ہمیش خان (ان دنوں NAB کی تحویل میں ہیں) شامل ہوتے تھے۔ بالآخر پنجاب حکومت نے یہ فنڈ قائم کردیا۔ بنک کو اس کا فنڈ منیجر مقر ر کیاگیا!!
لیکن ٹھہریئے! اس فنڈ کو قائم کرنے میں چودھری خاندان کی بھٹو دشمنی کا بھی تھوڑا بہت اثر تھا، جس کا ذکر بے جا نہ ہوگا!!
اعجاز حسین بٹالوی مرحوم ایک بڑے وکیل تھے۔ انہوں نے بھٹو کو پھانسی دلوانے کے مقدمے میں وکلاءاستغاثہ کی ٹیم کی قیادت کی۔ بھٹو کو پھانسی ہو گئی اور ظہور الٰہی خاندان نے اپنی بھٹو دشمنی میں اعجاز حسین بٹالوی صاحب سے پکی دوستی کرلی۔ بٹالوی صاحب لمبی عمر جئے۔ مرتے وقت انہوں نے اپنے منہ بولے بھتیجے اور وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی سے کہا کہ وہ ان کے مرنے کے بعد ان کے بیٹے کا ”خیال“رکھیں۔ چودھری خاندان تعلقات نبھانے میں شہرت رکھتاہے۔ مرحوم اعجاز حسین بٹالوی کے بیٹے ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی چلا رہے تھے، چنانچہ وزیراعلیٰ نے PDF کی تشہیر اور اسے چلانے کا ٹھیکہ ”چھوٹے بٹالوی“ صاحب کو دے دیا!مگر اتنا بڑا کام ان کے لئے بھاری پتھر ثابت ہوا اور انہوں نے اسے چوم کر چھوڑ دیا۔ چودھری پرویز الٰہی پھر درمیان میں آئے اور چھوٹے بٹالوی صاحب کو ایک خطیر مگر ”حقیر“رقم دلوا کر PDF اپنے دوسرے دوست کو دلوا دی۔ جہاں پہنچ کر PDF کی سکیم ،کروڑپتی سکیم میں بدل گئی....
اصل کہانی اب شروع ہوتی ہے ....
پنجاب ڈویلپمنٹ فنڈ کس قانون کے تحت بنا؟ لاٹری نما انعامی سکیم کاآئیڈیا کس کا تھا؟ بنک کا کیارول تھا؟ جویہ انعامی سکیم چلارہاتھا اس کاکیا کردارتھا؟
آج تک اس بارے میں مکمل خاموشی ہے!!!
آئیڈیا یہ تھا کہ اس سکیم کی 25,25روپے کی ٹکٹیں بیچی جائیں گی۔ ہر دو ماہ بعد قرعہ اندازی ہوگی۔ ان دوماہ میں کم از کم 2ارب روپے جمع کرنے کامنصوبہ بنایا گیا تھا۔ ہر قرعہ اندازی میںڈھائی کروڑ کے انعامات بانٹے جانے تھے! پنجاب کے اس ترقیاتی فنڈ کی پہلی قرعہ اندازی 23اگست 2004 کو ہوئی۔ ساتھ ہی خبریں سامنے آنا شروع ہوگئیں کہ لوگوں کو انعامات نہیں مل رہے!ایک آدھ قرعہ اندازی اوربھی ہوئی .... ہر دو ماہ بعد ہونے والی قرعہ اندازی مہینوں پر طویل ہوتی گئی۔ اس دوران ٹکٹ بکتے رہے ۔آخری قرعہ اندازی 23جون 2005 کو ہوئی جس میں انعام یافتگان کا نام توپکاراگیا مگر ان کو انعامی رقم نہ مل سکی اس لئے کہ سندھ ہائی کورٹ کے دو قابل احترام ججوں (جواب سپریم کورٹ کے جج ہیں) جسٹس سرمد جلال عثمانی اور جسٹس امیرہانی مسلم نے لاڑکانہ کے ایک شہری کی شکایت پر پنجاب حکومت کو انعام بانٹنے سے روک دیا! درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ اس نے PDF لاٹری کے 31ٹکٹ خریدے تھے جن میں دوٹکٹوں پر ایک ہی نمبر درج تھا!! جب اس نے اس غلطی کی نشاندہی ٹکٹیں بیچنے والی کمپنی کو کی تو اسے دھمکیاں دی گئیں.... عدالت ِ عالیہ نے یہ ریمارکس بھی دیئے کہ فیڈرل شریعت کے لاٹری کے خلاف دیئے گئے فیصلے کی روشنی میں بظاہر اس سکیم کو جاری نہیں رکھا جاسکتا!!یہاں پہنچ کر کہانی اچانک ختم ہو جاتی ہے اور سوالات شروع ہوجاتے ہیں۔O.... کیا وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے یہ لاٹری نما فنڈ قائم کرنے کے لئے صوبائی اسمبلی سے کوئی قانون منظور کرایا تھا؟O.... اس سکیم کو درحقیقت چلا کون رہا تھا؟ بنک یاکوئی اور؟O.... کیا اس ساری سکیم کا کوئی تھرڈ پارٹی آڈٹ کسی چارٹرڈ فرم سے کرایا گیا؟O.... اس سکیم میں بے شمار لوگ قرعہ اندازی جیتنے کے باوجود انعامات سے محروم رہے، ان کا کیا قصورتھا؟O.... اس سکیم میں بے شمارگھپلوں اور دھاندلیوں کی باتیں پھیلیں، جعلی ٹکٹیں بھی پکڑی گئیں؟ کیا اس کی کوئی تحقیقات ہوئیں یا مقدمات درج ہوئے؟O.... کتنی ٹکٹیں چھاپی گئیں (یہ ٹکٹیں ایک حکومتی پریس سے چھپوائی گئیں) کتنی بیچنے کے لئے دی گئیں؟ کتنی بکیں؟ کتنی واپس آئیں؟O.... سب سے اہم سوال.... اس لاٹری سکیم کے ذریعے اربوں روپے جمع کئے گئے۔ اربوں روپے کا یہ فنڈ کہاں غائب ہو گیا؟ کہاں خرچ ہو گیا....؟یہ سارا واقعہ مجھے حالیہ انتخابی مہم میں ایک دوسرے پر لگائے جانے والے الزامات پڑھ کر ذہن میں آیا! دوسرے کی میٹرو بس کو ”جنگلا بس“ کہہ دینا بہت آسان ہے، مگر ساتھ ساتھ اپنے دور ِ حکومت کا حساب بھی تو دیں!! یہ کہہ دینا کہ ”جنگلا بس“ پر 70ارب روپے خرچ ہوئے مگر جب ثابت کرنے کا مرحلہ آئے توخاموشی؟ چہ معنی؟اب آخر میں کوئی یہ ہمیں بھی توکہہ سکتا ہے کہ تمہیں دس سال پرانے گڑے مردے اکھاڑنے کی کیا ضرورت تھی؟ تو اس کے جواب میں ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ اپنا حال اس میرزادے (میراثی کہنا سوئے ادب ہے۔ بوسکی کی قمیص پہننے والا اور کریلے گوشت رغبت سے کھانے والے سب خاں صاحبوں کو ہمارا دست بستہ سلام) کا ہے۔ جو فوج میں بھرتی ہوگیا!جنگ چھڑی تو فوجی دستہ محاذ جنگ پر پہنچ گیا۔ ہر طرف گولیاں چل رہی تھیں ، بم پھٹ رہے تھے! توپوں کی گھن گرج جاری تھی اور میرزادہ خوف سے سہما ہوا مورچے میں دبکا پڑا تھا۔ اس کے ساتھیوں نے اسے غیرت دلانے کی بہت کوشش کی مگر اس کاڈر دور نہ ہوا۔تھوڑا وقت گزرا، یکایک میرزادہ اپنی جگہ سے اٹھا، بندوق ہاتھ میں پکڑی اور کشتوں کے پشتے لگا دیئے۔ دشمن ڈر کر بھاگ گیا۔ فوجی دستے کا افسر بہت حیران ہوا کہ چند لمحے پہلے تک میرزادہ خوف سے دبکا پڑا تھا۔ یکایک اتنا بہادر کیسے ہوگیا! افسر نے اسے بلاکرشاباش دی اور بہادری کی وجہ پوچھی۔ میرزادہ کہنے لگا!”سرجی.... میں واقعی ڈررہا تھا کہ گولیاں چل رہی تھیں کہیں کوئی مجھے بھی نہ لگ جائے.... مگر سر جب.... دشمن نے وہ سامنے کریلے کے کھیت میں گولہ پھینکا تومجھ سے کریلوں کی توہین برداشت نہیں ہوئی .... میں نے کہا کریلے نہیں توکچھ بھی نہیں.... جا بچہ جان پرکھیل جا! سو میں جان پرکھیل گیا!“توصاحبو.... ہم بھی ایسے ہی میرزادے ہیں۔ بڑی مشکل سے خوابوں کے کریلے اگاتے ہیں۔ یہ چودھری، یہ میاں، یہ زرداری.... سب لوگ دروغ کے گولے برسا کرہمارے کریلوںکا کھیت اجاڑ دیتے ہیں!انہیں جواب تو دینا ہی پڑے گا!!
تازہ ترین