• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یارو… الیکشن کمیشن کی ”رضیہ“ اس وقت ہمارے عظیم سیاسی اشرافیہ میں گھر چکی ہے۔ اس کی چٹکیاں لی جا رہی ہیں۔ دوپٹہ کھینچا جا چکا ہے بس آج کے دن شام چھ بجے تک اسے بچایا جا سکتا ہے!
ہے کوئی پاکستان کے 18 کروڑ عوام میں سے کوئی غیرت مند جو اس کی مدد کو پہنچے!
میری یہ اپیل نسیم حجازی کے ناولوں کے ہیرو کی طرح نہیں، بلکہ یہ اس ملک کے عوام اور ان کی آل اولاد کے مستقبل کا سوال ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے دو معزز ارکان جسٹس (ریٹائرڈ) ریاض حسین کیانی نے جنگ کے حافظ طاہر خلیل سے جسٹس (ر) ریٹائرڈ) اکبر خان نے ”دی نیوز“کے انصار عباسی سے علیحدہ علیحدہ گفتگو کرتے ہوئے جو ارشادات فرمائے، وہ قندِ مکرر کے طور پر ملاحظہ فرما لیجئے!
جسٹس کیانی: حکومت الیکشن کمیشن کو با اختیار نہیں بنانا چاہتی۔ انتخابی اصلاحات اور قوانین میں ترمیم کا مسودہ حکومت نے پھاڑ کر پھینک دیا ہے کیونکہ ہم چوروں، ڈاکوؤں اور لٹیروں کو پکڑنے جا رہے تھے“
جسٹس شہزاد اکبر: ”اگر حکومت انتخابی اصلاحات کا مسودہ منظور نہیں کرتی تو 100 فیصد شفاف اور آزاد انتخابات کی ضمانت نہیں دے سکتے۔“
”اس وقت ہم آزاد ضرور ہیں با اختیار نہیں۔ انتخابی قوانین میں ترامیم منظور نہ ہوتیں تو ہم داغدار افراد کو رکن بننے سے نہیں روک سکتے۔“
جج کا منصب بڑا پُر وقار ہوتا ہے۔ شاید دونوں ججوں نے اپنے وقار کا لحاظ رکھتے ہوئے، کسی کا نام نہیں، صرف حکومت ،حکومت کہا ہے!
مگر صاحبو… ہم نہ تو جج ہیں نہ ہمارا کوئی DECORUM اس لئے سچ ہم سے سن لیجئے!
صدر زرداری اور ان کے کھل نائیک کا ذکر تھوڑی دیر بعد، پہلے باقیوں کے چہرے شناخت کر لیجئے! سب سے پہلے تین صالحین کی بات جو اتنے نیک ہیں کہ دہشت گردوں نے بھی حکومت سے مذاکرات کرنے کے لئے ان کی گارنٹی مانگی ہے۔ میں ذکر کر رہا ہوں، نویں آئینی ترمیم کے ذریعے امیر المومنین بننے کے خواہش مند میاں محمد نواز شر یف،پاکستان میں ہر حکومت کا ساتھ دینے والے مولانا فضل الرحمان اور جماعت اسلامی کے نیک سربراہ منور حسن صاحب! جناب میاں نواز شریف پاکستان میں میرٹ اور شرافت کے سب سے بڑے داعی ہیں، مگر جب چوروں، ڈاکوؤں اور لٹیروں کو انتخابی عمل سے باہر کرنے کی بات آتی ہے تو ان کی گگھی بند جاتی ہے اور متوقع انتخابی نتائج انہیں ڈرانے لگتے ہیں، شاید اس لئے کہ خائن لوگوں کا ایک بڑا گروہ ان کے پروں کے نیچے پناہ لئے ہے!
مولانا فضل الرحمان سیاسی بٹیر بازی میں ماہر اور سیاسی شطرنج کے شاطر ہیں لیکن 63,62 کا بھوت انہیں بھی خوابوں میں ڈراتا ہے۔
منور حسن صاحب کے کیا کہنے… ایم کیو ایم کے خلاف کراچی میں شکایات تھیں تو مسلم لیگ (ن) کے ساتھ کراچی سے اسلام آباد تک ٹرین مارچ کر کے الیکشن کمیشن سے مدد کے طلب گار ہوئے …مگر چوروں لٹیروں کے خلاف انتخابی قوانین کی بات آئی تو وہ بھی کومے میں چلے گئے۔
ملک میں مڈل کلاس کی قیادت لانے کی دعویدار، شیخ الاسلام کے لانگ مارچ کے ہمدرد ایم کیو ایم والے بھی اس مسئلے پر چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ آخر کیوں؟ کیا اب کی قیادت اور ان کے انتخابی امیدوار کلین نہیں؟
ایک جوڑی چوہدری صاحبان کی ہے! جنرل ضیاء سے جنرل مشرف تک ہر جرنیل کے گود سوار، چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الٰہی کی سیاست تو فوجی جرنیلوں کے زیر سایہ ہی چمکتی ہے اس لئے کہ ”اس بلغمی مزاج کو گرمی ہی راس ہے“ جمہوریت کے وقفے میں یہ ’ڈنگ ٹپاؤ‘ سیاست کرتے ہیں… 62 63, کے مسئلے پر ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ ”جپھیاں پپیاں“ کرنے والے دونوں چوہدری بھائی آج کیوں خاموش ہیں؟؟
اے این پی کے اسفند یار ولی کا ذکر کیا کرنا، بے چارے دوبئی اور ملائیشیا کا مسافر ہیں۔ صدر زرداری کے بینڈ باجہ میں ”شامل باجہ بن کر“ ”پاں پاں“ کرتے رہے! کہاں کی سرخ پوشی؟ کہاں کی خدائی خدمتگاری اب تو صرف خدمتِ زرداری ہے!
جہاں تک خود زرداری صاحب کا تعلق ہے تو ان کی خاموشی اس ایک کہے سنے واقعے (دروغ بر گردن راوی) سے سمجھ میں آ سکتی ہے انہوں نے گزشتہ پانچ برسوں میں لوگوں کو اتنی گولیاں دیں کہ ان کا ایک بے تکلف دوست بھی پھٹ پڑا۔ اس نے کہا،
زرداری صاحب آپ لوگوں کو دھوکے میں کیوں رکھتے ہیں؟“
زرداری صاحب نے اپنے مخصوص لہجے میں کہا
”تجھے پتہ ہے… میرا خاندانی بزنس کیا تھا؟
دوست نے کہا ”مجھے کیا پتہ آپ بتائیں“
زرداری صاحب نے کہا ”میرے والد کے دو سینما گھر تھے۔ میں لوگوں کو فلمیں دکھایا کرتا تھا۔ فلم اندھیرے میں ہی دکھائی جا سکتی ہے۔ روشنی میں نہیں… میں آج بھی پورے پاکستان کو اندھیرے میں فلمیں ہی دکھا رہا ہوں!
یارو…مسئلہ بہت نازک ہے۔ پھر سے وہی لٹیرے اسمبلیوں میں آ گئے خواہ ان کا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو، ہمیں اندھیرے میں ہی فلمیں دیکھنے کو ملیں گی۔
میں خود علامہ طاہر القادری کا ناقد ہوں… ان کا ماضی اتنا رنگین و سنگین ہے کہ آپ دو گھنٹے تقریر کر سکتے ہیں۔ ان کی سیاسی حکمت عملی مذاق ہو سکتی ہے۔ ان کے دلائل کم تر ہو سکتے ہیں … لیکن خدا لگتی کہیے کیا اس پاکستان کے ہر سیاسی راہنما نے ان کے مطالبات سے اتفاق اور ہمدردی کا اظہار نہیں کیا تھا“ یہ درست ہے کہ سپریم کورٹ نے انہیں ”ٹیکنیکل گراؤنڈز“ پر ”ڈز“ کر دیا تھا… مگر ان کے مطالبات کا بھوت آج بھی زندہ ہے بلکہ پھر سے سسٹم پر یلغار کرنے کے لئے تیار ہیں سب خون کے پیاسوں نے ہرنام سنگھ کی بیوی کی طرح ڈاکٹر طاہر القادری سے کچھ یوں ”مذاق رات“ کئے کہ ڈاکٹر صاحب نے عزت بچانے میں ہی غنیمت سمجھی! یہ ”کنٹینر مذاکرات“کچھ یوں ہوئے تھے
ہرنام سنگھ کی بیوی نے پوچھا ”سردار جی… آج رات کیا پکاؤں؟“
ہرنام سنگھ نے کہا ، ”کچھ بھی بنا لو“
بیوی نے کہا ”نہیں جو آپ فرمائش کریں گے!“
ہرنام سنگھ: دال چاول پکا لو؟
بیوی نے کہا ”لو آج دوپہر ہی تو کھائے تھے “
”تو اچھا… روٹی سبزی بنا لو…!“
بیوی : بچے نہیں کھائیں گے“
ہرنام نے کہا، ”اچھا آلو انڈہ بنا لو!“
بیوی ”ماس، مچھی، انڈہ… میں نہیں کھاتی!“
ہرنام ”پراٹھے بنا لو“
بیوی: ”رات کوبھی کوئی پراٹھے کھاتا ہے“
ہرنام: ہوٹل سے کچھ منگوا لیتے ہیں؟
بیوی: ”روز روز باہر کا کھانا… غلط ہے“
ہرنام: اچھا کڑی چاول بنالو!
بیوی: دہی نہیں ہے گھر میں!
ہرنام: اچھا… سب چھوڑو ”نوڈلز“ بنا لو
بیوی: نوڈلز سے پیٹ نہیں بھرے گا
ہرنام: تو پھر کیا بنانا چاہتی ہے… کمینی عورت!
بیوی (پیار سے) جو آپ فرمائش کرو!
صاحبو… آج انتخابی ترامیم نہ ہوئیں تو بقول الیکشن کمیشن ”پھر داغدار ماضی والے لوگ آ جائیں گے… آج کے دن آپ کسی کو کچھ سمجھا سکتے ہیں تو سمجھا لیں۔ منوا سکتے ہیں تو منوا لیں ورنہ پھر سے اندھیرے میں فلمیں دیکھنے کے لئے تیار ہو جائیں!! لیکن ایک بات یاد رکھیئے! مذہب، قانون اور اخلاقیات کا اطلاق… طبقہ اشرافیہ پر نہیں ہوتا۔ کھال ان کی گینڈے سے بھی موٹی ہوتی ہے…نصیحت مشورہ دینے والے کو یہ بھی طاہر القادری کی طرح ماموں بنا دیتے ہیں ۔
تازہ ترین