• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بچپن میں پڑھا تھا، ’’صحت ایک عظیم نعمت، بہت بڑی دولت ہے‘‘تو خیال آیا کہ صحت کو دولت سے کیوں تشبیہہ دی گئی کہ دولت سے توکچھ بھی خریدا جا سکتا ہے۔لیکن برسوں پہلے پڑھے اس سبق کے اصل معنی و مفہوم آج کے حالات دیکھ کر با آسانی سمجھ آرہے ہیں بلکہ اب تو ہمارا خیال ہے، ’’صحت ان مول ہے‘‘ کہ دولت انسان کو چُست درست، چلتا پھرتا، ایکٹیو نہیں رکھ سکتی ، ہاں صحت ہو تو انسان کوئی بھی کام با آسانی سر انجام دے سکتا ہے، بلکہ دنیا جہاں کی مال و دولت بھی کما سکتا ہے۔ اورصحت نہ ہو تو دنیا کی محنتی ترین اقوام میں شمار ہونے والی ، سخت جفا کش، ذہین اور کام یاب ترین قوم، چین بھی سر پکڑنے اور گھروں میں رہنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔

دسمبر 2019ءکے آ?خری دِنوں میں ووہان شہرکے اسپتال میںمعمولی نزلہ، بخار کے چند مریض لائےگئے، جنہیں معمول کے ٹیسٹس کے بعد دوا دے کر گھر بھیج دیا گیا۔ تاہم، مریض صحت یاب ہونے کے بجائے مزید بیمار ہوتے چلےگئے۔ اُنہیں سانس لینے میں مشکلات کا سامنا تھا، یہاں تک کہ کھانا پینا بھی دشوار ہوگیا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ بخار بڑھتا رہا۔ 

انہیں دوبارہ اسپتال لایا گیا ،لیکن معمول کے ٹیسٹس میں کوئی خطرناک بات سامنےنہیں آئی۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق 31دسمبر 2019ء کو ایک مریض میں ’’Novel coronavirus (2019-nCov)‘‘ کے نام سے بیماری کی تشخیص ہوئی۔ جنوری کے پہلے ہفتے میں چین کے ڈاکٹرز نے عوام کے لیے ایک انتباہ جاری کیا، جس میں بتایا گیا کہ ووہان میں نمونیا کی طرح کا ایک مرض پھیل رہا ہے، جس کی وجوہ تاحال معلوم نہیں ہو سکی ہیں۔

اسی عرصے میں کھانسی، نزلہ، بخار اور سانس لینے میں شکایت کی تکلیف کے شکار مریضوں سےحاصل ہونے والی معلومات سے اندازہ لگایا گیا کہ تمام مریضوں کا تعلق علاقے میں واقع ، ’’ہوانان سی فوڈ مارکیٹ‘‘ سےہے، جہاں سمندری اور جنگلی جانور فروخت ہوتے ہیں۔ حکام نے مارکیٹ بند کرکے فوری طور پروہاں جراثیم کُش ادویہ کا چھڑکاؤکروا دیا۔ واضح رہے کہ یہ مارکیٹ جنگلی جانوروں کی غیر قانونی تجارت کے لیے مشہور ہے، جن میں سانپ، ریکون ، چمگادڑاور خارپشت وغیر ہ شامل ہیں۔ان جانوروں کو پنجروں میں رکھا جاتا اور خوراک یا دواؤں کے لیے فروخت کیا جاتا ۔ خیال رہے کہ چین، دنیا بھر میں جنگلی جانوروں کا قانونی اور غیر قانونی طور پر سب سے بڑا خریدار ہے۔ 

ناول کورونا وائرس
کورونا سے متاثرہ نومولود

عالمی ادارۂ صحت کے مطابق مریضوں کی تعداد بڑھنے کی صُورت میں چینی حکّام نے میڈیکل سرویلنس آلے کی مدد سے معلوم کیا کہ یہ ’’سارس‘‘ (severe acute respiratory syndrome)، کے خاندان سے تعلق رکھنے والا،جس کی وجہ سے 2003ءمیں چین میں بڑی تعداد میں انسانی جانوں کا زیاں ہوا تھا، ایک نئی طرح کا وائرس ہے، جو نمونیا جیسی اس کیفیت کی وجہ بن رہا ہے۔اس وائرس کو ’’ناول کورونا وائرس (2019-nCoV)‘‘کا نام دیا گیا کہ ناول کا مطلب ’’نیا ‘‘ ہوتا ہے۔ یعنی2019 ء سے پہلے اس طرح کا کوئی وائرس دنیا میں کہیں دیکھنے میں نہیں آیا۔محنت کَشوں کے مُلک میں یہ وائرس ایسے وقت میں سامنے آیا، جب چینی عوام نیا قمری سال منانے کی تیاریاں کررہے تھے، مگر وبا پھوٹنے کی خبر پھیلتے ہی جیسے ساری خوشیوں پر پانی پِھر گیا۔

ہر قوم کی طرح چینی قوم بھی اپنے بیش ترتہوار اپنے پیاروں کے ساتھ مناتی ہےاور ایسے مواقع پر کروڑوں افراد اپنے آبائی علاقوں کا رُخ کرتے ہیں، لیکن اس مرتبہ ایسا نہیں ہوا۔ چینی عوام نے خود کو اور اپنے پیاروں کو مہلک وائرس سے بچانے کے لیے تما م سفری سرگرمیاں منسوخ کر کے خود کو محدود کرلیا۔ جب کہ اس موقعے پر چینی حکومت نے ووہان شہر کے، جہاں متاثرین کی تعداد سب سے زیادہ ہے ، تمام فضائی اور زمینی راستے عارضی طور پر بند کرکے لاک ڈاؤن کردیا ۔ 

ناول کورونا وائرس
’’ہوانان سی فوڈ مارکیٹ ‘‘کا بیرونی منظر

واضح رہے کہ ووہان کی کُل آبادی قریباً 11 ملین ہے، جو لندن سے پانچ گُنا زیادہ ہے۔ اور تادمِ تحریر اتنی بڑی آ?بادی کا حامل یہ شہر’’ قرنطینہ‘‘ یا’’ طبّی قید‘‘ میں ہے،جس پر عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں نے کچھ شوربھی مچایا اور احتجاج بھی کیا۔ تاہم، یہ تمام آ?وازیں چینی باشندوں ، بالخصو ص ووہان شہر کے باسیوں ہی کے باعث دَم توڑ گئیں کہ جنہوں نے اس عارضی بندش کو وبائی صورتِ حال پر قابو پانے کے لیے حفاظت سے تعبیر کیا اور وہ خوش ہیں کہ اس عارضی لاک ڈاؤن کی وجہ سے دنیا بھر کے لوگوں کو تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے۔

چینی سائنس دانوں نے ناول کوروناوائرس یا ووہان وائرس کووائرسز کے ایک خاندان کورونا سے جوڑا ہے، جس میں 2000ءکی دَہائی کا خطرناک ’’سارس وائرس‘‘ بھی شامل ہے، اسے سارس کاکزن بھی کہا جارہاہے ، کیوں کہ دونوں وائرسز کی علامات مشترک ہیں۔ 2002ءمیں نظامِ تنفّس کو متاثر کرنے والی بیماری ، سارس جو کہ کوروناوائرس ہی کی وجہ سے پُھوٹی تھی، اس میںقریباً آ?ٹھ ہزارافرادمتاثر ہوئے تھے، جن میں سے قریباً 774ہلاک ہوگئے تھے۔

اب تک کورونا کی 13اقسام دریافت ہوچکی ہیں، جن میں سے 7ایسی ہیں، جو جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوسکتی ہیںاورناول کورونا وائرس انہی میں سے ایک ہے۔ کورونا وائرس کو جراثیم کی ایک نسل، coronaviridae کا حصّہ قرار دیا جاتا ہے۔عموماً اس طرح کے وائرسز جانوروں میں پائے جاتے ہیں، جن میں مویشی، پالتو جانور، جنگلی حیات جیسے، چمگادڑ وغیرہ شامل ہیں۔یہ دودھ دینے والے جانوروں اور پرندوں سے انسانوں میں منتقل ہوتاہے۔ایک بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق ابتدائی کیسز ،مشرقی چین کی سی فوڈ ہول سیل مارکیٹ سے سامنے آئے۔

اس مارکیٹ میں مرغیاں،چمگادڑ اور خرگوش بڑی تعداد میں رکھے جاتےہیں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ ہو سکتا ہے وائرس انہی میں سے کسی جانورسے انسانوں میں منتقل ہوا ہو۔یاد رہے،چین میںجنگلی جانور غذاکے طور پر بھی استعمال کیےجاتے ہیں ، مگر یہ بھی ممکن ہے کہ کسی انسان کی کورونا وائرس سے متاثرہ کسی جانور سے قربت وائرس کے پھیلاؤکا سبب بنی ہو۔ عالمی ادارۂ صحت کی جانب سے قائم کردہ ہیلتھ ایمرجینسی پروگرام اور کورونا وائرس کی تشخیص وعلاج کرنے والی ٹیم کی نگران، ڈاکٹر ماریہ وینکوواکا کہنا ہے کہ ’’پھیپھڑوں کو متاثر کرنے والی یہ وَبا،کھانسی، چھینکوں اور جانوروں ، انسانوں کے میل جول سے بھی ایک دوسرے کو لگتی ہے۔

ناول کورونا وائرس
کورونا وائرس کی سب سے پہلے تشخیص کرنےاور اسی مرض میں مبتلا ہو کر ہلاک ہونے والے ڈاکٹر،لی وین لیانگ 

ووہان وائرس سے متاثر جن مریضوں کو ابتدا میں محض معمولی نزلہ، کھانسی یا بخار کا مریض سمجھ کر گھر بھیجا گیایا اسپتال میں جن نرسز، ڈاکٹرز نے ان کا علاج کیا ، تو دورانِ علاج یا دیکھ بھال کے دوران ،ان مریضوں کے جراثیم سے بھی متاثرین کی تعداد میں خاصااضافہ ہوا۔‘‘واضح رہے کہ دنیا کو سب سے پہلے کورونا وائرس سے خبر دار کرنے والے ڈاکٹر،لی وین لیانگ بھی گزشتہ دنوں اسی مرض کا شکار ہوکر ہلاک ہو گئے۔ اس وائرس کو انفلواینزا کی ایک قسم بھی کہا جا سکتا ہے، جو ناک کے ذریعے پھیپھڑوں میں منتقل ہوتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اس سے متاثرہ مریضوں کو سانس لینے میں سخت تکلیف اور دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کورونا وائرس نزلے کی علامت سے شروع ہو کر مریض کی ہلاکت کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ یاد رہے کہ یہ ضروری نہیں کہ اس وائرس سے متاثرہ ہر فرد کی جان کو خطرہ ہو، بلکہ کچھ مریضوں کو محض ہلکا پُھلکا بخار، کھانسی، نزلہ اورکچھ کو نمونیا کی سی کیفیت ہوتی ہے،البتہ اس کی تیسری قسم جان لیوا ثابت ہوتی ہے، جس میں ، سانس لینے میں سخت دشواری ،تیز بخار، کھانسی کے ساتھ نمونیا کا اٹیک ہوتا ہے۔

ویسے یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ کورونا وائرس ان افراد پر زیادہ اثر انداز ہوتا ہے، جن کی قوتِ مدافعت کم زور ہو۔چینی ماہرین اور برطانیہ کے ممتاز طبّی جریدے، دی لانسٹ کی ابتدائی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ’’ ووہان وائرس 49 سے 56 برس کے مَردوں کو زیادہ متاثر کر رہا ہے۔‘‘امریکن جرنل آف میڈیکل ایسوسی ایشن میں ڈاکٹر کارلوس ریو کے ایک مضمون میں مختلف اسٹڈیز کے حوالے سے یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ ’’بعض اوقات ناول کورونا وائرس علامات ظاہر ہونے سے قبل بھی ایک سے دوسرے شخص کو منتقل ہو سکتا ہے۔ عام طور پر جس مریض میں وائرس کی علامت ظاہر ہوں اسے دوسروں سے الگ رکھ کر بچاؤ کیا جا سکتا ہے۔ تاہم، اگر کسی میں وائرس موجود ہے اور علامات ظاہر ہونے سے پہلے یہ دوسرے انسان کو منتقل ہو رہا ہے، تویہ زیادہ خطرناک صُورتِ حال ہے۔ 

مگر زیادہ تر کیسز میں یہ وائرس علامات ظاہر ہونے کے بعد مریض سے دوسرے شخص کو منتقل ہوتا ہے۔ مریضوں میں سب سے زیادہ پائی جانے والی علامات میں بخار، خشک کھانسی اور سانس پھولنا ہیں۔ کچھ مریضوں میں پٹّھوں کا درد ، گلے کی خرابی اور ڈائیریا کی علامات بھی ظاہر ہو سکتی ہیں۔‘‘ویسے ہمیں دیگر لا تعداد نعمتوں کے ساتھ ، اس بات پر بھی اللہ پاک کابے حد شُکر گزار ہونا چاہیے کہ اُس رحمٰن نے ہمیں مسلمان بنایا اور نہ صرف حلال کمانے، بلکہ حلال کھانے اور حلال جانوروں کو ذبح کرکےکھانے کا بھی حکم دیاکہ بے شک، وہی رحمٰن جانتا ہے کہ اُس کی کون سی مخلوق انسانوں کے لیے مُضر ہے اور کون سی مفید۔

یہاں پریشان کُن امر یہ ہے کہ ناول کورونا وائرس سے نہ صرف چین ،بلکہ امریکا، برطانیہ، جاپان، فلپائن، ہانگ کانگ، بھارت، کینیڈا، روس، اٹلی، فرانس سمیت دنیا کے 28ممالک متاثر ہوچُکے ہیں۔ تادمِ تحریر،دنیا بھر میں اس وائرس سے متاثرین کی تعداد34,546تک جا پہنچی ہے، جن میں سے 722افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ وائرس سے متاثرین میں ایک نومولود بچّہ بھی شامل ہے، خیال رہے کہ یہ وائرس دورانِ حمل ماں سے بچّے کو منتقل ہوا، جو پیدائش کے بعد سامنے آیا۔ 

کورونا وائرس کے تیزی سے پھیلنے کے سبب عالمی ادارۂ صحت سمیت امریکا نے بھی ہیلتھ ایمرجینسی نافذ کردی ہے۔ گوکہ 500مزدوروں نے مل کر دو دن کے اندر اندر چین میں مرض کے علاج کے لیے خصوصی اسپتال تعمیر کیا، مگر سیکڑوں ہلاکتوں اور ہزاروں افراد کے متاثر ہونے کے با وجود چین کے محقّقین، ماہرین سمیت دنیا بھر کی ادویہ ساز کمپنیاں تا حال وائرس کا کوئی علاج یا دریافت یا ویکسین تیار نہیں کر پائیں۔ 

ایک ہزار بستروں پر مشتمل اسپتال عوام کے لیے کھول تو دیا گیا ،لیکن جب تک وائرس کی روک تھام اور علاج دریافت نہیں ہوتا،مرض کے پھیلاؤ کا خطرہ سَروں پر منڈلاتا رہے گا۔یوںتو دنیا کے کئی ممالک اس وَبا کی لپیٹ میں ہیں، لیکن ہمارے لیے یہ صُورتِ حال مزید پریشان کُن اس لیے ہے کہ چین نہ صرف ہمارا ہم سایہ ، بلکہ قریبی دوست مُلک بھی ہے۔ اور اب تو سی پیک کی وجہ سے اس کے ساتھ سماجی و معاشی تعلقات بھی مزید گہرے ہوگئے ہیں۔ یہاں چینی باشندوں کی آمد و رفت نہ صرف تسلسل سے جاری رہتی ہے، بلکہ کثیر تعداد میںچینی رہائش پذیر بھی ہیں۔ 

ایک اندازے کے مطابق صرف وفاقی دارالحکومت، اسلام آبا د میں قریباً دو ہزار سے زاید چینی باشندےرہائش پذیر ہیں۔گوادراورکراچی میں رہنے والوں کی تعداد الگ ہے۔نیز، ایک انتہائی فکر انگیز بات یہ بھی ہے کہ اس وقت ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی بچّے چین میں زیرِ تعلیم ہیں۔ چینی محکمۂ تعلیم کی گزشتہ برس کی ایک رپورٹ کے مطابق چین میں 28,023پاکستانی طلبہ زیرِ تعلیم ہیں، جب کہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق اس وقت صرف ووہان میں 500پاکستانی طلبہ زیرِ تعلیم ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جب چین میں مہلک وبا پھیلنے کی خبر سامنے آئی، تو پاکستانی والدین میں فکر کی لہر دوڑ گئی۔ 

دیگر ممالک نےتو اپنے طلبہ کو چین سے واپس بلانے کے لیے فوری سفارتی سرگرمیاں شروع کر دیں،لیکن ابتدائی طور پر پاکستانی حکومت نے اپنے طلبہ نہ بلانے کا فیصلہ کیا۔جنوری کے اواخر میں پاکستانی وزارتِ خارجہ کی جانب سے کہا گیا کہ ’’ اس وقت یہی پاکستان اور پاکستانی عوام کے مفاد میں ہے کہ چین میں زیرِ تعلیم طلبہ کو واپس نہ بلایا جائے کہ ان کے یہاں آنے سے پاکستان میں بھی کورونا وائرس پھیلنے کا خدشہ ہے۔‘‘البتہ وزیرِ خارجہ، شاہ محمود قریشی نے اپنے ہم منصب سے فی الفور رابطہ کیا اور پاکستانی طلبہ کی صحت ، خیریت دریافت کی۔ 

دوسری جانب وزارتِ خارجہ نے بتایا کہ ہمیں اپنے طلبہ کی فکر ہے اور یہی وجہ ہے کہ وزارتِ خارجہ اور چین میں موجود پاکستانی سفارتی عملہ مستقل چینی حکّام سے رابطے میں ہے۔ تاہم، والدین اور چین میں موجود چند پاکستانی طلبہ کی جانب سے اس فیصلے پر شدید ردّ ِ عمل سامنے آیا اور صورتِ حال نے سنگینی اُس وقت اختیار کی ، جب وہاں موجود 4 پاکستانی طلبہ میں وائرس کی تشخیص ہوگئی، گرچہ سیکیورٹی وجوہ کی بنا پر ان کے نام سامنے نہیں لائے گئے اور وزارتِ خارجہ کی جانب سے بھی میڈیا سے یہی اپیل کی گئی کہ طلبہ کے نام جاننے کی کوشش نہ کی جائے۔

جہاں پورےبین الاقوامی میڈیا کی نظریںاِس وقت چین پر لگی ہوئی ہیں، وہیں میڈیا پاکستانی طلبہ کو بھی خوب ہائی لائٹ کر رہا ہے ، کیوںکہ ساری دنیا کو معلوم ہے کہ چین کے ہمارے ساتھ کتنے گہرے روابط ہیں۔ اس موقعے پر چین میں زیرِ تعلیم ایک طالب علم، محمّد رؤف نے غیر مُلکی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ’’مجھ سمیت قریباً چالیس طلبہ ووہان میں پھنسے ہوئے ہیں۔ 

آخر یہ لاک ڈاؤن کب تک جاری رہے گا؟ہم کیا کریں؟ ہم گزشتہ دس روز سے اپنی حکومت سے مسلسل مطالبہ کر رہے ہیںکہ وہ جلد از جلد ہمیں یہاں سے نکالے۔‘‘ صرف محمّد رؤف ہی نہیں، بلکہ کئی پاکستانی طلبہ نےویڈیو پیغامات کے ذریعے پاکستانی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا اور اُنہیں وہاں سے جلد از جلد نکالنے کا مطالبہ کیا۔ لیکن اس کے ساتھ ایسے طلبہ بھی سامنے آئے، جنہوں نے حکومتِ وقت کے فیصلے اور اقدام کو سراہا۔ چین میں موجود ایسے ہی ایک پاکستانی طالبِ علم نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کل چین میں حالات بہت سنگین ہیں اور ہمیں اپنی یونی وَرسٹی اور چینی حکومت کی جانب سے کئی قسم کی پابندیوں کا سامنا ہے۔ 

تاہم، ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ یہ طبّی قید یا پابندیاں ہماری بھلائی کے لیے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر ہمارا طبّی معائنہ ہورہا ہے۔ علاوہ ازیں، چینی حکومت ہمارے کھانےپینے کا بھی خاص خیال رکھ رہی ہے اور وہ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ ہمیں حلال کھانا ہی دیا جائے۔ ‘‘واضح رہے کہ پاکستان ، چین کے مابین معطّل فضائی آپریشن اب بحال ہوچُکا ہے۔3فروری کو پہلی پروازاسلام آباد ایئرپورٹ پہنچی ، توپہلے ہی روزچین سے 3پروازوں کے ذریعے 40طلبہ سمیت 183مسافر اسلام آباد آئے، جن میں 172پاکستانی اور11چینی باشندے شامل تھے۔

ائیرپورٹ پر وزارت ِصحت کی جانب سے خصوصی ڈیسک بنائےگئے ہیں، جہاں چین سے آنےوالوں کا میڈیکل چیک اَپ اورا سکریننگ کی جا رہی ہےاور مکمل طبّی معائنے کے بعد ہی تمام مسافروں کو گھر جانے کی اجازت دی گئی۔اس موقعےپرمعاونِ خصوصی برائے صحت ،ڈاکٹر ظفرمرزا نے بھی اسلام آباد ایئرپورٹ کا دورہ کیا اور مسافروں کی اسکریننگ کے انتظامات کا جائزہ لیا۔ان کا کہنا تھا کہ ’’ حکومت ِپاکستان ہر ممکنہ ہنگامی صورتِ حال کے لیے تیار ہےاور قومی ادارۂ صحت میں ممکنہ کروناوائرس کیسز کی تشخیص کی سہولت موجود ہے۔‘‘

اپنے پیاروں کی فکر بجا، لیکن ایسے مواقع پر ہمیں مِن حیث القوم ہوش سے کام لیتے ہوئے یہ ضرورسوچنا چاہیے کہ جب چین جیسے ترقّی یافتہ مُلک میں وائرس کی وجہ سے اس قدر تشویش ناک صورتِ حال ہے، تو خاکم بدہن ، اگر پاکستان میں یہ وائرس پھیل گیا ،تو اس کی روک تھام کیسے ممکن ہو گی کہ جس مُلک میں ڈینگی پر قابو پانا ممکن نہیں، وہاں نا ول کوروناوائرس کی تباہ کاریوں کا اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا۔

چینی معیشت خطرے میں …؟؟

چین نے امریکا پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ کورونا وائرس پر اپنے ردِّعمل سے خوف و ہراس پھیلارہا ہے۔اس حوالے سے چینی وزارتِ خارجہ کی ترجمان، ہواچھون اینگ کا کہنا ہےکہ’’ امریکی حکومت نے ہماری کوئی ٹھوس امداد نہیں کی،حالاں کہ صحت سے متعلق عمومی بحران میں سب ممالک کو مِل جُل کر کام کرنا چاہیے،نہ کہ دوسرے ممالک کی پریشانیوں سےفائدہ اُٹھایا جائے۔‘‘

واضح رہے کہ چند روز قبل امریکی وزیرِ تجارت، ولبر راس ایک بیان میں کہہ چُکے ہیں کہ ’’چین میں پھیلے وائرس اور صحتِ عامّہ کے مسائل کےخدشات کے سبب امریکا میں روز گارکے مواقع پیدا کرنے میں مدد مل سکتی ہے کہ چین میں کاروبار کرنے کے خواہش مند اب دیگر آپشنز پر غور کریں گے۔‘‘

دوسری جانب وزیرِ اعظم پاکستان کے مشیر برائے تجارت ،صنعت و پیداوار ، ٹیکسٹائل اور سرمایہ کاری، عبدالرّزاق داؤد کا کہنا ہے کہ ’’کورونا وائرس کے باعث موجودہ تجارت اور سی پیک پراجیکٹس کی تکمیل کی رفتار متاثر نہیں ہوگی۔عارضی طور پرچینی تاجروں کےساتھ کاروباری روابط متاثرہوسکتے ہیں، لیکن یہ تعطّل بھی مختصرمدّت کے لیے ہوگا۔‘‘

’’پاکستانی کمیونٹی کا چین میں بھرپور خیال رکھا جا رہا ہے‘‘ ترجمان وزارتِ خارجہ، عائشہ فاروقی

پاکستان نے چین میں زیرِ تعلیم طلبہ کو نہ بلانے کا فیصلہ کیا تو چند طلبہ اور اُن کے والدین کے ساتھ اپوزیشن نے بھی خوب شور مچایا۔ 

اس حوالے سے وزارتِ خارجہ کی ترجمان، عائشہ فاروقی کا کہنا ہے کہ’’ ایک طرف تو اپوزیشن صورتِ حال کی سنگینی، حقائق جانے بنا ،پارلیمانی اجلاسوں میں تنقید کر رہی ہے، تو دوسری جانب سوشل میڈیا پر بھی محض مفروضوں پر غلط فہمیاں پیدا کی جا رہی ہیں۔

ہم مانتے ہیں کہ اپوزیشن ہو یا سوشل میڈیا صارفین، تمام لوگوں کو اپنے شہریوں کی فکر ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی، مستقل اپنے چینی ہم منصب سے رابطے میں ہیں، جنہوں نے یہ یقین دَہانی کروائی ہے کہ چین میں موجود پاکستانی کمیونٹی کواس وبا سے بچانے کے لیے حکومت اپنے تمام تر وسائل استعمال کر رہی ہے۔اور وہ بالکل اپنے شہریوں کی طرح ہی ان کا خیال رکھ رہے ہیں۔‘‘

وائرس جنگلی حیات کے لیے مفید …

اقوامِ متّحدہ کے عالمی ادارہ برائے تحفظِ جنگلی حیات کی جانب سے بارہا انتباہ جاری کیا جا چُکا ہے کہ ہر گزرتے دن کےساتھ جنگلی حیات کے لیے خطرہ بڑھتا جا رہا ہے،مگر انسان کچھ سوچنے سمجھنے پر آمادہ ہی نہیں۔ مبیّنہ طور پرچین کی جس مارکیٹ سے ناول کورونا وائرس پھیلا ، وہ جنگلی جانوروں کی غیر قانونی تجارت کے لیے مشہور ہے۔

چین میں روایتی طور پر جنگلی جانور شوق سے کھائے جاتے ہیںاوریہی امر ان کی معدومیت کا بھی سبب بن رہا ہے۔ یاد رہے کہ آج کل انسانوں میں پھیلنے والے زیادہ تروائرسز جانوروں ہی سے منتقل ہو رہے ہیں۔ ویسے تو کورونا کی وبا پھیلنے کے بعد چین نے عارضی طور پر جنگلی جانوروں کی تجارت پر پابندی عائد کر دی ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ جنگلی حیات کے تحفّظ اور انسانوں کو وائرسز سے محفوظ رکھنے کے لیے ایسی تجارت، بالخصوص معدوم ہوتے جانوروں کی تجارت پر مستقل پابندی عائد کی جائے۔

عالمی ادارۂ صحت افواہوں کےخلاف میدان میں

وائرس کی وبا پھیلتے ہی، سوشل میڈیا پر بھی افواہوں کی وبا پھیل گئی۔ نہ صرف متعددجھوٹی ویڈیوز سامنے آئیں، بلکہ کورونا کے حوالے سے کئی توہمّات، جعلی خبریں بھی دیکھنے میں آئیں۔ یہاں تک کہ عالمی ادارۂ صحت کے سربراہ، ٹیڈروس اذانوم نے ’’افواہوں اور غلط فہمیوں کے پھیلاؤ‘‘ سے پیدا ہونے والے خطرات سے خبردار کرتے ہوئے سوشل میڈیا صارفین سے مطالبہ کیا کہ وہ کوروناوائرس سے متعلق افواہیں پھیلانےسے گریز کریں۔

غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ڈبلیو ایچ او ،گوگل کے ساتھ مل کر اس امر پر کام کر رہا ہے ،جس کے تحت سربراہ عالمی ادارۂ صحت کی معلومات ،کورونا وائرس سے متعلق تلاش کیے گئے مواد میں سرچ انجن کے اوپری حصّے پر آئیں گی۔ واضح رہے کہ عالمی ادارۂ صحت کےکوروناوائرس سے متعلق اہم اجلاس میں بتایا گیا کہ فیس بُک، ٹوئٹر سمیت ٹِک ٹاک بھی مہلک وائرس کے حوالے سے جھوٹی خبروں پر ایکشن لے رہا ہے۔

ناول کورونا وائرس ہوا میں ایک میٹر تک سفر کرتا ہے، ڈاکٹرسید فیصل محمود

آغاخان یونی وَرسٹی میں شعبۂ وَبائی امراض کے سیکشن ہیڈ اور ایسو سی ایٹ پروفیسر، ڈاکٹر فیصل محمود کا کہنا ہے کہ ’’ناول کورونا وائرس، کورونا وائرسز کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ عام الفاظ میں اس وائرس کو ایسے سمجھ سکتے ہیں کہ جیسے زکام خود بخود ٹھیک ہوجاتا ہے، نمونیا ہوجائے تو مریض کی طبیعت زیادہ خراب ہوجاتی ہے، بالکل اسی طرح ناول کورونا وائرس کا مریض خود بخود صحت یاب ہوجاتا ہے، جب خود ٹھیک نہ ہو،تو وہ خطرے اور تشویش کی علامت ہے۔ 

جن لوگوں کی قوّت ِ مدافعت کم زور ہو، ان کا ریکور ہونا مشکل ہوتا ہے۔ ابھی تک جتنی بھی اموات ہوئی ہیں، ان کی بنیادی وجہ قوّتِ مدافعت کی کم زوری ہی ہے۔گوکہ تاحال اس کا کوئی علاج سامنے نہیں آسکا، لیکن چند احتیاطی تدابیر کے ذریعے اس سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔ جیسے، ہاتھوں کو صاف رکھیں، بار بار ہاتھ دھوئیں، بار بار آنکھوں اور ناک پر ہاتھ نہ لگائیں۔ 

اگر آپ کو شدید نزلہ، کھانسی ہو تو باہر نکلنے سے پرہیز کریں۔منہ پرہاتھ رکھ کر چھینکیں ۔ نزلہ ہو تو رومال کا نہیں، ٹشو پیپر کا استعمال کریں اور اسے استعمال کے فوراً بعد پھینک دیں۔ ناول کورونا وائرس ہوا میں ایک میٹر تک سفر کرتا ہے، یعنی اگر آپ مریض سے ایک میٹر دور ہیں، تو یہ آپ کو نہیں لگے گا۔ دوسری اہم بات، آج کل سوشل میڈیا پر بہت سی جعلی خبریں گردش کر رہی ہیں کہ گلا خشک نہیں ہونا چاہیے، کھٹی چیزیں نہیں کھانی چاہئیں وغیرہ، تو ایسی غیر مصدّقہ خبروں کو پھیلانے سے گریز کریں۔‘‘

تازہ ترین